• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • جیمز ویب ٹیلی اسکوپ اور کائنات کا آغاز۔۔یاسر پیرزادہ

جیمز ویب ٹیلی اسکوپ اور کائنات کا آغاز۔۔یاسر پیرزادہ

ماضی میں کیسے دیکھا جا سکتا ہے، کیا زمین کے علاوہ بھی کہیں زندگی موجود ہے،بلیک ہول کیا ہے ، ستارے کیسے بنتے ہیں ، اِس کائنات کا رازکیا ہے ، کیا کبھی یہ معلوم ہو سکے گاکہ ہم کہاں سے آئے اور کہاں جا رہے ہیں ؟جیمز ویب ٹیلی اسکوپ شاید مستقبل میں اِن سوالات کا جواب تلاش کرسکے۔حال ہی میں جو تصاویر جیمز ٹیلی اسکوپ نے بھیجی ہیں اُن میں سے ایک تصویر ایسی ہے جو چار کہکشاؤں کے جھرمٹ کی ہے ،جو ہم سے تیس کروڑ نوری سال کے فاصلے پر ہیں۔یہ کہکشاؤں کا واحد گروہ ہے جو اب تک انسان نے دریافت کیا ہے جو یوں آپس میں جڑا ہوا لگتا ہے ،دو کہکشائیں ایک دوسرے میں ضم ہوتی نظر آرہی ہیں جبکہ ’وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ‘یہ چاروں آپس میں ضم ہو جائیں گی۔اگر اِس واحد تصویر کو بڑا کر کے دیکھا جائے تو پس منظر میں ہمیں لاتعداد چھوٹی بڑی ’روشنیاں‘ نظرا ٓئیں گی ، یہ روشنیاں دراصل اُن کہکشاؤں کی ہیں جو اِن چار کہکشاؤں کے علاوہ ہیں اور یوں اِس ایک تصویر میں ہم ہزاروں یا شاید لاکھوں کہکشائیں دیکھ سکتے ہیں ۔یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ ایک کہکشاں میں کروڑوں اربوں ستارے اور سیارے ہوتے ہیں ۔ایک دوسری تصویر میں جیمز ویب ٹیلی اسکوپ نے ایک ایسے ’نقطے ‘(غالباً ستارے)کا بھی مشاہدہ کیاہےجو13.1ارب سال پہلے وجود رکھتا تھا۔جب ہم کہتے ہیں کہ تیرہ ارب سال پہلے وجود رکھتا تھا تو اِس کا مطلب ہے کہ اگر جیمز ویب ٹیلی اسکوپ نے ’ماضی میں جھانک کر دیکھ لیا ‘ تو شاید ہم کبھی جان پائیں کہ 13.7 برس پہلے بگ بینگ کیسے ہوا تھا بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ بگ بینگ ہوابھی تھایا نہیں ؟

اوپر میں نے جتنی بھی باتیں لکھی ہیں ، اُن میں سے زیادہ تر واوین میں ہیں اور اِس کی دو وجوہات ہیں ۔ پہلی، عام آدمی پیچیدہ سائنسی تراکیب کا مطلب نہیں جانتا اور دوسری وجہ یہ ہے کہ خود میں بھی نہیں جانتا۔جب ہم کہتے ہیں کہ جیمز ٹیلی اسکوپ ماضی کی تصاویر بھیج رہی ہے تو مجھے یہی سمجھ آتی ہے کہ ہم کسی شے کواسی صورت میں دیکھ پاتےہیں جب روشنی اُس شے سے منعکس ہوکر ہم تک پہنچتی ہے ۔مثلاً جب ہم خلا میں کوئی عظیم الشان دھماکہ دیکھتے ہیں ، جیسے کہ سپر نووا ، تو وہ دھماکہ اُس لمحے وقوع پذیر نہیں ہورہا ہوتا، وہ اُس سے پہلے ہو چکا ہوتا ہے ، ہم تک جب دھماکے کی روشنی پہنچتی ہے تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ یہ ہو چکا ہے ۔لہٰذا جب ہم کہتے ہیں کہ جیمز ویب ٹیلی اسکوپ ہمیں ماضی کی تصاویردکھا رہی ہے تو یہ اِس وجہ سے ممکن ہے کہ اِس ٹیلی اسکوپ کا پڑاؤ زمین سے دس لاکھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور وہاں سے بھی یہ خلا کی وسعتوں کو چیر کر گہرائی میں دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔اِس ٹیلی اسکوپ نے ابھی صرف چند تصاویر ہی بھیجی ہیں جنہیں دیکھ کر سائنس دان تو کیا عام بندہ بھی حیران ہوگیا ہے، اِن تصاویر نے اُس سوال میں نئی جان ڈال دی ہے کہ کیا واقعی ہم اِس کائنات میں تنہا ہیں یا کہیں کوئی اور بھی مخلوق بستی ہے؟ ریاضی دانوں نے حساب لگا کر ہمیں بتایاہوا ہے کہ ایسی کسی مخلوق کا ہونا ممکن نہیں ، ملاحظہ ہو ’ڈریک مساوات‘ ۔مگر کائنات کی وسعتوں کو دیکھ کر یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ اِن اربوں کھربوں کہکشاؤں میں کہیں زندگی نہیں ہوگی۔

مریخ پر بھیجے جانے والی روبوٹ نما مشین بھی ہمیں روزانہ مریخ کی تصاویر بھیجتی ہے ، اُن کو دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے یہ مریخ نہیں بلکہ بلوچستان کا کوئی دور افتادہ حصّہ ہو ۔ ایسے ارب ہا ارب سیارے اِس کائنات میں موجود ہیں ، کیا پتا کسی روز کہیں سے کوئی ہماری مزاج پُرسی کے لیے آ جائے ! میں کوئی سائنس دان نہیں اور نہ ہی ماہر فلکیات ہوں ، اِس لیے مجھے اِس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ جب ہم کہتے ہیں کہ کائنات پھیل رہی ہے تو یہ ہبل اور اسی نوع کی دور بینوں کے مشاہدے کی بنا پر ہی کہتے ہیں، لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ یہ کائنات پھیل چکی ہو اور اب سکڑ رہی ہو، چونکہ ہم ماضی میں دیکھ رہے ہیں اِس لیے کائنات کے سکڑنے کے عمل کا مشاہدہ ابھی ممکن نہ ہواہو!کوئی ماہر فلکیات اگر میری الجھن رفع کردے تو میں آج رات چین کی نیند سو سکوں گا۔

جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ                   NASA، یورپی خلائی ایجنسی (ESA) اور کینیڈا کی خلائی ایجنسی کے اشتراک سے بنائی گئی ہے ، اِس کے بننے میں دس ارب ڈالر اور تیس برس لگے اور اِس میں 29 امریکی ریاستوں کی تین سو جامعات ، تنظیموں اور کمپنیوں نے حصہ لیا جبکہ امریکہ کے علاوہ 14ممالک بھی اِس منصوبے میں شریک تھے ۔ اِن 14ممالک میں ترکی ، انڈونیشیا، ملائشیا ، قطر ، سعودی عرب، پاکستان اور افغانستان شامل نہیں تھے اور نہ ہی مستقبل میں ہمارا ایسا کوئی ارادہ ہے۔ ہماری جامعات کو اربوں روپے کی سالانہ حکومتی امداد ملتی ہے لیکن عجیب بات ہے کہ کسی ایک یونیورسٹی نے بھی جیمز ویب ٹیلی ا سکوپ کی دریافت پر کوئی علمی یا تحقیقی کام تو درکنار کسی تقریب کا اہتمام بھی نہیں کیا جس میں سمجھایاجائے کہ اِن تصاویر کا کیا مطلب ہے !ویسے یہ بھی شکر ہے کہ اِن جامعات میں سے کسی مرد مجاہد نے یہ اعتراض نہیں کردیا کہ ناسا کی جن خواتین نے جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کی تصاویر نشر کیں اُن کا لباس غیر مناسب تھا اور کسی خاتون کا یوں عریاں بازوؤں والی قمیض پہن کر غیر مردوں کے سامنے آنا شرعاً جائز نہیں!

Advertisements
julia rana solicitors

اصل میں ہمارا اب کام صرف اتنا ہی رہ گیا ہے کہ جب بھی ’کفار ‘کی طرف سے ایسی کوئی ایجادیا دریافت سامنے آئے تو ہم اُس پر مختلف قسم کےاعتراض لگائیں اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر یہ کہہ کر بری الذمہ ہوجائیں کہ یہ باتیں تو پہلے سے قرآن میں موجود تھیں ۔افسوس کہ ہم قرآن کی اُن آیات کوفراموش کر بیٹھے ہیں جن میں خدا نےہمیں فکر و تدبر اور جستجو کی دعوت دی ہے جبکہ غیر مسلموں نے یہ دعوت قبول کرلی ہے، یہی وجہ ہے کہ امریکی صدر ناساکو جیمز ویب ٹیلی ا سکوپ کی ارسال کردہ تصاویر پر مبارکباد پیش کرتا ہے جبکہ مسلم دنیا کا وزیر اعظم قربانی کے بعد سڑکوں سے آلائشیں اٹھانے کی تصاویر پر انتظامیہ کو مبارکباد دیتا ہے (یہ جملہ سوشل میڈیا سے مستعار ہے)۔یہ چند نوری سال کا ہی تو فرق ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply