کیا مسلم تاریخ خرافات کا مجموعہ ہے؟

(عامر حسینی )۔۔۔

نوٹ : میں ان موضوعات پہ جب کبھی قلم اٹھاتا ہوں تو کوشش کرتا ہوں کہ انتہائی سنجیدگی اور علمی دیانت کے اصولوں کا دامن کہیں بھی ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے،کیونکہ نوجوان نسل جو ان سب چیزوں کے بارے میں جاننا چاہتی ہے اس کے سامنے سب چیزیں کھول کر رکھ دینے اور اس کے سامنے ٹھیک ٹھیک تقابل رکھنے سے ہی معاشرے میں تعمیر کی امید رکھی جاسکتی ہے۔میں فقرے بازی اور بیانات جاری کرنے کے رجحان کی پیروی نہیں کرتا اور بھیڑ چال ہونے سے بچتا ہوں۔وہابیت ، ریڈیکل دیوبندی ازم سمیت اسلام کے نام پہ جتنے بھی انتہا پسندانہ اور بنیاد پرستانہ رجحانات سامنے آئے ہیں انہوں نے اس جن کو پھر بوتل سے باہر لاکھڑا کیا ہے جو آٹھویں اور نویں صدی عیسوی میں اس وقت کے اندلس (اسپین) میں سامنے آیا تھا یا پھر اسلام کی ابتدائی تاریخ میں ہم نے شامی عرب کرسچن اور یہودی لکھاریوں کے ہاں اسے پنپتا دیکھا اور پھر کالونیل دور کی مغربی مستشرقین کی تحریروں میں اور کالونیل ہندوستان میں عیسائی مشنریوں کی آمد اور اس کے ردعمل میں یہاں مناظرہ باز آریہ سماجی اور ملائیت کے درمیان ہونے والے تنازعوں سے باہر آیا تھا اور میں صاف کہتا ہوں آج اس جن کو باہر لانے میں سامراجی سرمایہ دار طاقتوں کا بڑا ہاتھ ہے جنہوں نے داعش، القاعدہ جیسی تنظیموں کا راستہ ہموار کیا ہے اور رجیم بدلو پالیسی کے نام پہ جہاد ازم اور تکفیر ازم کو بڑھاوا دیا اور ان کی پھیلائی ہوئی تباہی کے ردعمل میں اسلام، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم، مسلم تاریخی ورثے پہ فکری اور اخلاق سوز بددیانتی پہ مبنی حملے ہورہے ہیں۔چوروں کی ماسی کو جب تک نہیں پکڑا جائے گا اس وقت تک اصل ایشو حل نہیں ہوگا۔پاکستانی تناظر میں پاکستانی ریاست اور اس کے اداروں کا جبر اور اس کے لئے ملائیت اور مذہبی جنونیوں کو استعمال کیا جانا اور سب سے خطرناک بات بلاسفیمی کو اختلافی آوازیں دبانے کے لئے استعمال کرنے کی روش نے کئی ایک لوگوں کو برگشتہ کردیا ہے اور وہ تخریبی سمت میں چلے گئے ہیں۔ریاست اپنے جبر اور اپنے ظلم کو چھپانے کی محتلف پردوں میں کوشش کررہی ہے اور وہ اصل بات سے دھیان ہٹانے کے لئے مختلف ہتھکنڈوں کا استعمال کرتی ہے اور ایسے شور شرابے میں اصل ایشوز پیچھے چلے جاتے ہیں

میں نے ایاز نظامی جیسے بے ہودہ الحاد پسندوں کے طریقہ تحقیق کی خامیوں کی جانب اپنے تین عدد مضامین میں بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی تھی اور میں نے پھر بھی یہ محسوس کیا کہ بہت سے لوگ سلمان رشدی،ایاز نظامی، غلام رسول،منیب احمد، امجد حسین اور اس طرح کے اور بہت سے لوگوں کو بڑا محقق خیال کررہے ہیں اور ان کے خیال میں ان لوگوں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی کا جو تصور اور ان کی جو تصویر و امیج اپنی تحریروں پیش کیا ہے اس کی بنیاد ان کے خیال میں قرآن، کتب احادیث، کتب اسلامی تاریخ کے اندر موجود ہے اور ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر یہ بلاسفیمی ہے تو اس کا ارتکاب سلمان رشدی،ایاز نظامی، غلام رسول، منیب احمد، امجد حسین نے نہیں کیا بلکہ یہ ارتکاب تو مسلم محدثین، مفسرین،مورخین اور فقہائے اسلام سے سرزد ہوا ہے اور یہ بات بار بار دوہرائی جاتی ہے اور مجھے لگتا ہے کہ اس بار بار دوہرائے جانے والے مغالطے کے سبب کئی ایک نوجوان بھی یہ سمجھنے لگیں ہیں کہ واقعی ایسی چیزیں ٹھیک اور مستند اسناد کے ساتھ مسلم کتب میں موجود ہیں۔میں نے اس سلسلے میں جہاں خود غورو فکر شروع کیا وہیں میں نے اپنے دوستوں سے بھی کہا کہ وہ اس معاملے میں میری مدد کریں کہ اس موقف بارے ان کا کیا خیال ہے۔اب یہ سوئے اتفاق ہی ہے کہ جرمنی میں پناہ گزین ایک شامی کمیونسٹ دانشور عبدالواحد قاسم جو کہ سوشل میڈیا کی بدولت مجھ سے باقاعدہ رابطے میں ہیں نے مجھے بتایا کہ اس سے ملتے جلتے موضوع پہ امریکن پروفیسر کینتھ باکسٹر وولف نے بہت زبردست تحقیق کی ہے اور انہوں نے اس حوالے سے کئی کورسز متعارف کرائے ہیں۔
Saints and Society and Medieval Europe and the World Outside
Holy Violence
Heresy and Church,
Earliest Christian Views of Islam,
Martyrdom, and Medieval Spain

اور میں نے پروفیسر کینتھ کے ایک درجن سے زائد آرٹیکلز جب پڑھے تو مجھے احساس ہوا کہ اس موضوع پہ بات کرنے کے لئے جس وسیع علم اور مہارت کی ضرورت ہے اس کا عشر عشیر بھی ہمارے نئے ملحدین کے پاس موجود نہیں ہے۔ایک امریکی کالج ہے پومونا جو کہ کیلی فورنیا ریاست میں ہے اس کے شعبہ تاریخ میں ایک کورس کروایا جاتا ہے جس کا نام ہے:
Late Antique-Medieval Studies-LAMS
اور اس میں اوپرذکر کردہ پانچ کورسز پڑھائے جاتے ہیں اور اگر آپ ان کورسز ميں زیر بحث آنے والے موضوعات سے کماحقہ واقف نہیں ہیں تو پھر آپ کو یہ بھی پتا نہیں چلے گا کہ قدیم لاطینی رائٹرز اور جیوش مصنفوں اور خود مسیحی مستشرقین کے ہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جو مسخ شدہ تصویر پیش کی جاتی ہے وہ مسخ شدہ ہے کیسے، اور وہ کیسے علمی دیانت داری کے اصولوں کے بالکل خلاف ہے۔کینتھ وولف کا ایک مضمون ہے جس کا عنوان ہے:
"ابتدائی لاطینی کتب ہائے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ردِ تاریخ"

کاؤنٹر ہسٹری یا ردِ تاریخ کی اصطلاح مرحوم آموس فنکسٹائن نے استعمال کی اور اس سے اس کی مراد تاریخ کی تشکیل نو کرنا تھی ،ایسے طریقے سے کسی بھی تاریخ کو بغض،کینے اور نفرت کے سبب توڑنا،اور پھر اسے اپنے طریقے سے جوڑنا اور اس کی پوری شکل ہی بدل ڈالنا۔فنکسٹائن کا کہنا ہے کہ ردِ تاریخ ایک مربوط استحصال ہے اپنے مخالف کے سب سے بااعتماد سرچشمہ علم کا اور اس کی سب سے بری شکل وہ ہے جس میں مخالف کی مثبت شناخت ، اس کا اپنا امیج تو سرے سے غائب ہوجاتا ہے اور اس کی جگہ صوابدیدی کاؤنٹر امیج یا ردِ تصور لے لیتا ہے۔اموس فنکسٹائن اگرچہ اسرائیل اور فلسطینی تواریخ بارے اس تصور کی روشنی میں تحقیق کررہا تھا لیکن ردِ تاریخ کا جائزہ لیتے ہوئے وہ قرون وسطی تاریخ میں چلا گیا اور وہاں اس نے ردِ تاریخ کی پریکٹس میں"Toldoth Yeshu" کی نشاندہی کی۔یہ یہودی ماہر ِ تاریخ تھا جس نے حضرت عیسیٰ ابنِ مریم یسوع مسیح کی سیرت مرتب کی اور یہ ایک طرح سے حضرت عیسی ابن مریم کی سیرت کو مسخ کرنے کا کام تھا جو اس نے سرانجام دیا۔کینتھ کا کہنا ہے کہ آموس نے بتایا کہ یوشے نے اصل میں یسوع مسیح کو ایک مسیحا کی بجائے جادوگر اور حق سے پھر جانے والا دکھانے کے لئے مسیحی تاریخی مآخذ سے مواد لیکر ان کی ترتیب نو کی اور ان کو ایسے مسخ کیا کہ سرسری نظر ڈالنے سے پتا ہی نہیں چلتا لیکن اس کی
"Give and take strategy" اور
rhetorical tactics necessary to infiltrate Christian sacred history and
attack it from the inside
کا بغور جائزہ لینے سے صاف پتا چل جاتا ہے۔ کینتھ یہاں ہمیں ایک اور مصنفہ سے بھی متعارف کراتا ہے اور اس کا نام ہے:
"Barbara Roggema"
ڈاکٹر بابرا روگیما نے شامی راہب بحیرہ پہ پی ایچ ڈی کی تھی اور ان کو مسلم-جیوش تعلقات کی قدیم وسطی تاریخ کی ماہر خیال کیا جاتا ہے۔کینتھ کا کہنا ہے کہ باربرا نے اپنی تازہ ترین تحقیق میں اسی کاؤنٹر ہسٹری یا جسے وہ طفیلی تاریخ نگاری یا"Parasitical historiography" کا نام دیتا ہے اس کے تصور کو ابتدائی شامی اور عرب مسیحی مورخین کی تحریروں پہ نافذ کرکے دکھایا ہے کہ کیسے انہوں نےاس چیلنج کا سامنا کیا جو اسلام نے ان کے مذہب کے سامنے رکھا تھا اور اس کا سامنا اسلام کی تاریخ کو مسخ کرتے ہوئے کیا۔اس حوالے سے اور تفصیل سے پڑھنے کے لئے دو کتابیں پڑھنا ہوں گی جن کی تفصیل نیچے دی جارہی ہے:

History, Counterhistory, and Narrative,” in Saul Friedlander, Probing the Limits
of Representation: Nazism and the “Final Solution” (Cambridge, MA: Harvard University Press, 1992
Written By Amos Funkenstein

The Legend of Sergius Bahira: Eastern Christian Apologetics and Apocalyptic in
Response to Islam (Leiden: Brill, 2009) by Barbara Roggema

باربرا روگیما اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے میں بہت تفصیل سے بتاتی ہیں کہ کیسے ابتدائی شامی مسیحی مورخین نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ کا پیغمبر ماننے اور ان پہ وحی سے نزول سے انکار کرنے کے لئے مسلم تاریخ کے واقعات کو توڑا اور مسخ کیا۔
اور یہاں بہت ہی دلچسپ مثال خود بابرا نے دی ہے جس کا تذکرہ کینتھ بھی اپنے مضمون میں کرتا ہے اور وہ ہے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی حضرت محمد صلی اللہ علیہ زآلہ وسلم سے شادی کا واقعہ ، جس کا ذکر قرآن میں موجود ہے اور قرآن کریم اور احادیث مبارکہ صاف صاف بتلاتی ہیں کہ یہ شادی اللہ کی منشاء سے ہوئی اور اس میں کوئی اور امر کارفرما نہیں تھا لیکن باربرا کے مطابق ابتدائی شامی مسیحی مورخین نے اسلام کو جھٹلانے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عصمت و عفت پہ الزام عائد کرنے کے لئے اس واقعہ کی تفصیل کو مسخ کیا اور اس پورے واقعے کی شکل ہی بدل ڈالی۔

جن لوگوں نے جراتِ تحقیق ،ارتقاء فورم اور فری تھنکرز پہ ایاز نظامی و دیگر کی تحریروں کا مطالعہ کیا ہے اور راج پال کی کتاب کو دیکھا ہے اور ایسے سلمان رشدی کی کتاب کو پڑھا ہے ان کو بخوبی معلوم ہے کہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شادی کے قصّے اور واقعے کو کیسے بالکل شامی کرسچن مصنفین کے انداز میں بیان کیا اور یہاں بھولے سے بھی بابرا روگیما ، کینتھ وولف، فنکسٹائن اور کئی اور مورخین کا ذکر تک نہ کیا اور ہمیں یہ بھی نہ بتایا کہ اندلس /قرطبہ اور حال کے اسپین میں جب توہین /بلاسفیمی کی باقاعدہ تحریک چلائی گئی تھی تو اس وقت اس تحریک کا خود کرسچن کمیونٹی کے اکثر دانشوروں نے رد کیا تھا اور کیا کچھ لکھا گیا تھا اس پر۔

اور نہ ہی انہوں نے اس حوالے سے یہ بتانے کی کوشش کی کہ کیسے یورپ کے قرونِ وسطی کی تاریخ پہ ریسرچ کے نئے زاويے سامنے آئے ہیں اور یہ جو ولگر توہین آمیز متون یورپی تاریخ میں پائے جاتے ہیں ان کے بارے میں یورپ اور امریکہ کے شعبہ ہائے تاريخ میں اب کن خطوط پہ تحقیق ہورہی ہے اور کیسے وہ اسے آزاد خیالی کی لہر کا ترجمان سمجھنے کی بجائے مسخ شدہ تاريخ کی ترجمانی کرنے والی ایک فرقہ وارانہ اور اسلام دشمن لہر کے طور پہ دیکھ رہے ہیں۔ویسے مجھے نہیں لگتا کہ سلمان رشدی، ایاز نظامی، علی سینا اور ان جیسے بے ہودہ ملحدوں نے اتنی گہرائی ميں جاکر بلاسفیمی اور سیرت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسخ کرنے کی کوششوں کو دیکھنے کی کوشش کی ہوگی کیونکہ ان کے ہاں کہیں بھی اتنی معروف کتابوں اور ان میں بیان کی گئی باتوں کا ذکر تک نہیں ملتا۔

کینتھ لکھتا ہے کہ باربرا ہمیں بتاتی ہے کہ کاؤنٹر ہسٹری کے زیر اثر تاریخ اسلام اور سیرت پہ لکھنے والوں نے اسلام کی مقدس تاریخ کے کچھ حصوں کو چال کے طور پہ قبول کیا مقصد پوری تاریخ کو اپنے تعصبات اور اپنی نفرت کے مطابق ڈھالنا تھا۔بلکہ باربرا تو اسے سازش تک کہہ دیتی ہیں۔ کینتھ وولف نے اپنے تحقیقی مقالے میں ابتدائی لاطینی مسیحی مصنفوں کی ردِ تاريخ اسلام کی کوششوں کا جائزہ لیتے ہوئے آٹھويں اور انیسویں صدی میں سیرت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک سے ناموں سے لکھی گئی دو کتابوں کے متن اور اسلام کی مستند کتب ہائے تاریخ و احادیث و تفاسیر سے موازانہ کیا ہے اور پھر بتایا ہے کہ کیسے ایک ہی واقعے کو جیسے وہ مسلم تاریخ میں درج ہوا ردوبدل کرکے اور اسے مسخ کرکے اس کی نئی تعبیر سامنے لائی گئی۔

اس سلسلے میں شام میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے چچا حضرت ابو طالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ سفر کرنے اور اس دوران ایک شامی راہب بحیرہ سے ملاقات کا واقعہ ہے اس کی تفصیل میں کیسے رد و بدل کیا گیا اور کیسے اپنے مطابق اسے ڈھالا گیا اس پہ کینتھ وولف نے بہت تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے چشم کشا حقائق بیان کئے ہيں۔ کینتھ وولف ہمیں یہ بتاتا ہے کہ سیرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جو خاکہ ہمیں سیرت ابن ہشام سمیت طبری سے لیکر ابن اثیر اور محمد بن سعد کی طبقات میں ملتا ہے اس سے وہ مفہوم نہیں نکلتا جو ابتدائی لاطینی کرسچن مورخین نے نکال لیا۔ یہ تاريخ کی ری کنسٹرکشن تھی اور خود حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بارے خیال اور تصور کی صورت گری کا منفی طریقہ تھا جو اپنایا گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہاں ایک اور پتے کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں سرسید نے میور کی کتاب کا جواب لکھا اور اس جواب کے دوران انہوں نے یہ کیا کہ اکثر واقعات و حوادث کا سرے سے انکار کردیا اور ان کے ہاں ابتدائی مستشرقین یا کالونیل دور میں اسلام پہ ہونے والے فکری حملوں میں جو کاؤنٹر ہسٹری اور ردِ بیانیہ ملوث تھا اس کو پاجانے کا سراغ نہیں ملتا اور اسی لئے وہ تاریخ اسلامی کو ہی خرافات کا مجموعہ خیال کربیٹھے۔یہاں تک اقبال کی اپنی فکر پہ اس کے اثرات نظر آتے ہیں اور وہ یہ شعر لکھتے ہیں:
"تاريخ تمدن شریعت کلام
بتان عجم کے پجاری تمام
یہ امت روایات میں کھو گئی
حقیقت خرافات میں کھوگئی"
اسے غلام احمد پرویز سمیت اکثر عقلیت پسند مسلم مفکرین نے بطور ماٹو کے اپنایا اور حمید الدین فراہی اور ان کے شاگرد غامدی کے ہاں بھی یہ رجحان نظر آتا ہے لیکن حیرت انگیز طور پہ ہمیں مغرب کے اندر ردِ تاريخ ، ردِ بیانیہ جیسے ڈسکورس کا چرچا مسلم معاشروں میں نہیں ملتا۔اس لئے میں کہتا ہوں کہ ہمارے ہاں جدیدیت کے علمبردار ملائیت اور بنیاد پرستی اور انتہا پسندی پہ مبنی مذہبیت کے ردِ عمل میں ابھرنے والے بے ہودہ الحاد اور اسلام دشمن رد تاریخ خیالات کی سطحیت اور ردی ہونے سے جب صرف نظر کرتے ہیں اور اسے آزادیء فکر اور آزاد خیالی کی فکری تحریک ثابت کرنے پہ تل جاتے ہیں تو وہ بہت سنگین غلطی کے مرتکب ہوتے ہیں اور اس سے خود ان کی لاعلمی کا پول بھی کھل رہا ہوتا ہے اور مسلم تاریخ کا جو ورثہ ہمارے پاس ہے اسے کم از کم قدیم لاطینی،شامی عرب مسیحی و یہودی متعصب ردِ تاریخ بیانیوں یا آج کے نسل پرست اسلامو فوبک ، اسلام دشمن اور تعصب پہ مبنی شاؤنسٹ ڈسکورس کی پیروی میں دیکھنے اور دکھانے کا جو سلسلہ اس کی پیروی نہیں کرنی چاہئیے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply