مزاحمت لیکچراراں ۔۔طارق احمد/قسط3

یہ ایسے ہی  ہے۔ بندہ چین جائے اور دیوار چین پر نہ چلے۔ پیرس جائے اور ایفل ٹاور کی بلندی کو سرنگوں نہ کرے۔ آگرہ جائے اور تاج محل کی راہداریوں میں سانس لیتی محبت کی کہانی نہ سنے۔ مصر جائے اور اہرام مصر کی اسراریت بھری قدیم فضاؤں سے آشنائی اختیار نہ کرے۔ لندن جائے اور دریائے ٹیمز کی لہروں سے چھیڑ خانی نہ کرے۔ اور گوالمنڈی جائے اور وہاں کے کھابوں سے محروم رہے۔ اور ہم لاہوری جو جمتے ہی اس لیے ہیں کہ جم کر کھائیں۔ کہتے ہیں ۔ ایک وقت میں آدھا لاہور پکا رہا ہوتا ہے۔ اور آدھا لاہور کھا رہا ہوتا ہے ۔ روٹی شادی کی ہو یا چالیسویں کی ہو۔ ہماری چالیں دیکھنے والی ہوتی ہیں۔

چنانچہ چند دنوں بعد کالج آفس میں یہ شکایت پہنچائی گئی ۔ چند لیکچرار صادق پہلوان کی دکان پر سر عام حلوا پوری کھاتے پائے گئے ہیں ۔ ضمنی نوٹ میں یہ درج تھا۔ یہ لیکچرار حلوہ پوری سے لطف اندوز تو ہو ہی رہے تھے۔ ساتھ ہی پہلوان کے لطیفوں پر منہ پھاڑ کر قہقہے بھی لگا رہے تھے۔ اس شکایت کا لہجہ کچھ ایسا تھا۔ جیسے کچھ معزز حضرات کوٹھے پر گانا سنتے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہوں۔ یہ ایک سیریس معاملہ تھا۔۔

یہ بھی پڑھیں :  بچے جمہورے سے مکالمہ۔۔منصور آفاق

چنانچہ اگلے دن ہی پرنسپل آفس میں ہماری طلبی ہو گئی۔پرنسپل صاحب کا بات کرتے وقت لہجہ اس دکھی باپ کی طرح تھا۔ جس کے بچے جوان ہو جائیں اور محلے سے ان کی شکائتیں آنی شروع ہو جائیں کہ ادھر ادھر تانک جھانک کرتےہیں اور اوباش لونڈوں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں۔ ہم نے انہیں یقین دلایا ۔ آئندہ پوری حلوے کی اس سر بازار عیاشی سے پرہیز کریں گے۔ لیکن پہلوانوں کی پیڑوں والی لسی نہ پینے کی گارنٹی کوئی نہیں ہے۔ البتہ یہ وعدہ رہا، لسی پی کر آسودگی بھرے ڈکار نہیں لیں گے ۔

ابھی اس رپٹ کو نپٹائے چند دن ہی گزرے تھے  کہ ایک دن پھر طلبی کے آرڈر آ گئے۔ اب یہ رٹا پڑ گیا تھا  کہ مابدولت ڈیپارٹمنٹ میں بلند آواز میں گانا گاتے سنے گئے ہیں ۔ جبکہ احمد علیم میز بجا کر تھاپ دے رہا تھا۔ اور ہمنوا دل کھول کر داد دے رہے تھے۔ ضمنی نوٹ میں تھا ۔ لیکچرار خود تو کرسیوں پر ایستادہ تھے۔ لیکن ان کی ٹانگیں میزوں پر دراز استراحت فرما رہی تھیں ۔ یہ گستاخی ناقابل برداشت تھی۔ پرنسپل صاحب کا موڈ اس باپ کی مانند تھا جسے یقین ہو اولاد ناخلف نکل آئی  ہے۔ اور وہ اسے عاق کرنے کے منصوبے بنا رہا ہو۔ ادھر ہم حیران بھی تھے اور پریشان بھی تھے۔ وہ کون جاسوس ہے  جو را اور خاد کی ڈیوٹی سر انجام دے رہا ہے  اور ہمارے گٹوں گوڈوں میں بیٹھ رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں :  ا س ویلنٹائین تمہیں پھول نہیں بھیج سکوں گا۔۔محمود چوہدری

آخر ایک دن ڈیپارٹمنٹ کا نائب قاصد پکڑ لیا گیا۔ بلکہ اسے باقاعدہ ٹریپ کیا گیا اور پوچھا گیا۔ ۔بتا اب تیرے ساتھ کیا سلوک کیا جائے ۔ اس نے بے نیازی سے جواب دیا۔ وہی جو ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ سے کرتا ہے۔ سن کر مزہ آ گیا آخر انگریزی ادب کے ڈیپارٹمنٹ کا نائب قاصد تھا۔ چنانچہ اسے فوری طور پر خرید لیا گیا۔ اور خطرے کا مستقل سد باب کر لیا گیا۔ لیکن وہ بھی جیمز بانڈ کا ایسا رشتہ دار تھا۔ ڈبل ایجنٹ کا رول ادا کرنے لگا۔ ہماری شکائتیں اور ہماری طلبیاں جاری رہیں۔ ادھر ہماری مستیاں اور ہماری شوخیاں ہم پر طاری رہیں۔ گویا ہم نے جیسے ایک دوسرے کو اسی کام کے لیے رکھ چھوڑا تھا۔ تنگ آ کر دو دوست ٹرانسفر کروا گئے۔ ایک جاب چھوڑ کر انگلینڈ چلا گیا۔ ایک سی ایس ایس کرکے پولیس کو پیارا ہو گیا۔ یعنی یہ وہ کبے تھے۔ جنہیں لات نے سیدھا کر دیا۔ پیچھے ہم تین بچ گئے۔ اور ہماری سختیاں ڈبل ہو گئیں ۔ کالج کے کونے کھدروں میں ہمارے اجلاس ہوتے۔ اور دفاعی حکمت عملی تیار کی جاتی،لیکن سب بیکار جاتا۔ ہمارا وہ حال تھا ، اڑنے بھی نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے ۔ لیکن قفس کے اس گوشے میں ہمیں آرام بالکل نہیں تھا۔

ایک دن طلبی ہوئی۔ ہم حسب ضرورت اور حسب ذائقہ اپنا منہ فٹے منہ بنا کر بیٹھ گئے۔ پرنسپل صاحب کچھ دیر ہمیں گھورتے رہے۔۔ پھر بولے، کیا بات ہے۔،یہ سوگ کی کیفیت کیسی ہے؟۔

یہ بھی پڑھیں :  نیم لیکچرار گوالمنڈی میں /طارق احمد۔قسط1

ہم نے آزردگی سے  کہا۔ ۔ہمارے چچا کل گاوں سے آئے تھے۔ آپ کو معلوم  ہے  ہمارا گاوں سرحد پر ہے۔ مجھے پوچھنے لگے۔ کیا بات  ہے، پریشان ہو۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہم نے بتایا باس نے بہت تنگ کیا ہوا ہے۔ چچا پورا رانگڑ ہے۔ کہنے لگا  فکر نہ کرو۔ چند دن میں تمہارے باس کو بارڈر کے اس پار بھیج دیں گے۔ اسی لیے سوگ کی کیفیت ہے۔ پرنسپل صاحب نے یہ سن کر دل کھول کر قہقہہ لگایا۔ پیار سے ہماری طرف دیکھا۔ دراز کھول کر نمکین بسکٹ نکالے۔ ہمارا اس بات پر منہ میٹھا کروایا کہ میں انہیں بہت پسند ہوں۔ ہم نے بھی پھیکی چائے کی شیریں چسکی لے کر کہا۔ ہم آپ کی بہت عزت کرتے ہیں۔
جاری ہے۔۔

Facebook Comments

طارق احمد
طارق احمد ماہر تعلیم اور سینیئر کالم نویس ہیں۔ آپ آجکل برطانیہ میں مقیم ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”مزاحمت لیکچراراں ۔۔طارق احمد/قسط3

Leave a Reply