• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ظہیر الدین بابر:بحیثیت بادشاہ زیادہ اہمیت کے حامل ہیں یا بحیثیت شاعر و ادیب؟(دوسرا،آخری حصّہ)۔۔گل بخشالوی

ظہیر الدین بابر:بحیثیت بادشاہ زیادہ اہمیت کے حامل ہیں یا بحیثیت شاعر و ادیب؟(دوسرا،آخری حصّہ)۔۔گل بخشالوی

ممتاز کالم نگار( بی بی سی دہلی) مرزا اے بی بیگ لکھتے ہیں کہ انگریزی کے معروف ناول نگار ای ایم فوسٹر لکھا ہے کہ جدید سیاسی فلسلفے کے موجد میکیاویلی نے شاید بابر کے بارے میں نہیں سنا تھا کیونکہ اگر سنا ہوتا تو ’دی پرنس‘ نامی کتاب لکھنے کے بجائے ان (بابر) کی زندگی کے بارے میں لکھنے میں ا ±ن کی دلچسپی زیادہ ہوتی کیونکہ وہ ایک ایسا کردار تھے جو نہ صرف کامیاب تھے بلکہ جمالیاتی حس اور فنکارانہ خوبیوں سے بھی سرشار تھے۔
مغل سلطنت کے بانی ظہیر الدین محمد بابر (1530-1483) کو جہاں عظیم فاتح کے طور پر دیکھا اور بیان کیا جاتا ہے وہیں کئی حلقوں میں انھیں ایک بڑا فنکار اور عظیم ادیب بھی مانا جاتا ہے۔بابر سے متعلق ماہر تاریخ دان سٹیفن ڈیل نے لکھا ہے کہ یہ طے کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ بابر بحیثیت ایک بادشاہ زیادہ اہمیت کے حامل ہیں یا پھر بحیثیت شاعر و ادیب وہ زیادہ قابل قدر ہیں۔
آج کے انڈیا میں اکثریتی ہندو طبقے کے ایک خاص نظریہ کے حامل افراد میں بابر کو حملہ آور، لٹیرا، غاصب، ہندو دشمن، ظالم و جابر بادشاہ بھی سمجھا جاتا ہے۔ بات صرف یہاں تک محدود نہیں بلکہ انڈیا کی برسراقتدار جماعت صرف بابر ہی نہیں مغلیہ سلطنت سے منسوب ہر چیز کے خلاف نظر آتی ہے۔آج سے تقریباً پانچ سو برس قبل بابر نے ایک ایسی سلطنت کی بنیاد رکھی جو اپنے آپ میں بینظیر ہے۔ انھوں نے سنہ 1526 میں پانی پت کی پہلی جنگ میں ابراہیم لودھی کو شکست فاش دے کر ہندوستان میں ایک ایسی سلطنت قائم کی جس کے قبضے میں اپنے عروج کے زمانے میں دنیا کی ایک چوتھائی سے زیادہ دولت تھی اور جس کا رقبہ تقریبا پورے برصغیر بشمول افغانستان پر محیط تھا۔لیکن بابر کی زندگی جہد مسلسل سے تعبیر ہے۔ آج کی دنیا کے لیے بابر کا سب سے بڑا تعارف ان کی اپنی سوانح حیات ہے۔ ان کی اس تصنیف کو آج ’بابر نامہ‘ یا ’تزک بابری‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
دہلی کی سینٹرل یونیورسٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شعبہ تاریخ کی سربراہ نشاط منظر کہتی ہیں کہ بابر کی زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: ایک حصہ ماروانہر کے علاقے میں دریائے سیحوں (سیر دریا) اور دریائے جیحوں (آمو دریا) کے درمیان وسط ایشیا میں تسلط کی جدوجہد پر محیط ہے اور دوسرا دور بہت مختصر ہے لیکن انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ محض چار سال میں انھوں نے ہندوستان کی ایک عظیم سلطنت کی بنیاد رکھی جو تقریبا تین سو سال تک چلتی رہی۔
آکسفورڈ سینٹر فار اسلامک سٹڈیز میں ساو ¿تھ ایشین اسلام کے فیلو معین احمد نظامی نے بی بی سی کو بتایا کہ تیموری اور چنگیزی نسل سے تعلق رکھنے والے بابر نے اپنے والد عمر شیخ مرزا سے ایک چھوٹی سی ریاست ’فرغنہ‘ ورثے میں پائی تھی جس کی پڑوسی ریاستوں پر ان کے رشتہ داروں کی عملداری تھی۔وہ بتاتے ہیں کہ ’یہاں تک کہ انھیں اپنے وطن کو بھی گنوانا پڑ گیا اور اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ صحرا نوردی اور مہم جوئی میں گزارا۔ اپنے وطن کو دوبارہ حاصل کرنے کی ان کی کوششیں ناکامیوں کا شکار ہوتی رہیں، یہاں تک کہ حالات نے انھیں ہندوستان کی جانب ر ±خ کرنے پر مجبور کیا۔‘بابر نے اپنی سوانح عمری میں اس وقت کی اپنی پے در پے ناکامیوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا: ‘جتنے دن تاشقند میں رہا اتنے دن میں نے بے حد تنگی اور مصیبت اٹھائی۔ نہ ملک قبضے میں تھا اور نا اس کے ملنے کی امید تھی۔ نوکر چاکر اکثر چلے گئے تھے، جو کچھ پاس رہ گئے تھے وہ مفلسی کے سبب میرے ساتھ پھر نہ سکتے تھے آخر ایسی سرگردانی اور اس بے گھر ہونے سے میں تنگ آ گیا اور زندگی سے بیزار ہو گیا۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ ایسی سختی کے جینے سے بہتر ہے کہ جدھر سینگ سمائیں ادھر چلا جاو ¿ں۔ ایسا چھپ جاو ¿ں کہ کسی کی نظر نہ پڑے۔ لوگوں کےسامنے ایسی ذلت و بد حالی سے رہنے سے بہتر ہے کہ جہاں تک ممکن ہو دور نکل جاو ¿ں، جہاں مجھے کوئی نہ پہچانے، یہ سوچ کر خطا (شمالی چین) جانے کا مصمم ارادہ کر لیا۔ مجھے بچپن سے ملک خطا کی سیر کا شوق تھا مگر سلطنت اور تعلقات کے سبب نہ جا سکتا تھا۔‘معین احمد نظامی نے بتایا کہ انھوں نے اس طرح کی چیزیں دوسری جگہ بھی لکھی ہیں۔ ایک جگہ لکھا ہے ’کیا اب بھی کچھ دیکھنا رہ گیا ہے، اب کون سی قسمت کی ستم ظریفی اور ظلم و ستم دیکھنا رہ گیا ہے۔‘ایک شعر میں انھوں نے اپنی کیفیت کا اظہار کیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ ’نا تو اب میرے پاس دوست و احباب ہیں نہ ملک و مال ہے، مجھے ایک پل کا بھی قرار نہیں۔ یہاں آنے کا فیصلہ میرا تھا لیکن اب میں واپس بھی نہیں جا سکتا۔‘
بابر کے اسی ہیجان انگیز اور تلاطم خیز حالات کی تصویر کشی ڈاکٹر پریمقل قادروف نے اپنی سوانحی ناول ’ظہیر الدین بابر‘ میں کی ہے۔ ایک جگہ وہ لکھتے ہیں کہ ’بابر دم لینے کے لیے ذرا رکا لیکن اس نے اپنی بات جاری رکھی۔۔۔ سب کچھ فانی ہے۔ بڑی بڑی سلطنتیں تک اپنے بانیوں کے دنیا سے اٹھتے ہی ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتی ہیں۔ لیکن شعرا کا کلام صدیوں تک زندہ رہتا ہے۔‘انھوں نے اپنا ایک شعر کبھی جمشید بادشاہ کے ذکر کے بعد ایک جگہ پتھر پر کندہ کرا دیا تھا جو اب تاجکستان کے ایک میوزیم میں ہے۔ وہ ان کے حالات کی ترجمانی کرتا ہے۔اس کا ترجمہ کچھ یوں ہے کہ دنیا پر طاقت اور ہمت سے قبضہ تو کیا جا سکتا ہے لیکن خود اپنے آپ کو دفن تک نہیں کیا جا سکتا۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ہار ماننے والوں میں سے نہیں تھے۔ بابر میں کسی پہاڑی چشمے کی سی قوت تھی جو سنگلاخ زمین کو چیر کر بلندی سے اس قوت کے ساتھ نکلتا کہ ساری زمین کو سیراب کرتا۔ چنانچہ پریمقل قادروف نے ایک جگہ اس کیفیت کا بیان اس طرح کیا ہے۔’اس وقت بابر کو طاقتور چشمے کا نظارہ بہت محظوظ کر رہا تھا ۔ بابر نے سوچا اس چشمے میں پانی پیریخ گلیشیر سے آتا ہو گا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ پانی کو پیریخ سے نیچے آنے اور پھر آسمان پائے لاو ¿ پہاڑ کی چوٹی تک چڑھنے کے لیے دونوں پہاڑوں کے درمیان واقع گھاٹیوں کی گہرائیوں سے کہیں زیادہ گہرائی تک جانا پڑتا تھا۔ پانی کے چشمے کو اس کے لیے اتنی قوت آخر کہاں سے مل رہی تھی؟ بابر کو ایسے چشمے سے خود اپنی زندگی کا موازنہ بہت موزوں اور اچھا لگا۔ وہ خود بھی تو ٹوٹ کر گرنے والی چٹان کے نیچے آ گیا تھا۔‘
بابر کی توجہ ہندوستان کی جانب کیونکر مبذول ہوئی اس کی مختلف توجہیات پیش کی جا سکتی ہیں لیکن پروفیسر نشاط منظر کا کہنا ہے کہ ہندوستان کی جانب ان کی توجہ بہت معقول تھی کیونکہ کابل میں محصول لگانے کے لیے صرف ایک چیز تھی اور حکومت کے انتظام و انصرام کے لیے دولت کی انتہائی ضرورت تھی اس لیے بابر کے پاس ہندوستان کی جانب رخ کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ نہیں رہ گیا تھا۔ دریائے سندھ کو عبور کرنے سے قبل وہ پہلے بھی کئی مرتبہ ہندوستان کے مغربی حصے پر حملہ آور ہو چکے تھے اور وہاں سے مال غنیمت حاصل کر کے واپس کابل چلے گئے تھے۔ بابر اپنی سوانح حیات کی ابتدا جس انداز سے کرتے ہیں کسی بارہ سال کے لڑکے سے اس قسم کی ہمت اور اول العزمی کی امید نہیں کی جا سکتی۔ لیکن بابر کے خون میں حکمرانی کے ساتھ بہادری شامل تھی۔
نشاط منظر کہتی ہیں کہ انھیں قسمت اور ضرورت دونوں ادھر کھینچ لائے تھے ورنہ ان کی ابتدائی ساری کوششیں شمال کی جانب وسط ایشیا میں اپنے باپ دادا کی سلطنت کو مستحکم کرنے اور ایک عظیم سلطنت قائم کرنے پر مبنی تھی۔ یہ بحث کا علیحدہ موضوع ہے کہ آیا رانا سانگا یا دولت خان لودھی نے انھیں دہلی کی سلطنت پر حملہ کرنے کی دعوت دی یا نہیں لیکن یہ بات طے ہے کہ آج کے جمہوری اقدار سے ہم سلطانی کے دور کی پرکھ نہیں کر سکتے۔ اس زمانے میں جو جس جگہ جاتا اور فاتح ہوتا تو اسے وہاں کے عوام و خواص دونوں قبول کرتے ناکہ اسے حملہ آور سمجھتے۔
لیکن بابر کے ہندوستان کے خواب کے بارے میں ایل ایف رش بروک نے اپنی کتاب ’ظہیر الدین محمد بابر‘ میں لکھا ہے کہ سب سے تھک ہار کر بابر نے دیخ کات نامی گاو ¿ں میں رہنے کا فیصلہ کر لیا۔ا ±س نے پرخلوص طریقے پر خود کو ماحول کے مطابق ڈھال لیا۔ اپنے تمام دعووں کو ترک کر دیا اور محض ایک سادہ مہمان کی طرح گاو ¿ں کے مقدم (سردار) کے گھر رہنے لگا۔ یہاں ایک ایسا سابقہ پڑا جس کے متعلق قسمت نے یہ طے کر دیا تھا کہ جس سے بابر کی آئندہ کی زندگی کی تشکیل پر ایک اعلی ترین اثر پڑے گا۔ مقدم کی عمر ستر یا اسی برس ہو گی مگر ان کی والدہ 111 سال کی تھیں اور وہ بقید حیات تھیں۔۔۔ اس بوڑھی خاتون کے کچھ رشتہ دار تیموربیگ کے لشکر کے ساتھ ہندوستان گئے تھے۔ یہ بات ان کے ذہن میں تھی اور وہ اس کا قصہ سنایا کرتی تھیں۔‘ بابر کے بزرگوں کے کارناموں کی کہانیوں نے نوعمر شہزادے کے تخیلات میں ایک جوش و ہیجان پیدا کر دیا اور اس میں کوئی شبہ نہیں ہو سکتا کہ اس وقت سے ہی ہندوستان میں تیمور کی فتوحات کو تازہ کرنے کا خواب اس کے ذہن کے پس منظر میں مسلسل قائم رہا۔‘
جامعہ ملیہ یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ میں اسسٹنٹ پروفیسر رحما جاوید راشد کا کہنا ہے کہ یہ تو سب کو معلوم ہے کہ بابر والد کی جانب سے تیمور خاندان کی پانچویں پشت میں سے تھے جبکہ والدہ کی جانب سے وہ عظیم فاتح چنگیز خان کی 14ویں پشت میں سے تھے۔ اس طرح ایشیا کے دو عظیم فاتحین کا خون بابر میں شامل تھا جو انھیں دوسرے علاقائی فرمانرواو ¿ں پر فوقیت دیتا تھا۔ کم عمری میں بادشاہ بننے اور اس قدر جنگی مہمات اور دربدری میں انھیں علم و ہنر کے میدان میں کیونکر یہ مرتبہ حاصل ہے تو انھوں نے کہا کہ بابر جہاں بھی گئے ان کے ساتھ ان کے استاد بھی جاتے تھے اور وہ ہر طرح کے لوگوں سے ملنا جلنا پسند کرتے تھے اور علی شیر نوائی جیسے شاعر کی تو انھوں نے خاص طور پر سرپرستی کی تھی۔ بابر نے اپنے بارے میں جس کھلے انداز میں بیان کیا ہے وہ کسی دوسرے بادشاہ کے بارے میں نہیں ہے۔ انھوں نے اپنی شادی، محبت، شراب نوشی، صحرا نوردی، توبہ اور اپنی دلی کیفیت تک ہر بات کا ذکر کیا ہے۔

Facebook Comments