شاہ رخ خان: ایک سپر سٹار کا تجزیہ(5)-ذوالفقار علی زلفی

سپراسٹار شاہ رخ خان کو “کنگ خان” یا “کنگ آف بالی ووڈ” کا خطاب دلانے میں دو فلموں کا اہم کردار ہے ـ اول؛ “کچھ کچھ ہوتا ہے” (1998) اور دوم؛ “محبتیں” (2000) ـ ان دونوں فلموں کی زبردست کامیابی و مقبولیت نے انہیں بھارت سے باہر بھی ایک مضبوط اور تاحال ناقابلِ شکست شناخت دی ـ
“کچھ کچھ ہوتا ہے” میں رامائن کے اثرات کم نظر آتے ہیں تاہم “سچی محبت” تک پہنچنے کا سفر والمیکی کے بالاکندا سے متاثر ضرور ہے جس کے تحت وہ کھلنڈرے نوجوان سے ایک سنجیدہ باپ بننے کے بعد اپنی “اصلی محبت” تک پہنچ کر عشق کی حقیقت کو پالیتا ہے ـ اس فلم پر رامائن سے زیادہ لبرل معیشت کے اثرات زیادہ حاوی ہیں ـ بالخصوص یونیورسٹی کے طلبا غیر سیاسی اور ہر سماجی مسائل سے بے نیاز سرمایہ دارانہ تعیشّات سے لطف اندوز ہوتے دکھائے گئے ہیں ـ
لبرل معاشی پالیسی نے جاگیردارانہ سماجی قدروں کو دھچکا پہنچایا تھا مگر وہ انہیں مکمل طور پر ختم نہیں کرپائی ـ بھارتی شہری سماج کے بڑے حصے نے مغربی اقدار کی مکمل نقالی کے سامنے مزاحمت کی حتی المقدور کوشش کی ـ یہ کوشش بالخصوص عورت کی فلمی پیش کش پر اثر انداز رہی ہے ـ “کچھ کچھ ہوتا ہے” میں بھی عورت کی فلمی پیش کش کو “رام راج” کی جاگیردارانہ تشریح کا سامنا رہا ـ
پوری بات کو سمجھنے کے لئے فلم کا خلاصہ بیان کرنا بہتر ہوگا ـ
راہول (شاہ رخ خان) اور انجلی (کاجول) یونیورسٹی فیلو اور گہرے دوست ہوتے ہیں ـ انجلی کا رویہ، لباس اور چال ڈھال سماجی نکتہِ نظر کے تحت مردانہ ہوتے ہیں ـ انجلی کو راہول سے یک طرفہ محبت ہوتی ہے مگر راہول اسے سماجی و تاریخی مردانہ تعصب کے باعث عورت ماننے سے منکر ہوتا ہے ـ ایسے میں یورپ پلٹ انیتا (رانی مکھرجی) کی اینٹری ہوتی ہے ـ انیتا منی اسکرٹ، کھلے گلے اور جدید فیشن پر مبنی لباس کے باعث راہول کو بھا جاتی ہے ـ دونوں شادی کر لیتے ہیں مگر انیتا ایک بیٹی کو جنم دینے کے بعد فوت ہوجاتی ہے ـ وہ دنیا سے جاتے جاتے ایک ڈائری کی صورت اپنی بیٹی کو بتاتی ہے کہ اس کے باپ کی اصلی محبت انجلی ہے ـ بیٹی اپنے باپ کو اس کی “سچی محبت” تک پہنچانے کی کوشش میں لگ جاتی ہے ـ
اوپر کہا جاچکا ہے فلم لبرل زندگی کو پیش کرتی ہے مگر اس میں عورت کی پیش کش کو جاگیردارانہ پدر شاہیت کے جبر کا سامنا ہے ـ انیتا لبرل عورت ہے مگر جاگیردارانہ تصورِ “رام راج” پر پورا نہیں اترتی اس لئے اسے “سچی محبت” کے زُمرے سے خارج کردیا جاتا ہے ـ دوسری جانب انجلی تب تک “سچی محبت” نہیں بن پاتی جب تک وہ جاگیردارانہ پدر شاہیت کے تحت بھارتی ناری نہیں بنتی ـ فلم کے دوسرے حصے میں انجلی کو جبری تبدیلی سے گزار کر مردانہ نکتہِ نظر کے تحت عورت کے روپ میں پیش کیا جاتا ہے ـ یہ بدلا روپ اسے ایودھیا کی “سیتا” بناتی ہے ـ
“کچھ کچھ ہوتا ہے” ایک ایسے سماج کو پیش کرتی ہے جو لبرل معاشی پالیسی کے باعث مغربی تہذیب و تمدن کو اپنانے کا خواہش مند ہے مگر دوسری جانب وہ تصورِ “رام راج” کے پیشِ نظر مشرقی اقدار و روایات کو برقرار بھی رکھنا چاہتی ہے ـ اس پر تضاد پیش کش کا نتیجہ تو یہی نکلنا چاہیے تھا کہ یہ فلم تجارتی لحاظ سے پٹ جاتی مگر نوے کی دہائی کے مڈل کلاس فلم بین کی ذاتی زندگی بھی انہی تضادات سے عبارت تھی ـ نتیجہ یہ نکلا نہ صرف فلم کو بے انتہا مقبولیت حاصل ہوئی بلکہ “راہول” (شاہ رخ خان) مڈل کلاس نوجوانوں کی پہلی پسند بن گئے ـ مغرب میں مقیم بھارتیوں کو بھی اس دوہری پیش کش نے خاصا محظوظ کیا کیوں کہ وہ بھی مغرب میں تقریباً اسی قسم کی پرتضاد صورت حال کا سامنا کر رہے تھے ـ
شاہ رخ خان نے نئی صدی کا استقبال فلم “محبتیں” (2000) کے ذریعے کیا ـ اس فلم میں پہلی دفعہ ہندی سینما کے دو اہم سپراسٹار یکجا بلکہ متصادم نظر آئے ـ ایک طرف 70 کی دہائی محنت کش طبقے کے اینگری ینگ مین امیتابھ بچن جب کہ ان کے مقابل عہدِ حاضر کے شہری لبرل کلاس کے محبوب اداکار شاہ رخ خان تھے ـ
فلم میں نرائن شنکر (امیتابھ بچن) گروکُل (بھارت) کے سخت گیر پرنسپل ہیں ـ وہ نظم و ضبط کے قائل مختارِ کُل شخصیت ہیں ـ ان کا یہ کردار بظاہر عہدِ رفتہ کے جاگیردارانہ طرزِ معیشت کی نمائندگی کرتا ہے جہاں ایک ہی فرد مختارِ کُل ہوتا ہے اور اسی کا کہا قانون کا درجہ رکھتا ہے تاہم گہرائی سے دیکھا جائے تو وہ مارکسی طرزِ معیشت کی حامل ریاست کے ایک ایسے مطلق العنان حکمران کی علامت ہیں جو پرولتاری آمریت پر یقین رکھتا ہے ـ البتہ اس کردار کا اگر وسیع تر تناظر میں تجزیہ کیا جائے تو یہ مشل فوکو کے نظریہ جبر پر بھی پورا اترتا ہے ـ نرائن شنکر سنجیدگی سے سمجھتا ہے اس کا “علمی جبر” نادان نوجوانوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے ضروری ہے ـ ہندو مائتھالوجی کے تناظر میں نرائن شنکر کا کردار مہا بھارت کے بزرگ ترین کردار “بھسما” کے مماثل بھی نظر آتا ہے جس کی سخت تربیت کرن ارجن کو پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے ـ
راج (شاہ رخ خان) لبرل معاشی نظام کا نمائندہ بن کر ایک مزاحمت کار کی صورت سامنے آتا ہے ـ وہ نرائن شنکر کے جبر کو چیلنج کرکے مشل فوکو کے نظریے کی تشریح کا باعث بھی بنتا ہے ـ راج اور نرائن کے کرداروں کا اگر مائتھالوجی کے تناظر میں تجزیہ کیا جائے تو یہ مہابھارت کے بھسما اور رامائن کے رام کے درمیان تقابل کی صورت نظر آتا ہے ـ بھسما (امیتابھ بچن/نارائن شنکر) جاگیردارانہ معیشت کا جنگجو کردار ہے جو زندہ رہنے کے لئے لڑنے پر مصر ہے جب کہ رام (شاہ رخ خان/راج) لبرل معیشت کے ان مواقع سے لطف اندوز ہونے کی وکالت کرتا ہے جو مڈل کلاس کے لئے پیدا کئے گئے ہیں ـ وہ موسیقی، حسین خواتین سے عشق بازی اور رقص و سرود کا درس دیتا ہے ـ وہ بظاہر ایک ایسے رام “راج” (لبرل معیشت) کا متمنی ہے جہاں مڈل کلاس بے فکری کی زندگی گزار سکے، وہ کسی جابرانہ نظم و ضبط کو تسلیم نہیں کرتا، وہ لبرل جمہوریت کو کنٹرولڈ معیشت پر مقدم گردانتا ہے ـ
لبرل معاشی نظام کو حرفِ آخر اور اپنے لئے سنہری موقع سمجھنے والے متوسط طبقے کے لئے راج ہی آئیڈیل بنتا ہے ـ فلم میں بھی راج کو نرائن سے جیتتے ہوئے دکھایا گیا ہے ـ یہ نہرو کی مکسڈ اکانومی پر لبرل اکانومی کی فتح ہے ـ گروکُل کے طلبا اور ان کی سوچ و طرزِ زندگی سے محنت کش کو جان بوجھ کر غائب کیا گیا ـ اس نئے بھارت(گروکُل) میں محنت کش کی کوئی جگہ نہیں ہے ـ نرائن شنکر کے جبر کو کمیونسٹ طرزِ معیشت کی جگہ رکھ کر اسے فضول اور از کارِ رفتہ قرار دینے اور پھر لبرل معاشی نظام کے نام نہاد انقلاب ؛ راج کی صورت اس کی شکست کے بعد ویسے بھی محنت کش طبقے کی لئے کسی امید کی گنجائش نہیں بچتی ـ
“محبتیں” امیتابھ بچن کے تخت کو الٹ کر ایک نئے بادشاہ کی تخت نشینی کے اعلان کا استعارہ ہے ـ یہ کنگ خان کا جنم ہے جس کی بادشاہت آج تک برقرار ہے ـ
جاری ہے

Facebook Comments

ذوالفقارزلفی
ذوالفقار علی زلفی کل وقتی سیاسی و صحافتی کارکن ہیں۔ تحریر ان کا پیشہ نہیں، شوق ہے۔ فلم نگاری اور بالخصوص ہندی فلم نگاری ان کی دلچسپی کا خاص موضوع ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply