حدیث اور سنت کا فرق(دوم،آخری حصّہ)۔۔ڈاکٹر طفیل ہاشمی

وضع حدیث کے محرکات
1-دینی جذبہ۔۔ لوگوں کو قرآن کی طرف متوجہ کرنے کے لیے قرآن کی سورتوں کے فضائل یا مختلف آیات کی دنیوی اور اخروی برکات بیان کرنے کے لیے احادیث وضع کی گئیں اور وضع کرنے والے یہ سمجھتے تھے کہ اس طرح وہ ایک کار خیر کی طرف لوگوں کو متوجہ کر رہے ہیں اور یہ کام باعث اجر ہے۔

2-ترغیب و ترہیب۔۔ ایسی احادیث وضع کی گئیں جن میں برے کاموں کی خوفناک سزائیں اور اچھے کاموں کے بے پناہ اجر کا تذکرہ تھا۔ اسے کار خیر سمجھ کر کیا جاتا اور اس نوعیت کی بہت سی احادیث کتب حدیث میں موجود ہیں بلکہ آج تک تبلیغی مقاصد کے لیے بلا تحقیق استعمال ہوتی ہیں۔ محدثین نے اس نوع کی احادیث کو قبول کرنے میں نرمی سے کام لیا۔ شاید ان کے ذہن میں یہ تھا کہ گناہ پر اگر اتنی سزا یا نیکی پر اتنا اجر نہ بھی ملا جو ان احادیث میں ہے تب بھی فی الجملہ برائی سے بچنے اور نیکی کرنے کی ترغیب میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ اس نوعیت کی روایات بالعموم ایسے عابد، زاہد متقی اور مستجاب الدعوات افراد سے مروی ہیں جن کے بارے میں خطیب بغدادی لکھتے ہیں کہ
ہمارے کچھ بھائی ایسے ہیں کہ اگر وہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھائیں تو ان کی دعا رد نہیں ہوتی لیکن ان کی عام شہادت پر بھی اعتماد نہیں کیا جاسکتا چہ جائے کہ ان سے حدیث لی جائے۔ یحیی بن سعید کے بقول :حدیث کی تحقیق میں نیکو کار راویوں سے زیادہ کوئی چیز دھوکے کا باعث نہیں۔ یحیی بن سعید القطان، ابن ابی الزناد اور امام مالک متفق ہیں کہ مدینے میں ایسے لوگ بڑی تعداد میں ہیں جن پر مالی معاملات میں ہر طرح کا اعتماد کیا جا سکتا ہے لیکن کسی ایک حدیث میں بھی ان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ واقعہ یہ ہے کہ ایسے افراد پر تنقید کرنا ناممکن ہے لیکن یہ امام مالک ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو تشریعی احادیث تک محدود رکھا اور ایسی احادیث لینے سے اجتناب کیا جبکہ دوسرے محدثین اپنے آپ کو اس حد تک نہیں رکھ سکے۔

3-شہرت کے حصول کے لیے۔۔  علم حدیث کے عالم اور ہزاروں لاکھوں احادیث کے حامل مرجع خلایق ہو جانے کے باعث شہرت کی بلندیوں پر فائز ہو جاتے اور تعداد روایات میں ایک دوسرے پر سبقت ہی وجہ مفاخرت تھی جس کی وجہ سے شہرت کے خواہش مند لوگوں نے احادیث وضع کرنا شروع کر دیں، اس کے لیے وہ نہ صرف متون بلکہ اسناد بھی وضع کرتے تھے۔

4-باطل عقائد کی تائید کے لیے۔۔ جب خوارج، معتزلہ، مرجئہ اور شیعہ فرقے وجود میں آئے تو انہوں نے اپنے اپنے ائمہ اور عقائد کی حمایت میں احادیث وضع کیں۔ ان میں سے بیشتر احادیث کا تعلق تفسیر قرآن سے ہے۔ اس طرح انہوں نے تفسیری لٹریچر میں اپنے باطل عقائد و افکار داخل کر دئیے۔

5-سیاسی وجوہات۔۔  ایسی احادیث جن سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ یا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر استدلال کیا جاتا ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ، امیر معاویہ کے باہمی اختلافات اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی باہمی آویزش سے متعلق اکثر روایات موضوع ہیں۔ (یاد رہے کہ ویح عمار والی روایت متواتر ہے) اسی طرح یہ کہ جب خلافت بنو عباس کے پاس آ جائے گی تو ان سے براہ راست حضرت عیسی علیہ السلام کو منتقل ہوگی یا اپنے خلفاء کے تقدس کے بیان کے لئے مہدی کی روایات کا سیاسی پس منظر ہے۔

6-رنگینی وعظ۔۔  وعظ کو پُر کشش اور اثر افرین بنانے کے لیے روایات و قصص کی ہمیشہ ضرورت رہی ہے۔ واعظ، مبلغ اور مساجد میں قصہ گوئی کرنے والے بے تکلف روایات گھڑ لیتے تھے

7-حکمرانوں کی خوشنودی کے لئے۔۔  درباری علماء اپنے فاسق و فاجر حکمرانوں کی حرکات کو سند جواز بخشنے کے لیے احادیث وضع کر لیتے۔

8-اسرائیلی روایات۔۔  قرآن اور بائبل کا ماخذ ایک ہے اور بہت سے مضامین میں یکسانی بھی ہے۔ ایسے مواقع پر قرآنی اجمال کی اسرائیلی روایات سے شرح و تفصیل کرنا نہ صرف نو مسلم یہود علماء کے ہاں متداول تھا بلکہ کئی مسلمان ثقہ اہل علم بھی ان تفصیلات کو تفسیری روایات میں شامل کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے جو رفتہ رفتہ احادیث کے طور پر روایت ہونے لگتیں۔

9-فرقہ واریت۔۔  صرف اپنے فرقے کی تائید کے لیے ہی نہیں بلکہ ایک خارجی اور رافضی کا بیان نقل کیا گیا ہے کہ وہ اپنی ضرورت کے لیے حلت و حرمت کے احکام کی احادیث بھی وضع کر لیتے
وضع حدیث کا رجحان اس قدر وبائی شکل اختیار کر گیا تھا کہ موضوع روایات اور وضاعین کے تذکروں پر مستقل کتابیں لکھی گئیں۔

اس فتنے کے سد باب کے لیے کیا کیا گیا
عہد صحابہ میں احادیث رسول مدون نہیں کی گئیں کیونکہ شروع میں آپ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کتابت حدیث سے منع فرمایا تھا تا کہ کتاب اللہ اور احادیث باہم خلط نہ ہو جائیں۔ عصر تابعین کے آخر میں جب علماء کرام مختلف شہروں میں پھیل گئے، خوارج، روافض اور قدریہ کے افکار رونما ہوئے تو احادیث و آثار کی تدوین شروع ہوئی۔

سب سے پہلے ربیع بن صبیح اور سعید بن عروبہ نے ہر باب الگ الگ تالیف کیا پھر طبقہ ثالثہ نے احادیث احکام مدون کیں جن میں اہل حجاز کی صحیح روایات کو اقوال صحابہ اور تابعین و تبع تابعین کے فتاوی کے ساتھ ملا کر امام مالک نے موطا تالیف کی۔ مکہ میں ابو محمد عبدالملک بن جریج نے، ابو عمرو عبدالرحمن بن عمر اوزاعی نے شام میں، سفیان ثوری نے کوفہ میں، حماد بن سلمہ نے بصرہ میں فقہ السنہ سے متعلق کتب تالیف کیں۔

اس کے بعد علماء نے سوچا کہ احادیث رسول کو الگ سے تحریر کیا جائے، یہ سن 200 ہجری کے آغاز کی بات ہے۔ اس دور میں عبیداللہ بن موسی کوفی، مسدد بن مسرھد، اسد بن موسی اموی اور نعیم بن حماد خزاعی مصری نے اپنی اپنی مسانید مدون کیں۔ اس کے بعد شاید ہی کوئی حافظ یا امام حدیث ایسا ہو جس نے اپنی مسند نہ لکھی ہو جیسے احمد بن حنبل، اسحاق بن راہویہ اور عثمان بن ابی شیبہ وغیرہ چونکہ دینی علوم سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ ایک آسان اور یقینی عزت و توقیر کا میدان تھا اس لیے تمام تر توجہ جمع و تدوین پر مرکوز ہوگئ اور کوئی بھی نووارد اپنے چند ایک اساتذہ کے مجموعوں کو یک جا کر کے بآسانی ایک نئ تالیف مارکیٹ میں لا سکتا تھا اس لیے زیادہ توجہ کثرت روایات پر مبذول رہی۔ ان محدثین میں کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے ابواب کی بنیاد پر مسانید مرتب کیں مثلا ابوبکر بن ابی شیبہ۔

امام بخاری نے جب اس سارے موجود لٹریچر کا علم حاصل کیا، تالیفات دیکھیں، انہیں روایت کیا تو انہیں اندازہ ہوا کہ ان تالیفات میں اعلی درجے کی مستند ترین احادیث سے لے کر ضعیف اور موضوع تک سبھی کچھ موجود ہے۔ انہوں نے یہ سوچا کہ ایک ایسی کتاب مرتب کی جائے جس کی صحت پر اعتماد ہو۔ ان کے استاذ اسحاق بن راہویہ کے کمنٹس نے ان کے رہوار شوق کے لیے مہمیز کا کام دیا اور انہوں نے چھ لاکھ اسناد سے منتخب کر کے یہ مجموعہ تیار کیا جس میں لگ بھگ 2500 احادیث ہیں (صحيح بخاری پر ان شاء اللہ الگ سے گفتگو کی جائے گی) امام بخاری کا اصل مقصد صحیح احادیث جمع کرنا تھا اس لیے انہوں نے اس کا نام “الجامع الصحيح المسند من حدیث رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم و سننہ و ایامہ” رکھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب صرف سنن یعنی تشریعی روایات کی حامل ہی نہیں بلکہ اس میں عہد نبوی کی تاریخ بھی مذکور ہے اور الجامع ہونے کے باعث دیگر کئی علوم بھی اس کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔

اسی دور میں دیگر کئی ایک مولفین نے اپنے اپنے مجموعہ احادیث مدون کئے جن میں سے چھ مجموعے ایسے ہیں جنہیں صحاح ستہ کہا جاتا ہے جو اہل السنہ کے ہاں احادیث کے مستند ترین مجموعے ہیں۔
ان مولفین کو اصل چیلنج واضعین حدیث کی طرف سے تھا، اس لیے انہوں نے اپنی تمام تر توجہ سلسلہ اسناد اور ان میں آنے والے رواۃ کی جرح و تعدیل پر مرتکز رکھی کیونکہ اسی طرح وہ صحیح اور موضوع روایات کو الگ الگ کر سکتے تھے۔ مولفین صحاح ستہ نے قبول روایت کے لیے اپنی اپنی تالیفات میں راویوں کی اہلیت کے اپنے اپنے معیار مقرر کئے جن میں سب سے کڑا معیار امام بخاری نے مقرر کیا کہ صرف اس راوی کی روایت قبول کی جائے گی جس کی اپنے سے اوپر کے راوی سے ملاقات ثابت ہو لیکن امام بخاری ملاقات کے ثبوت کے لیے خارجی شواہد کی تلاش نہیں کرتے بلکہ خود راوی کے الفاظ “حدثنا یا أخبرنا” کو ملاقات کی تصدیق کے لئے کافی سمجھتے ہیں۔ ارباب منطق اس استدلال کو مصادرہ علی المطلوب کہتے ہیں اور اسے دلیل نہیں مانتے۔ امام مسلم نے بھی بخاری کی اس شرط پر دوسری وجوہ کی بنا پر تنقید کی ہے۔

ان مؤلفات میں سنن متداولہ یعنی تشریعی روایات اور غیر تشریعی روایات کو جمع کر دیا گیا۔ ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ جہاں تک سنت کا تعلق ہے تو وہ فقہاء مجتہدین اور ان کے تلامذہ نے پہلے سے مدون کردی تھی اور تشریعی روایات کے اخذ و قبول کا عمل مکمل ہو گیا تھا۔

تشریعی روایات کا اختلاف (مثلا وضو، نماز، روزے، زکوۃ، حج اور دیگر شرعی مسائل میں فقہی اختلافات) صحت اور وضع کا اختلاف نہیں تھا بلکہ اپنے اپنے سماجی اور علاقائی مکاتب فقہ کی ترجیح کا اختلاف تھا کیونکہ سنت کے اختلافات کے بارے میں یہ طے شدہ امر تھا کہ ان میں اختلاف تضاد نہیں بلکہ اختلاف تنوع ہے، یہی وجہ ہے کہ عباسی خلفاء کے اصرار کے باوجود امام مالک نے اپنی فقہ سارے ملک میں رائج کرنے کی اجازت نہیں دی اور یہ کہا کہ ہر علاقے کے لوگ اپنے اپنے علاقے میں آباد ہونے والے صحابہ کرام اور تابعین کے طرز عمل کو اختیار کئے ہوئے ہیں اور ان میں سے ہر ایک بجا طور پر سنت ہے۔

(اب تک اس عنوان سے ہم نے تمہیدی گفتگو کی ہے۔ ابھی کچھ مزید اہم مباحث ایسی ہیں کہ ان پر بات کئے بغیر بحث مکمل نہیں ہوتی لیکن دیگر مصروفیات کے باعث مسلسل تاخیر ہوتی رہی، اس لیے سوچا کہ آج کی نشست میں مثالوں کے ذریعے حدیث اور سنت کا فرق واضح کر دیا جائے اور دیگر مباحث کو کسی فرصتِ کے وقت پر اٹھا رکھا جائے۔)

حدیث اور سنت کا عام فہم فرق یہ ہے کہ ہر فرد کی طرح کچھ امور رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عادت تھے جنہیں آپ معمول کے مطابق انجام دیتے تھے۔ ان میں سے کچھ باتوں کا تعلق شریعت، ہدایت یا قرآن کے کسی حکم کی عملی تطبیق سے ہوتا جب کہ کچھ دیگر امور محض حالات، رواج، عادت، ضرورت یا حاجت سے متعلق ہوتے مثلاً کوئی مخصوص لباس پہننا، علاج کے متداول طریقے اختیار کرنا، سواری کے متعارف جانور اور مروج ہتھیاروں کا استعمال، خاص قسم کے مکانات، غذاؤں اور ادویہ کا استعمال وغیرہ۔ ان امور کا آپ کی ذات کے ساتھ تعلق ہونے کی وجہ سے امت کے لیے محبوب تو ہو گئے لیکن انہیں سنت یا مطلوب شرعی کبھی نہیں قرار دیا گیا۔

اسی طرح آپ کی گفتگو کو بھی دو بڑے حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ گفتگو کا ایک حصہ روزمرہ کے امور سے متعلق ہوتا مثلا کسی کا حال احوال پوچھنا، کسی علاقے یا افراد کے بارے میں معلومات حاصل کرنا یا اپنی معلومات شئر کرنا، کوئی قصہ کہانی بیان کرنا، سودا سلف خریدنا، کوئی چیز فروخت کرنا، بچوں سے ہنسی مذاق اور اہل خانہ کی دلجوئی وغیرہ ہزاروں ایسی باتیں تھیں جن کا تعلق روزمرہ زندگی کے معاملات سے تھا۔ ان کے بارے میں آپ کی گفتگو بطور حدیث نقل ہوئ لیکن اسے سنت نہیں قرار دیا گیا کہ وہ واجب اتباع ہو۔

یاد رہے کہ آپ پوری انسانیت کے لیے سراپا نمونہ تھے، اس لیے روزمرہ امور میں بھی آپ سے کوئی ایسا کام سرزد نہیں ہوتا تھا جو بلند معیار سے فرو تر ہو تاہم ان کے اتباع کا حکم نہیں تھا۔

دوسرے وہ امور تھے جن کا تعلق احکام شرعیہ سے تھا، ان کے بارے میں آپ کے اقوال و افعال کی دو قسمیں تھیں :
اول وہ کام جو آپ نے معمول اور اہتمام کے ساتھ کئے اور ان کی تاکید فرمائی۔ یہ امور سنت ہیں
دوم وہ ارشادات جو آپ نے کسی خاص موقع پر، مخصوص حالات میں یا کسی خاص فرد کے لیے معمول سے ہٹ کر ارشاد فرمائے یا کام کیے ، یہ سنت نہیں بلکہ حدیث ہے۔

مثلاً :
1-اپ نے ارشاد فرمایا:جو عورت ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کر لیتی ہے، اس کا نکاح نہیں ہوتا۔
دوسری طرف ایک نوجوان کنواری انصاریہ نے آپ سے شکایت کی کہ اس کے باپ نے اس کی رضامندی کے بغیر اس کا نکاح اپنے نکھٹو بھتیجے سے کر دیا ہے، جو اسے پسند نہیں، تو آپ نے اس خاتون کو اختیار دے دیا کہ وہ چاہے تو اسے ختم کر دے۔ یہ دونوں متعارض احادیث سنت نہیں بلکہ احادیث ہیں کیونکہ قرآن کی روشنی میں آپ نے جو سنت رائج فرمائی ، وہ یہ تھی کہ :
بالغ لڑکیاں اپنے اولیاء کے توسط سے اور اولیاء اپنی بالغ لڑکیوں کی مرضی سے ان کا نکاح کیا کریں۔
یہ ایک مستقل اور متداول طریقہ تھا جو آپ کی سنت تھی اور اس میں دوطرفہ تعلقات اور حقوق کی پاسداری اور سماج کی نفاست کی ضمانت تھی۔

2-بخاری اور مسلم میں ہے کہ آپ نے ایک جگہ کوڑا کرکٹ کے ڈھیر پر کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔ یہ حدیث ہے جبکہ آپ کی سنت متداولہ یہ ہے کہ آپ معمولا بیٹھ کر پیشاب کرتے تھے

3-موطا امام مالک میں آپ کے پانی پینے کی جتنی روایات ہیں وہ کھڑے ہو کر پانی پینے کی ہیں۔ یہ سب احادیث ہیں جبکہ سنت یہ ہے کہ آپ بیٹھ کر پانی پیتے تھے۔

4-بخاری اور مسلم میں روزے کی حالت میں بیوی سے بوس و کنار کا واقعہ محض احادیث ہیں اور بیان جواز کے لیے ہیں جبکہ ایسا کرنا سنت نہیں ہے۔

5-فجر کی سنتوں کے بعد تھوڑی دیر کے لئے لیٹ جانا محض طبعی ضرورت اور تھکن دور کرنے کے لیے ہے، یہ سنت نہیں ہے۔

6-اپ معمولا جوتے اتار کر نماز پڑھتے تھے جو کہ سنت ہے لیکن ہر جگہ زمین ہموار ہوتی تھی نہ چٹائیوں کا انتظام ہوتا تھا، اس لیے گاہے آپ نے جوتوں کے ساتھ بھی نماز ادا کی جو حدیث ہے سنت نہیں۔

7-بخاری کی روایت کہ ایک کپڑے میں نماز پڑھ لینا یا نواسی کو کندھے پر اٹھا کر نماز پڑھنا احادیث ہیں، آپ کی سنتیں نہیں کہ امت کے لیے واجب اتباع ہوں۔

8-صحیح بخاری میں ایک شخص کا واقعہ ہے کہ اس نے آکر عرض کی کہ روزے کی حالت میں اس کی جوانی بے قابو ہو گئ اور بیوی سے ہم بستری کر لی۔ آپ نےاسے کفارہ بتایا، جو سنت سے ثابت تھا۔ اس نے کہا، میں تو بہت غریب ہوں۔ آپ نے اسے پاس سے کھجوروں کے ٹوکرے دئیے اور فرمایا، غریبوں میں بانٹ دو۔ اس نے کہا، اس شہر میں مجھ سے بڑھ کر کوئی فقیر نہیں۔ آپ مسکرائے اور فرمایا، خود کھاؤ اور اہل خانہ کو کھلاؤ

یہ حدیث ہے، سنت نہیں کہ جو غریب بے قابو ہو جائے اس پر کوئی کفارہ نہیں یا دارالافتاء اسے کفارہ ادا کرنے کی ہدایت کرنے بجائے اس کی مالی مدد کیا کرے۔

9-حدیث ہے کہ آپ نے عصر کے بعد دو رکعات پڑھیں، سنت یہ ہے کہ عصر اور فجر کی نماز کے بعد نوافل نہ پڑھے جائیں

10_ترمذی میں ہے کہ آپ نے وضو کرتے ہوئے کبھی ایک بار کبھی دو بار اور کبھی تین بار اپنے أعضاء دھوئے۔ اس میں تین بار کا عمل سنت ہے اور ایک یا دو بار بیان جواز کی احادیث ہیں کہ اگر پانی کم ہو یا سخت ٹھنڈا یا بہت گرم ہو تو ایک دو بار والی احادیث پر عمل کیا جا سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کتب احادیث میں ایسی سینکڑوں مثالیں ہیں جو سنت اور احادیث میں فرق کرتی ہیں۔ حدیث سنت نہیں ہوتی البتہ بعض احادیث سنت کی اساس اور ثبوت کا ذریعہ ہوتی ہیں کیونکہ آپ نے تمام تشریعی امور معمول کے مطابق سرانجام بھی دئیے اور ان کے کرنے کی تاکید بھی فرمائی ۔
اہل علم کو اس طرف توجہ کرنی چاہئے کہ فقہ السنہ کے نام سے سید سابق اور عاصم الحداد کی تالیفات میں سنت اور حدیث کے اس فرق کو ملحوظ رکھنے کے بجائے ایک متعین فقہی مسلک کے مستدلات کو سنت قرار دیا گیا ہے۔ اس موضوع پر خالص علمی بنیاد پر “فقہ السنہ “کو از سر نو مدون کرنے کی ضرورت ہے تاکہ فقہ عولمی Cosmopolitan Fiqh کی راہ ہموار ہو سکے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply