اڈیالہ جیل میں قائم عدالت کے سینیئر سِول جج قدرت اللہ کی جانب سے دیے گئے مبینہ ’عدت میں نکاح کے فیصلے سے متعلق بی بی سی کی قانونی ماہرین سے رابطے کے بعد رپورٹ کے مطابق سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف مبینہ ’عدت میں نکاح‘ کے مقدمے کے فیصلے کے بعد سے جہاں عمران خان کے خلاف ایک ہفتے میں تیسرا فیصلہ آنا مضحکہ خیز قرار دیا جا رہا ہے وہیں قانونی ماہرین اس فیصلے کو ایک ’خطرناک نظیر‘ کے طور پر بھی دیکھ رہے ہیں تحریری فیصلہ منظر عام پر آنے کے بعد بشریٰ بی بی کے حوالے سے درج نجی نوعیت کی تفصیلات اور جج کی جانب سے قانون کی تشریح کوسوشل میڈیا پر انسانی حقوق کی تنظیموں، سماجی کارکنوں اور وکلا کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
قانون دانوں کا کہنا ہے کہ اڈیالہ جیل میں قائم عدالت کے فیصلے نے ہماری عدلیہ کی ساکھ کو ختم کر کے رکھ دیا ہے۔ یہ ایک المیہ ہے کہ جہاں عدالتوں کو قانون ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے روایت کو ختم کرنا چاہیے وہ اس کا حصہ بن چکی ہیں۔ اس سے یہ پیغام جاتا ہے کہ کچھ بھی مقدس نہیں رہا۔‘ نقائص سے بھرے ہوئے فیصلے نے ایک مثال قائم کی ہے جس کے باعث پاکستان بھر میں خواتین کو ان کے سابقہ شوہروں سے اسی قسم کے مقدمات اور الزامات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ‘ اہم بات یہ ہے کہ شوہر کی جانب سے اس کیس میں درخو است تقریباً چھ برس بعد دی گئی ہے۔ اگر ان کے لیے یہ معاملہ اتنا اہم تھا تو یہ تاخیر کیوں کی گئی۔‘
’ٹرائل کورٹ کے اپنے فیصلے بائنڈنگ نہیں ہوتے یعنی یہ کوئی نظیر نہیں ہوتی جس کی ماتحت عدالتیں پابند ہوں لیکن یہ ایک مشہور مقدمہ ہے جو ایک سابق وزیرِ اعظم اور سابق خاتونِ اول کے بارے میں ہے اور اس مثال کو استعمال کرتے ہوئے اور لوگ بھی عدالت میں آنے کی کوشش کریں گے اور ہر انسان خاص طور پر خواتین کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ وہ وکیل کی فیس بھر سکیں۔‘ اگر ایک سابقہ خاتونِ اول اچھے وکلا کی موجودگی میں بھی اپنا دفاع نہیں کر سکی ان کی جانب سے اب معاملہ اپیل میں جائے گا لیکن ہر خاتون یہ نہیں کر سکتی۔ اس فیصلے سے’ریاست نے خواتین کی پرائیویسی کے پرخچے اڑا دیے ہیں‘’کس قدر غیر منصفانہ بات ہے کہ ایک عورت کی زندگی اور اس کے ماہواری کے سائیکلز پر عدالت میں بحث ہو رہی ہے۔
کیا عورت کے کوئی حقوق نہیں ہیں اگر وہ دوبارہ شادی کر لے تو اسے کرپٹ قرار دے دیا جاتا ہے۔‘ آئین کا آرٹیکل 14 کسی بھی عام شہری کو اپنا وقار برقرار رکھنے کا حق دیتا ہے، آرٹیکل 9 جینے کا حق اور پرائیویسی (رازداری) کا حق دیتا ہے اور آئین کا آرٹیکل 25 برابری کا حق دیتا ہے، سپریم کورٹ میں بھی عاطف ظریف کیس میں اس بات کو برقرار رکھا گیا تھا کہ کسی کا اپنا وقار برقرار رکھنے کا حق سب سے اہم حقوق میں سے ہے۔ یہ ایک شرمناک فیصلہ ہے اور انصاف اور انسانی حقوق کو پامال کرنے کے مترادف ہے ۔‘ یہ صرف ایک خاتون کی بات نہیں بلکہ ایسی ہزاروں خواتین کے مستقبل کی ایک جھلک ہے جو اس فیصلے کے باعث انھیں دیکھنا پڑ سکتا ہے۔‘
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں