عمران خان عہدِ حاضر کی اسطورہ۔۔فرخ ندیم

ترک ڈرامہ ارتغرل کی شہرت کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ اس نے مسلم اُمہ کو ایک پاپولر بیانیہ دیا۔ ارتغرل کے کردار کو حقیقت اور تخیل ( فکشن) کے ملاپ سے یوں تشکیل دیا گیا کہ وہ عصرِ حاضر کی اہم Myth بن گیا۔ ترک قومیت پسندی نے اپنے ہمسائے یونان کی اسطورہ کے مقابل اپنی تاریخ کو دیکھا اور ایسا کردار دریافت کیا جو نا صرف بازنطینی، صلیبی بلکہ سلطنت روما اور اس عہد کی خوفناک وحشت منگول سے بھی اپنی طاقت منوا لیتا ہے اور ترک قومیت کو یورپ میں قائم کر لیتا ہے۔ عہد حاضر میں اس ڈرامے کی مقبولیت کا ایک اہم سبب مسلم دنیا میں کسی اسطورہ کسی بڑے بیانیے کا فقدان تھا۔ ارتغرل نے وہ خلا ء بخوبی پوراکیا۔ اب، اگر آپ نے اس ڈرامےکو دیکھا ہے تو غور کیجیے اس میں وہ تمام لوازمات ہیں جو مغربی روایت شویلری Chivalry میں موجود تھے، یعنی عیقدے،ثقافت اور قبائلی روایات کے تحفظ کے ساتھ ساتھ محبت بھی شامل ہے۔ ارتغرل خود بھی عورت سے محبت کرتا ہے اور اس کی خاطر کسی بھی قربانی سے پیچھے نہیں ہٹتا۔ اس کے دوست بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ یوں، اسطورہ کے لیے عورت سے رومانس شرط ٹھہرا۔ یہ رومانس قصوں کی صورت میں قبائل میں پھیلتا ہے اور اسطورہ کو تقویت دیتا ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے جب عمران خان نے جمائما سے شادی کی تو اس کی اسطورہ آسمان کو چھونے لگی، اور جب طلاق ہوئی تو یقیناً اسطورہ کو نقصان پہنچا۔ ارتغرل کے دوست بھی عیسائی شہزادیوں اور نواب زادیوں سے رومانس کرتے ہیں اور موت تک ان کا ساتھ نبھاتے ہیں۔یہاں کوئی طلاق دیکھنے کو نہیں ملتی کیونکہ اسطورہ کمزور پڑتی ہے۔ خیر، ہم لوگ عام انسان ہوتے ہیں اس لیے یہ نہیں جانتے کہ ایک دن لوگ ہمیں آئیڈیل کردار سمجھیں گے۔ ہم غلطیاں کرتے ہیں اور اپنی اسطورہ کو خود ہی تباہ کرتے ہیں۔ خان صاحب کے معاملے میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ اس کے باوجود خان کی شہرت اور عزت اس کو عہدِ حاضر کی اسطورہ بناتی ہے۔ عمران خان نے ہیروازم کی باقی شرائط پر خوب کام کیا، مثلاً عقیدہ، قومیت، شلوار قمیض پر بہت توجہ دی اور مسلم دنیا کی عوام کو متوجہ کیا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زیادہ شہرت خیبر پختون خوا  میں کیوں؟ کیا وہاں اسطورہ کی کمی تھی؟ ماضی قریب میں لمبے بالوں والے خوبصورت طالبان بھی تھے جو کافی مقبول بھی تھے۔ وہ اسطورہ کیوں نہ بن سکے،؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ان میں بھی کافی لوازمات تھے مثلاُ ، جنگ، ہمت، حوصلہ، دوستی، عقیدہ، ثقافت وغیرہ لیکن دو چیزوں کی کمی تھی، وہ تھے رومانس اور گلیمر۔

جدید عہد نے ثابت کردیا ہے کہ گلیمر کے بغیر اسطورہ نہیں بن سکتی۔ اگلا سوال یہ کہ سندھ میں کیوں نہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ سندھ میں بھٹو خاندان نے جس طرح قربانیاں دی ہیں وہاں دوسری اسطورہ کی گنجائش نہیں نکلتی۔ بلوچستان کے جیسے حالات ہیں وہاں اگر کوئی اسطورہ کامیاب ہوگی تو علاقائی ہوگی۔ اس کے علاوہ نواب اور جاگیر دارانہ یا زمین دارانہ ثقافت میں اربن گلیمر کامیاب نہیں ہوتا۔

عمران خان ابھی تک قصباتی اور شہری علاقوں کا گلیمر ہے۔ اس کا مرکز پنجاب اور خیبر پختون خوا کے علاقے ہیں۔ اب اس اسطورہ کا مقابلہ غیر اسطورائی سیاست سے ہے۔ یہی کشمکش بڑے تصادم کی شکل اختیار کرسکتی ہے اور خان کی اسطورہ کو مزید تقویت دے سکتی ہے۔ البتہ، تاریخ گواہ ہے کہ کوئی بھی ہیرو کسی بھی وجہ سے بڑی ٹریجڈی کا شکار ہو سکتا ہے، ممکن ہے  اس میں اتنی زیادہ خوفناک نرگسیت ہو کہ وہ دوسروں کو پچھاڑتے، شکست دیتے، آمریت کی شکل اختیار کر جائے۔ یا اتنا کمزور ہو جائے کہ بڑی آسانی سے استحصال کا شکار ہو جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہیرو کے اسطورہ بننے کے بعد اصل وقت شروع ہوتا ہے جس طرح ارتغرل پر ذمہ داریاں اس وقت بڑھتی ہیں جب وہ خود سردار بنتا ہے۔ وہ اکثر استغراق میں چلا جاتا ہے۔ مشورے کرتا ہے، گوکہ ہر ایک کو خوش رکھنا اور اپنے اصولوں پر چلنا مشکل امتحان ہے مگر وہ کر گزرتا ہے۔ ایک اور بات جو ارتغرل کو دوسرے ہیروز سے منفرد بناتی ہے وہ اس کی عاجزی انکساری معاملہ فہمی کے ساتھ ساتھ “میں” کی جگہ “ہم “کا لفظ  استعمال کرنا ہے، وہ جگہ جگہ کہتا ہے “ہم” نے یہ فیصلہ کیا ہے۔ عمران خان کی اسطورہ کو ماننے والے ابھی تک شاید خان کے ساتھ “ہم ” نہیں ہوئے۔ لفظ “ہم” جمہوریت کا حسن ہے اور اسطورہ کی آخری طاقت ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply