ارمغان ۔۔مختار پارس

پریشان ہو تو باہر نکلو۔ اندر گھٹن ہو تو نماز بھی قضا ہو جاتی ہے۔ اندر کے اندھیرے محدود کر دیتے ہیں اور آہستہ روی سے یاس و قیاس کا ایسا جال بنتے ہیں کہ دل و جان خاکدان میں دھرے  دکھائی دیتے ہیں۔ کرہء  ارض بھی ایک مشتِ خاک ہی ہے اور  لامتناہی اندھیروں میں اور خاکدانوں کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ وہ اس درد میں ہے کہ اسے ایک کہکشاں تک محدود کر دیا گیا ہے۔ اسے اِس اندر سے نکلنا ہے۔ اُس پر رہنے والوں کو اپنے اندر سے نکلنا ہے۔ دونوں کا اپنا اپنا اندر ہے مگر ان کا اندھیرا ایک ہے۔ ان دونوں کا غم ایک نہیں مگر ان کا ارادہ ایک ہے۔

عہدِ مفارقت کو نبھانے کا کہہ کر درازیء عمر کی دعا دینا جزا نہیں سزا ہے۔ جسم کے حصار میں رہنا کچھ کم عذاب نہیں۔ قفس میں بیٹھ کر آزادی کا خواب آنکھوں میں سجا دینے سے زندگی سہل نہیں ہو جاتی۔ خواب بلند ہوں تو زندگی بہت پیچھے رہ جاتی ہے۔ کوئی خواب کسی قید میں شرمندہ ء تعبیر نہیں ہو سکتا۔ حقیقت دیواروں کے پیچھے نہیں دروازوں پر دستک دیتی نظر آتی ہے۔ قلعے مسمار ہو جاتے ہیں اور محلات منہدم ؛ مکین خاموش ہو جاتے ہیں اور مالک ناپید ؛ قفل زنگ آلود ہو جاتے ہیں اور زنجیریں خاکستر؛ مگر روشنی اور سورج کی کرنیں بوڑھی نہیں ہوتیں کیونکہ وہ کسی فراق میں مبتلا نہیں ہوتیں۔ انہیں بس آزاد رہنا ہے اور ہر اندھی کوٹھڑی میں آنکھیں مسلتے ہوۓ قیدیوں کو گدگدانا ہے۔

ہر علم محدود ہے۔ مزید جاننے کی خواہش ہو تو زندان ٹوٹ سکتا ہے۔ مرکزِ حیات جسم نہیں بلکہ سوچ ہے جسے دائروں سے نکلنے کی طاقت حاصل ہے۔ مدار سے فرار کی قوتوں کے جسم روادار نہیں۔ آتشِ شوق روح کی گہرائی میں کہیں سلگتی ہے اور پھر فنا کر دیتی ہے۔ اس چھوٹی سی کہکشاں کی کیا مجال کہ انسان کو خلاؤں کے اس پار دیکھنے سے روک سکے۔ حقیقت کی تلاش کا حق ہر شخص کو حاصل نہیں۔ راز وہی فاش کر سکتا ہے جسے دل کی دھڑکنیں نہیں روک سکتیں، جسے جسم سے باہر نکلنے پر ہراساں نہیں کیا جا سکتا اور جسے مختلف سوچنے پر سنگسار نہیں کیا جا سکتا۔ سرحدوں کو عبور کر لینے والوں کو پابند کرنے کا رواج کائنات کے اصولوں کے خلاف ہے۔

میں نے اپنے آپ سے، اپنے معاشرے سے اور اپنے پروردگار سے کیا کہہ رکھا ہے۔ کچھ تو کہا ہو گا کہ میں اس مسلسل گھومتی دنیا کی لامحدود اور بےکنار زمینوں میں موجود ہوں اور ناموجود ہونے کے وسیع امکانات کی پاسبانی میں مبتلا ہوں۔ جو رب نے عطا کیا ہے اس میں سے میں اپنے آپ کو، اپنے معاشرے کو کیا دے سکا ہوں۔ ایسا کیا ہو سکتا ہے کہ میں عہدِ آئیندہ کو مایوس نہ کروں اور مٹی سے گوندھے جانے کا قرض لوٹا سکوں۔ سوالات اندھیری کوٹھڑیوں میں مقید قیدیوں کی طرح سر گھٹنوں میں دے کر پڑے ہیں۔ جتنی دیر ہوتی جاۓ گی، قید خانے کی دیواریں پھیلتی جائیں گی۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ میں کہاں سے آیا ہوں اور کہاں کو جاتا ہوں۔ اس سوال کا جواب نہیں ملتا تو پھر سات آسمانوں میں صرف اندھیرے ہیں۔ جو ہو چشمِ حیراں تو پھر عقل والوں کےلیے نشانیاں ہیں۔ حیرت نجات کا باعث بن سکتی ہے، غفلت نہیں۔

ہم میں سے ہر شخص کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ادراک کا اعلان کرے۔ روشنی خاک کے ذرات کو متزلزل کر سکتی ہے۔ سچ کی تلاش کے سفر میں شکست و ریخت کا عمل دامنِ دل کے ساتھ ساتھ دھڑکتا ہے۔ ہر خیال نے ٹوٹ کر بکھرنا ہے اور ہر تہذیب نے صرف اپنے آثار کو بچا پانا ہے۔ صنم خانوں کو میوزیم بنتے کچھ زیادہ دیر نہیں لگتی۔ تاریخ صرف وہ نہیں جو ہمیں معلوم ہے۔ تاریخ سے پہلے کی بھی تاریخ ہے۔ وقت اس وقت بھی تھا جب کوئی وقت نہیں تھا۔ ایسے میں جو سمجھ میں آۓ وہی سچ ہے۔ امکان کئی طرح کے ہوتے ہیں اور ایک ہی مکان میں اکٹھے بھی رہ سکتے ہیں۔
ازمنہ قدیم سے سچ ایک ہی ہے؛ فنا کی تصویر، تقدیر نے ہر آنکھ میں لکھ دی ہے۔ جو کچھ بھی نظر آتا ہے، سب دھوکا ہے۔ ہر دھوکا اپنی انتہا کو پہنچ کر منتشر ہو جاتا ہے۔ اس کے یوں ٹوٹ جانے سے ارادے بھی ٹوٹ جاتے ہیں۔ ارادے ٹوٹ جائیں تو پھر سچ کا ایندھن باقی نہیں رہتا۔ حقیقت صرف مسلسل پیہم ہے، دھوکا صرف جبرِ مسلسل ہے؛ دونوں میں مشترک صرف تسلسل ہے۔ علم کے قید خانےکی چاردیواری اور وسیع ہو چکی ہے۔ قید سے نکلنے کی کوئی صورت نہ ہو تو پھر خود سے نکلنا پڑتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہر عظیم چیز کا پرتو اس جیسی کسی مختصر شئے میں بھی موجود ہوتا ہے۔ کچھ عوامل اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ آنکھیں انہیں پڑھ نہیں سکتیں اور کچھ معاملات اتنے باریک کہ آنکھیں انہیں دیکھ نہیں سکتیں۔ کہکشاں میں موجود ستارے سورجوں کے گرد ویسے ہی گھوم رہے ہیں جیسے ایک ایٹم کے گرد نیوٹران؛ انسان نظامِ کائنات کی ان دونوں اشکال کو اپنی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ اس کے ذمہ صرف ستاروں کی پیمائیش نہیں بلکہ انہیں اپنے اختیار میں لینا بھی ہے۔ انسان اس جہان میں خدا کا خلیفہ ہے۔ خدا کی صفات انسان میں بھی نظر آتی ہیں۔ اسے بھی تخلیق کرنا ہے۔ بہت سے ایسے ہیں جو خدا کی طرف سے انسان کو تفویض کیے گۓ ارمغان سے بے خبر ہیں۔ جو انسان کو نہیں سمجھ سکے وہ خدا کو کیا سمجھ سکیں گے؟ روشنی ذرات کو متزلزل کر سکتی ہے۔ کوئی ہے جو پریشان ہونا چاہتا ہے؟

Facebook Comments

مختار پارس
مقرر، محقق اور مصنف، مختار پارس کا تعلق صوفیاء کی سر زمین ملتان سے ھے۔ ایک عرصہ تک انگریزی ادب کے استاد رھے۔ چند سال پاکستان ٹیلی ویژن پر ایک کرنٹ افیئرز کے پروگرام کی میزبانی بھی کی ۔ اردو ادب میں انشائیہ نگار کی حیثیت سے متعارف ھوئے ۔ان کی دو کتابیں 'مختار نامہ' اور 'زمین زاد کی واپسی' شائع ہو چکی ھیں۔ ادب میں ان کو ڈاکٹر وزیر آغا، مختار مسعود اور اشفاق احمد جیسی شخصیات سے سیکھنے کا موقع ملا۔ ٹوئٹر پر ان سے ملاقات MukhtarParas@ پر ھو سکتی ھے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply