نواز شریف ،پی ٹی آئی کی خواتین،مبہم سوال

بی بی سی اردو ڈاٹ کام نے 29 اپریل کو وزیر اعظم نواز شریف کی اوکاڑہ کے جلسے میں کی گئی تقریر میں سے اس سوال کو لیڈ نیوز بنایا جس میں نواز شریف نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے جمعہ 28 اپریل اسلام آباد اور اپنے 29 اپریل اوکاڑہ کے جلسوں کا موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں اپنی اِن بہنوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جو کونے میں کھڑی ہیں۔ یہ اُس طرح کا جلسہ نہیں جیسا مخالفین کا جلسہ ہوتا ہے۔ آپ نے کل بھی ٹی وی میں دیکھا ہے، وہاں بہنیں کیا کر رہی تھیں؟‘‘۔
نواز شریف کا یہ مبہم سوال کراچی سے چترال تک اور کشمیر سے کوئٹہ تک ان ہزاروں گھروں میں بھی سنا اور دیکھا گیا ہے جن کے گھر کی خواتین اپنی اپنی پسندیدہ سیاسی جماعتوں کے جلسوں میں شرکت کرتی ہیں۔ پیپلز پارٹی کی خواتین کا اپنی پارٹی کے جلسے جلسوں میں شریک ہونے کا اندازجماعت اسلامی کی خواتین سے بہت مختلف ہے، ایم کیو ایم کی خواتین کا بھی اپنا ہی ایک انداز ہے، مسلم لیگ (ن) کی خواتین کا اندازتو نواز شریف نے بتادیا کہ وہ ایک کونے میں کھڑی رہتی ہیں جبکہ پی ٹی آئی کا انداز ان تمام جماعتوں سے مختلف ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ اس جماعت کی حمایت کرنے والوں کی اکثریت پڑھے لکھے نوجوانوں پر مشتمل ہے ، اس ہی لیےپی ٹی آئی کے جلسوں میں آپ کوزیادہ ہلہ گلہ بھی دکھائی دیگا اور شور شرابا بھی، کچھ بدتمیزی بھی ہوتی ہیں لیکن ہر گز ہرگز نواز شریف کے مبہم سوال جیسی نہیں ہوتی ہے، اس سے پہلے مولانا فضل الرحمان بھی پی ٹی آئی کی خواتین کے بارئے میں مجرئے کا لفظ استعمال کرچکے ہیں، لہذا جب نواز شریف سیاسی مخالفت میں اس قدر نچلے درجے پر چلے گئے تھے تو بہتر تھا کہ وہ اپنے مبہم سوال کا جواب بھی بتا دیتے کہ ’’ بہنیں وہاں کیا کررہی تھیں؟‘‘۔

کراچی سے تعلق رکھنے والی ‎‎آمنہ احسن جو ایک مقبول لکھاری بھی ہیں انکا کہنا ہے کہ پی ایم ایل این کی حمایت میں بولنے اور لکھنے والے کی حیثیت سے میں نواز شریف کے آج کے بیان کی شدید مذمت کرتی ہوں اورسب کو کرنی چاہیے ۔عورت کو عزت دینا آسان کام نہیں اس کے لئے مرد بننا پڑتا ہے ۔ نواز شریف صاحب آج جو آپ نے کہا، اس کے بعد ہر عورت آپ کی پارٹی کو اگلی بار ووٹ دیتے ہوئے ایک لمحے کے لئے سوچے گی ضرور ۔ ملتان کی ڈاکٹررامیش فاطمہ جو خود بھی ایک بہت اچھی لکھاری ہیں کہتی ہیں کہ’’ وزیر اعظم کا بیان انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔ مجھے افسوس ہورہا ہے کہ میرے ملک کا وزیراعظم اتنا تنگ نظر اور دقیانوسی سوچ کا حامل ہے۔ اصل میں نواز شریف اپنی بادشاہت چیلنج ہوتی دیکھ کر بدحواس ہو گئے ہیں۔ کیا وہ اتنا بھی نہیں جانتے کہ خواتین کا سیاسی معاملات میں حصہ لینا جمہوریت کے لیے نیک شگون ہوتا ہے لیکن انہیں تو جمہوریت بھی ایسی چاہیئے جو انکی بادشاہت کے تسلسل کو برقرار رکھے‘‘۔ اب آپ دیکھیں گے کہ لوگ مریم نواز کی کردار کشی کریں گے۔ مریم نواز کو چاہیے کہ اپنے والد کو گفتگو کا سلیقہ سکھائیں، اور پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے حامیوں سے گذارش ہے کہ عورتوں کو یونہی بےعزت کرنا چھوڑ دیں۔اگر کسی کو ننگ پنا پسند ہے تو اپنے کپڑے اتاریں اور سڑکوں پر پھریں۔ اس سے آپ کی نشاندہی آسانی سے ہو گی اور آپ کو پاگل خانے میں جمع کرایا جاسکےگا تاکہ آپ کا نفسیاتی علاج ہو سکے۔

پاکستان میں نواز شریف وہ پہلے شخص نہیں ہیں جنہوں نے خواتین کے بارئے میں اس طرح کی بات کی ہو، مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو بھارت کا ایجنٹ کہا گیا جبکہ محترمہ بیگم رانا لیاقت علی خان کو اسمبلی میں جماعت اسلامی کے ایک رکن نے ہندنی کا خطاب دیا تھا۔ نواز شریف کےآج کے بدترین مخالف اور عمران خان کے سیاسی ساتھی شیخ رشید بھی اپنی عورت دشمنی میں کم نہیں تھے، بینظیر کے دوسرئے دور میں کوئٹہ کے ایک جلسے میں موصوف نے بینظیر بھٹو کے بارئے میں وہ بہودہ باتیں کیں جو ناقابل تحریر ہیں ۔ خواجہ آصف نے کچھ عرصے پہلے پی ٹی آئی کی رہنما شیریں مزاری کو اپنی تقریر میں رکاوٹ ڈالنے کی وجہ سے ’’ ٹریکٹر ٹرالی ‘‘ کا خطاب دیا تھا جبکہ ان کے ساتھی عابد شیر علی شیریں مزاری کو ’’آنٹی ،آنٹی ‘‘ کہہ کر چڑاتے رہے ۔ تھوڑئے عرصے پہلے سندھ اسمبلی میں صوبائی وزیر امداد پتافی نے خاتون رکن اسمبلی نصرت سحر عباسی کو کہا کہ ’’ میرئے چیمبر میں آئیں‘‘ وزیر کے تخاطب پر خاتون رکن ناراض ہوگیں ، معافی تلافی سے یہ معاملہ ختم ہوگیا لیکن اس میں ایک اور خاص بات یہ تھی کہ جس وقت صوبائی وزیر خاتون رکن اسمبلی کو بہودہ طریقے سے اپنے چیمبر میں بلارہا تھا سندھ کے وزیر اعلیٰ اپنی کرسی پر بیٹھے ہوئے مسکرارہے تھے۔

نوئے کی دہائی میں نواز شریف بینظیر بھٹو کو برئے برئے القابات سے نوازتے رہے ہیں لیکن سابق وزیراعظم بینظیر بھٹونے نواز شریف کی بہودہ باتوں کا کبھی بھی جواب نہیں دیا۔ عمران خان کے بارئے میں ہر شخص کہتا ہے کہ وہ ایک بدتمیز سیاستدان ہیں لیکن انہوں نے جب بھی مریم نواز کا ذکر کیا تو سیاسی مخالفت پر تو بات کی لیکن مریم نواز کے ایک عورت ہونے کا فائدہ نہیں اٹھایا۔ اب بھی عمران نے اوکاڑہ کے جلسے میں نواز شریف کے پی ٹی آئی کے اسلام آباد کے جلسے میں موجود خواتین کے بارئے میں مبہم سوال کا جواب بہت ہی سخت انداز میں دیا ہے لیکن بیگم کلثوم نواز کا ذکر بہت احترام سے کیا ہے، عمران خان کہتے ہیں کہ ’’نوازشریف کے چہرے سے نقاب اتر گیا ہے اور ان کے اندر کا فاشسٹ سامنے آگیا ہے۔ خواتین سے متعلق ان کے الفاظ انتہائی قابل مذمت ہیں۔عمران خان نے اگلی ٹویٹ میں کہا کہ نوازشریف کتنی جلدی بھول گئے کہ یہ ان کی اہلیہ کلثوم نواز ہی تھیں جنہوں نے ان کی گرفتاری اور جلاوطنی کیخلاف مظاہروں کی قیادت کی جب نواز شریف کے تمام مرد حمایتی غائب ہوگئے تھے‘‘۔اس وقت نواز شریف کی سیاسی صورتحال یہ ہے کہ 20 اپریل کو سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں ان کو تقریباً مجرم قرار دے دیا ہے، جبکہ عمران خان کسی طور پر ان کے قابو نہیں آرہے ہیں، عمران خان نےانکے جلسے سے پہلے اسلام آباد میں ایک کامیاب جلسہ کیا اور ساتھ ہی اپنے دس ارب روپے کے الزام کو دہراتے ہوئے نواز شریف کو چیلنج بھی کیا کہ میرئے خلاف عدالت میں جاو، یہ سب پریشانیاں تو تھیں ہی کہ ڈان لیکس کے نوٹیفیکشن کے جواب میں آئی ایس پی آر کے سربراہ نے سرےعام اس کو مسترد کردیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

نواز شریف جب اوکاڑہ کےجلسہ گاہ میں پہنچے تو ان کے پاس اپنی کارکردگی بیان کرنے کےلیے کچھ نہ تھا، بجلی کی لوڈ شیڈنگ بڑھ رہی ہے اس کا بھی ذکر کرنا ایک مشکل کام تھا۔لہذا انہوں نے بہت نیچے کے پیمانے پر جاکر پی ٹی آئی کے اسلام آباد کے جلسے میں موجود خواتین کے بارئے میں بہت ہی چھوٹے پن کا ایک بیان دئے ڈالا، جو اب ان کے گلے میں ہڈی کی طرح پھنس گیا ہے۔ بہتر ہوگا نواز شریف پی ٹی آئی کی ایک خاتون رہنما کے کہے ہوئے پر عمل کریں، جواپنے ٹویٹ میں کہتی ہیں کہ ’’ نواز شریف اپنے سیاسی مستقبل کےلیے عورتوں کو نشانہ نہ بنایں، ان کو چاہیے کہ ایک پریس کانفرنس بلایں جس میں مریم نواز اور بیگم کلثوم نواز بھی موجود ہوں، پھر وہ اوکاڑہ میں خواتین کے بارئے کہے ہوئے اپنے بیان پر پی ٹی آئی کی خواتین سے معافی مانگیں‘‘۔ نواز شریف صاحب اگرآپ وزیر اعظم ہوتے ہوئے خواتین کی عزت نہیں کرینگے تو کون کرئے گا، ایک اچھے انسان ہونے کا ثبوت دیں ، اور پی ٹی آئی کی خواتین سے معافی مانگ لیں۔

Facebook Comments

سید انورمحمود
سچ کڑوا ہوتا ہے۔ میں تاریخ کو سامنےرکھ کرلکھتا ہوں اور تاریخ میں لکھی سچائی کبھی کبھی کڑوی بھی ہوتی ہے۔​ سید انور محمود​

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply