فیسبکی راجہ گدھ

کچھ عرصہ قبل ایک ہما صفت انسان نے سیمرغ صفت انسان کو اکسایا کہ انسان دیوانگی اور تنہائی کا شکار ہوتا جا رہا ہے کیوں نہ انسانوں کے جنگل میں ایک کانفرنس منعقد کی جائے ، جسکا ایجنڈا یہ ہو کہ انسان دیوانگی کی تنہائی سے باہر نکلے ۔ سیمرغ صفت انسان شوروغل اور انسانوں کے جنگل سے دور رہتا تھا مگر اس نے ہما صفت انسان کے کہنے پر حضرت انسان پہ پڑی دیوانگی اور تنہائی کی افتاد کے سد باب کیلئے کانفرنس کا انعقاد کر دیا اور پھر 2004 میں یہ کانفرنس فیسبک کے نام سے منعقد ہوئی ۔ اس کانفرنس میں شرکت کے لئے پوری دنیا سے انسان غول در غول امڈ پڑے اوریوں بہت سی صفتوں پر مشتمل عالی دماغ رکھنے والے انسان مل بیٹھ کردیوانگی کی تنہائی کا حل ڈھونڈنے میں ایک دوسرے کے ہمرکاب بن گئے۔

مینا صفت انسان نے اپنے خدشے پر مبنی ابتدائیہ، کانفرنس میں کھل کر بیان کر دیا کہ حضرت انسان حرام کھا کر راجہ گدھ بن چکا ہے اب اس کو ہر اس حرام کام کی لت لگ چکی ہے کہ جس پر “لا” کا حکم صادر ہے ۔ ہرحرام کام میں مبتلا یہ راجہ گدھ اب ہر جگہ ہر ادارے میں پوری ڈھٹائی کے ساتھ براجمان ہے۔نہ اس کی بھوک کم ہوتی ہے اور نہ ہی یہ دیوانگی اور تنہائی کےحصارسے باہر نکل رہا ہے۔ اسی حرام کی لت اور بھوک کی اشتہا کے سبب اب انسانوں کے جنگل میں تباہیاں پھیلتی چلی جا رہی ہیں۔ انسان انسان کا حق مار کر اسے یرغمال بنانے پر تلا ہوا ہے۔سلطنتیں صفحہ ہستی سے مٹتی چلی جا رہی ہیں۔ خوف کے سائے مہیب تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔حرام کھا کھا کر انسان دیوانگی اور تنہائی میں مبتلا ہوتا جا رہا ہے۔ آئیے اس دیوانگی اور تنہائی کا حل تلاش کریں۔ یہی اس کانفرنس کا اصل مقصد ہے۔

اس کانفرنس میں دنیا کے کچھ آوارہ کتا صفت انسان بھی تشریف فرما ہیں ، جو صبح شام آنکھوں میں نادیدہ ہوس بسائے خوبصورت گوشت کی دوکانوں کےاردگر منڈلاتے اورہر آنے جانے والے پر بھونکتے رہتے ہیں۔ یہ کتے ہوس کی کیچڑمیں اس قدر لتھڑ چکے ہیں کہ ا ن کی نظرمیں گوشت کی دوکان پر گوشت کا باسی ہونا ، تازہ ہونا ،حرام یاحلال ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا ۔ یہ تو بس خونخوار پنجے لیے جھپٹنے، بھنبھوڑنے اور بھونکنے کو بےقراررہتے ہیں۔

یہاں کئی الو صفت انسان بھی موجود ہیں جو فقط سوال ہی کرتے رہتے ہیں، بہت پڑھے لکھے ہونے اور سوال کرنے کے باوجود وہ ایک ایسی بیماری میں مبتلا ہیں کہ جب انکی آنکھیں کھلتی ہیں تب صبح کا اجالا رات کی تاریکی میں گم ہو چکا ہوتا ہے ۔ یوں یہ الو صفت انسان اجالے کی حقیقت سے بے خبر ہی وقت گزارے جا رہے ہیں۔

کانفرنس میں ایک ایسا بے نیاز ٹولہ بھی شریک ہے ۔جو اپنی ہی دنیا میں مگن ہے۔ اسکی طرف سے کانفرنس جائے بھاڑ میں ۔ اس ٹولے میں شامل تتلی صفت انسان اپنے رنگ پہ نازاں ، غرور کے ساتھ چمن کے ہر نئے پھول اور شاخ پر کچھ دیر سستا کر اک نئے پھول اور اک نئی شاخ کی تلاش میں سرگرداں ہو جاتے ہیں اور بھنورہ صفت انسان بیچارے انکی تلاش میں مارے مارے پھرتے اور ہلکان ہوتے نظر آتے ہیں۔ ہرنی صفت انسان قلانچیں بھرنے میں مشغول نظر آتے ہیں۔ انہیں اپنے جسم کی بناوٹ پر اپنے جسم کے نشیب و فراز پر بڑا ناز ہے ۔

لومڑ صفت انسان انہی کے قبیل میں شامل وہ چالاک ہیں جو ہمدرد بن کے سب کے جذبات سے کھیلتے ہیں اور اپنی ہوس کی پیاس بجھاتے رہتے ہیں۔ ۔یہاں بھاری بھرکم وجود رکھنے والے چیل صفت انسان بھی ہیں ،جو بڑی ہوشیاری سے وارد ہوتے ہیں اور کانفرنس کے اغراض ومقاصد بیان کرنے کی آڑ میں گدھ صفت انسان کو تضحیک کا نشانہ بنا تے ہیں اور اپنی دیوانگی کے ہاتھوں مجبور ہو کر تجربہ کار لومڑ صفت انسان کو شکار کر کے اپنی اس دیوانگی کو راجہ گدھ کے کھاتے میں ڈال کر چلتے بنتے ہیں ۔

اسی قبیل میں شامل کوا صفت انسان سب کی باتیں ادھر سے اُدھر پہنچانے میں ہر دم چوکس رہتے ہیں۔ لگائی بجھائی کا کام یہ پوری ایمانداری سے سرانجام دیتے ہیں اور گدھ صفت انسان جو سب کا بوجھ اٹھاتے ہیں سب کی گالیاں کھاکر بھی اندھا دھند تقلید کا پٹہ گلے میں ڈالے عقل سے محروم نظر آتے ہیں ۔شاید انکی فطرت ہی ایسی ہے ۔

پہلے پہل تو بہت سے انسان کانفرنس کے اغراض و مقاصد ہی نہ سمجھ سکے۔پھر رفتہ رفتہ کچھ سیانے دانا صاحب علم وفراست اور مدبر بلبل صفت انسان مترنم صدا دینے لگے۔ان بلبلوں نے اپنی سریلی آواز سے طرح طرح کے راگوں اور راگنیوں پر مشتمل محبت اور شگفتگی کے وہ نغمے گنگنائے کہ جن کی بازگشت گونجتی ہی چلی جا رہی ہے۔ یہ بلبلیں اپنے نالے میں ماضی اور حال سے پیدا ہونے والے تغیروتبدل سے مستقبل کی نویدیں سناتی ہیں۔ یہ بلبلیں جانتی ہیں کہ راجہ گدھ کس بیماری کا شکار ہے ۔ ان بلبلوں نے بڑے بڑے سنیاسیوں کی صحبت میں رہ کر علم کا فیض حاصل کیا ہے۔ یہ مانتی ہیں کہ علم کا سفر ہمیشہ معلوم سے نامعلوم کی طرف لے جاتا ہے مگر پھر بھی یہ صدا پر صدا دیتی ہیں تاکہ لوگ ان کی صدا کو سن کر حلال و حرام کے فلسفےکو سمجھ سکیں کہ جس خدشے کا اظہار مینا صفت انسان کانفرنس کے ابتدائیہ میں کر چکے ہیں۔

یہ حضرت انسان ، جسے قدرت نے توانائی سے نوازا ہے اور توانائی ہمیشہ وہی کہلاتی ہے جو منتقل ہو ، جو منتقل ہونے کے عمل سے محروم ہو جائے وہ توانائی ہر گز نہیں کہلاتی۔ اگر حضرت انسان یہ توانائی آگے منتقل نہ کرے تو وہ اپنی زندگی کا مقصدکھو بیٹھتا ہے اور پھراپنی نسل سے محروم ہو جاتا ہے۔ یہ توانائی کہیں حلال رزق کی شکل میں ہے اور کہیں حلال علم کی شکل میں پائی جاتی ہے ۔ یہ توانائی ہر حلال کام کو مان لینے اور ہر حرام کام کے انکار کرنے میں بھی ہے۔

اب اگر کسی کے پاس حلال توانائی ہوگی تو وہ حلال توانائی آگے منتقل کرے گا اور اگر اس کے اندر حرام توانائی کے ذرات جمع ہوچکے ہیں تو یہ حرام توانائی آنے والی نسلوں میں منتقل ہوتی چلی جائے گی۔جس سے آنے والی نسلوں میں غورو فکر کی قوت مسدود ہوتی چلی جائے گی اور غور وفکر کا مسدود ہو جانا ہی دیوانگی کہلاتا ہے اور اسی دیوانگی کے سبب وہ تنہائی کا شکار ہو کرخود کو ہی عقل کل سمجھ کر راجہ گدھ کا روپ دھار لیتا ہے اور پھر یہ راجہ گدھ پوری شدت سے بوٹیا ں نوچتا ہے ، تاریخ کو مسخ کرتا ہے، لوگوں کو گمراہ کرنے کے نئے نئےطریقے ایجاد کرتا ہے ۔ جو زمیں پر بربادی اور فساد کا موجب بنتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

مگر نقار خانے میں ان بلبلوں کی صدا اب کون سنتا ہے؟

Facebook Comments

شاھد علی قمر
بدلے بھیس کو غم ہیر نہ سمجھ جو لے بیٹھا ہوں یہ جوگ اور ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply