• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • نواز شریف آ نہیں رہے بلکہ لایا جارہا ہے/ڈاکٹر ابرار ماجد

نواز شریف آ نہیں رہے بلکہ لایا جارہا ہے/ڈاکٹر ابرار ماجد

نواز شریف کی واپسی میں کوئی رکاوٹ نہیں اب تو ان کو ہٹانے والی کہانی کا پول بھی کھل چکا ہے جس پر کوئی شرمندہ ہو یا نہ اس کو تنقید کا سامنا ضرور ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ عوامی ہمدردیاں نواز شریف کے ساتھ ہیں۔ اور اب عدلیہ سے لے کر اسٹیبلشمنٹ تک کہیں بھی ان کی واپس پر کوئی تحفظ نہیں۔ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور جغرافیائی لحاظ سے بھی اس کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی پاکستان کی سیاست میں بیرونی اثرات سے علیحدہ رکھا جاسکتا ہے اس لئے پاکستان میں بااعتماد اور پختہ سوچ رکھنے والی قیادت بھی مجبوری ہے۔

رکاوٹ کی باتیں ان کے چار ججز اور دو جرنیلوں کے احتساب کی بات پر ہونی شروع ہوئیں اور ان باتوں پر بعض حلقوں بشمول ان کی جماعت میں بھی تشویش پیدا ہوئی مگر اس سے کوئی اس طرح کا خطرہ قطعاً بھی نہیں جو نواز شریف کے سیاسی کردار یا قد کاٹھ سے زیادہ ہو۔ ہاں البتہ ان کو قائل ضرور کیا گیا ہوگا کہ اب ملک کے معاشی حالات سیاسی انتشار پسندی نہیں بلکہ مفاہمت پسندی کا تقاضہ کر رہے ہیں جس پر بیانیے میں تبدیلی بھی دیکھی جارہی ہے۔ خبروں کی متلاشی صحافتی تشنگی کو چند دن کے لئے سامان کاروبار ضرور مل گیا ہے اور اس سے نواز شریف کو بھی مستقبل کی سیاست کے بارے واضح حکمت عملی اخذ کرنے میں مدد مل گئی ہوگی۔

کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ نواز شریف کا اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے کے بغیر ان کی سیاست بے رنگ سی ہوجائے تو میرا خیال ہے کہ ایسا نہیں۔ کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کی قیادت بدل جانے سے اب عوام کے اندر ان کے خلاف وہ تحفظات نہیں رہے بلکہ سیاستدانوں کے آپس کے اختلافات اور نو مئی کے واقعات کے بعد سے عوامی ہمدردیاں فوج کے ساتھ ہوگئی ہیں اور اب اگلے انتخابات کا بیانیہ معیشت کی مضبوطی ہوگا جس کی ٹریک ہسٹری صرف مسلم لیگ نواز کے پاس ہے۔

عوام کے تحفظات کا ان کو بخوبی اندازہ ہے کیونکہ ان کی جماعت کی پچھلے ڈیڑھ سال کی حکومت کے دوران عوام میں تشویش ضرور پیدا ہوئی جس کی وجہ مہنگائی، بیروزگاری اور غربت میں اضافہ ہے جو بجا ہے اور عوام کو ان وجوہات کا اندازہ نہیں مگر ریاست کے ذمہ دار حلقوں کو اس کا اندازہ ضرور ہے

نواز شریف کی واپسی کا تعلق ان کی ذات سے زیادہ عوام اور ملک و قوم کے ساتھ جڑا ہے۔ نواز شریف کو اگر آنے میں حائل کوئی رکاوٹ پیش آسکتی ہے تو وہ عوام کی طرف سے عدم توجہی ہی ہوسکتی تھی جس کا سارا ملبہ شہباز شریف کے ساتھ اختلاف کی افواہوں نے اپنے اندر سمو لیا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو موجودہ معاشی بحران کی صورتحال میں آکر ملک کی باگ ڈور سنبھالنا کوئی آسان کام نہیں اور اس کا ارادہ وہی شخص یا سیاسی جماعت کر سکتی ہے جس کو اپنی صلاحیتوں پر اعتماد ہو۔ نواز شریف پر ماضی کے تمام تر الزامات اس وقت بے وقعت ہوچکے ہیں اور وہ ایک آزاد ماحول میں پر امن زندگی گزار رہے ہیں لہذا ان کی واپسی خالصتاً ملک و قوم کی فلاح ہی ہوسکتی ہے۔

جہاں تک نواز شریف اور شہباز شریف میں اختلافات کی بات ہے وہ نظریاتی ضرور ہوسکتا ہے مگر مفاداتی نہیں جس میں نواز شریف کا جھکاؤ سول بالادستی کی طرف ہے اور شہباز شریف کا رجحان مفاہمتی پالیسی کی طرف ہے۔ مگر ایک دوسرے سے بے وفائی کی حد تک اختلاف میں اگر کوئی جان ہوتی تو جب 2018 میں شہباز شریف کو حکومت کی پیش کش کی گئی تھی اس وقت ہی یہ کوششیں رنگ لے آتیں۔

نواز شریف کی گرفتاری یا اس سے ڈر کی افواہیں بھی سیاسی تجزیہ کاروں کی ناپختہ سوچ کی پیداوار ہیں۔ اگر ان کو اپنے مقدمات ختم کروانے کا خبط یا گرفتاری سے بچنے کا ڈر ہوتا تو وہ اپنے بھائی کے وزیر اعظم ہوتے ہوئے کوشش کرتے۔ اس وقت عدلیہ سے ان کو تحفظات ضرور تھے مگر ان کا حل بھی موجود تھا۔ جو شخص اپنے بدترین سیاسی مخالفین کی حکومت میں اپنی بیٹی کا ہاتھ تھام کر گرفتاری کے لئے اپنے آپ کو پیش کر سکتا ہے اس کی ذات سے منسوب اس طرح کی افواہوں کا پھیلانا منطقی بات نہیں لگتی۔ اب تو ویسے بھی ان کے خلاف مقدمات اپنا وزن کھو چکے ہیں۔

البتہ جو لوگ اب بھی عمران خان سے جذباتی لگاؤ یا اپنی ضد کی بنیاد پر امیدیں لگائے بیٹھے ہیں ان کو اب اس سراب سے نکل آنا چاہیے کیونکہ اگر ایسا ہونا ہوتا تو ان کی ریڈ لائین آج قائم ہوتی۔ اور اس ساری صورتحال کی ذمہ دار ان کی غیر ذمہ دارانہ سیاست اور انتشاری پالیسیاں ہیں جنہوں نے ان پر ملکی اداروں کا اعتماد تزلزل کا شکار کیا اور اب ان کی سیاست میں قریب قریب واپسی کو خواب دیکھنے والوں کی خوش فہمیاں ہی کہا جاسکتا ہے۔ ان کی اب حکومت تو کیا سیاست میں شمولیت کو بھی خطرناک غلطی تصور کیا جارہا ہے۔ عوام کے اندر جو تھوڑی بہت ہمدردی ملی ہے وہ بھی پی ڈی ایم کی حکومت کے دوران بڑھنے والی مہنگائی، بیروزگاری اور غربت کے سبب تھی اور اگر نواز شریف کو پانچ سال حکومت کرنے کا موقع مل گیا تو وہ بھی ختم ہوجائے گی۔ اور اگر وہ حادثاتی طور پر عوام کی سادگی سے فائدہ اٹھا کر آ بھی گئے تو اپنی ناقص کارکردگی کی بنیاد پر اس کو قائم نہیں رکھ سکیں گے۔

نواز شریف کا بغض صرف سیاسی مخالفین میں ہی نہیں پایا جاتا بلکہ ان کی اپنی جماعت کے ان لوگوں میں بھی پایا جاتا ہے جو نواز شریف کے ووٹ کی خاطر پہلے خوشامدیں کرکے ٹکٹ حاصل کرتے ہیں اور پھر جب اسمبلی میں پہنچ جاتے ہیں تو پھر وہ چاہتے ہیں کہ وزیر اعظم ہاؤس میں میلے کا سماں ہو اور ان کو پروٹوکول دیا جائے مگر کہا جاتا ہے کہ وقت ضائع نہ کریں کام کریں جس سے وہ ناراض ہوجاتے ہیں اور تیسرا طبقہ سرکاری افسران کا ہے جن کو کام کرنا پڑتا ہے اور میرٹ سے ہٹ کر کوئی کام کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ اس لئے کام پر یقین رکھنے والے تو خوش ہوتے ہیں مگر باقی پریشان ہوتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب اس جوڑی کو اقتدار دینے سے روکنا اس لئے بھی مشکل لگ رہا ہے کہ شہباز شریف کو اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں کا تارا ہونے کے طعنے اس کی ورتھ بن چکے ہیں اور نواز شریف پر عالمی سطح کا اعتماد ہماری معیشت کی مجبوری ہے۔ ایسے میں ان کے خلاف بغض رکھنے والوں کو چاہیے کہ اپنی سوچ کو بدلیں اور ملک و قوم کی فلاح کے لئے ان کی طاقت بنیں۔ پاکستان کی ترقی کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ موجودہ معاشی بدحالی سے نکالنے کی امید نواز شریف سے ہی وابسطہ کی جاسکتی ہے جس کی بنیاد ان کی کارکردگی، عالمی سطح پر اچھے تعلقات اوران پر اعتماد ہے جس کے پیش نظر ان کی واپسی کی کوششیں کی جارہی ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply