• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • خامہ بگوش سے وابستہ چند یادیں(دوسرا،آخری حصّہ)۔۔حافظ صفوان محمد

خامہ بگوش سے وابستہ چند یادیں(دوسرا،آخری حصّہ)۔۔حافظ صفوان محمد

میرے ابوجان نے 1962ء میں پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج لاہور سے ایم اے اردو کیا تھا۔ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا صاحب اور ڈاکٹر اسلم انصاری صاحب تو اُن کے ہم جماعت تھے جب کہ ہاسٹل کے دوستوں میں فارسی کے ڈاکٹر آفتاب اصغر صاحب اور انور مسعود صاحب کے علاوہ عربی کے ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب بھی تھے۔ مشفق خواجہ صاحب نے کئی بار فرمایا تھا کہ میں ابوجان کے اِن احباب سے مضامین لکھواؤں۔
میرے بہت ہی محترم انکل ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا صاحب نے ابو جان کی زندگی ہی میں اُن کے دیوان کا دیباچہ لکھا۔ ابو جان کی وفات کے بعد میں نے دیوان کو کلیات کی شکل دی اور اُن کے نظری کلام کو بھی شاملِ دیوان کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو اُنھوں نے اِس کی تصویب فرمائی اور اِس کے لیے بھی تعارفی کلمات تحریر فرما دیے۔ ابو جان کی کتاب مغرب میں آزاد نظم اور اس کے مباحث کا تعارف و تبصرہ بھی اُنھوں نے لکھا۔ مشفق خواجہ صاحب نے ٹیلی فون پر اِن تحریروں کا ذکر کئی بار کیا۔
ٹیلی فون پر ڈاکٹر اسلم انصاری صاحب کا ذکر بھی کئی بار ہوا۔ اُن کی ایک زیرِ ترتیب کتاب مرزا غالبؔ کے بارے میں تھی جس کا مجھے علم تھا۔ کسی وقت میں مشفق خواجہ صاحب نے مجھے فرمایا تھا کہ اگر میرے علم میں مرزا غالبؔ پر کیا ہوا کوئی غیر مطبوعہ کام آئے تو اُنھیں مطلع کروں کیونکہ وہ غالب لائبریری (ناظم آباد، کراچی) سے ایسے کام کو شائع کرا سکتے ہیں۔ میں نے اسلم انصاری صاحب کی کتاب کا ذکر کیا۔ پھر میرے یہ دونوں بزرگ اِس کتاب کی اشاعت کے سلسلے میں فون پر اور شاید خطوط کے ذریعے بھی رابطے میں رہے۔
ڈاکٹر آفتاب اصغر صاحب پچھلی ہزاری کے بالکل آخری سالوں میں تبریز (ایران) میں ہونے والی نظامی گنجوی کانفرنس سے واپس ہوئے تو کراچی میں مرحوم شیخ نوازش علی اور ڈاکٹر تحسین فراقی صاحب کے ساتھ اُن کو بھی مشفق خواجہ صاحب نے عشائیے پر مدعو کیا۔ اُنھوں نے کئی گھنٹے خود کار چلاتے ہوئے اِن سب لوگوں کو کراچی شہر کی سیر کرائی۔ خالقدینا ہال لے کر گئے۔ اُنھوں نے ساحلِ سمندر پر واقع ایک ہوٹل میں عشائیہ دیا اور اِن سب لوگوں کی تصویریں اتاریں۔ اُن سے اِس واقعہ کا ذکر بھی دو تین بار ہوا۔
مجھے اسلام آباد میں کئی بار انور مسعود صاحب کی خدمت میں حاضر ہونے کا شرف حاصل ہوا ہے۔ 10 مارچ 2006ء کو میں اپنے دوستوں چودھری شبیر احمد صاحب اور سلمان سعد صاحب کے ساتھ اُن کے ہاں حاضر ہوا تو اُنھوں نے میرے آٹو گراف البم میں اپنی وہ نظم لکھ کر دی جس کا پہلا شعر ہے: ؎
میرے پانی میں ملا اور ذرا سا پانی
میری عادت ہے کہ پیتا ہوں میں پتلا پانی
مشفق خواجہ صاحب سے ایک بار آٹو گراف اور اِس نظم کا ذکر ہوا تو اُنھوں نے فوراً انور مسعود صاحب کا وہ قطعہ کسی قدر کمی بیشی کے ساتھ سنایا جس کا آخری مصرع ہے: ع اِک لونگ گواچا ہے تو کیا شور مچا ہے۔ پھر انور مسعود صاحب کی کتاب فارسی ادب کے چند گوشے کے بارے میں باتیں کرتے رہے۔ سبْکِ ہندی کی اصطلاح میں نے اُنھیں سے سنی۔ بعد میں ایک بار انور مسعود صاحب کے ہاں جانا ہوا تو اُنھوں نے اپنی یہ کتاب عطا فرمائی، اور کچھ اور کتب بھی۔
ٹیلی فون پر مشفق خواجہ صاحب سے گفتگو میں ابو جان کے پنجاب یونیورسٹی کے زمانے کے احباب کا ذکر، ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا۔ اُن کا ذکر آنے پر وہ اُن کے مختلف علوم و فنون کے وسیع مطالعے، علم وفضل اور اُن کی عربی، فارسی اور اردو کے علاوہ انگریزی پر مہارت کا بتایا کرتے تھے۔ مجھے فرمایا تھا کہ میں اُنھیں اپنی کتاب Words & Reflections of Molana Ilyas پیش کروں۔ خورشید رضوی صاحب نے اپنے مجموعۂ کلام امکان کا انتساب میرے ابو جان کے نام کیا ہے۔ اللہ کا کرنا، جس شام اِس مجموعے کی تقریبِ رونمائی تھی اُس روز میں کسی سرکاری کام سے لاہور میں تھا۔ میں نے اپنے بہت عزیز دوست جناب عمران مجید صاحب کے ہمراہ اِس تقریب میں شرکت کی۔ اور بہت سے لوگوں کے علاوہ خواجہ محمد زکریا صاحب، شہزاد احمد صاحب اور امجد اسلام امجد صاحب نے بھی تقریریں کیں اور مقالے پڑھے۔ خورشید رضوی صاحب نے اپنی تقریر میں میرا ذکر بھی کیا، اور ابو جان کے تذکرے سے مجھے رلا دیا۔ مشفق خواجہ صاحب نے اگلی رات کو فون پر مجھ سے اِس تقریب کی رپورٹ لی تھی۔ میں نے جو کچھ دیکھا تھا، اپنی سمجھ کے مطابق بتا دیا۔ جناب عمران مجید بعد میں بہت عرصے تک اِس تقریب کا ذکر کرتے رہے۔ اُنھیں خورشید رضوی صاحب کی اِس موقع پر پڑھی ہوئی ایک غزل بہت ہی پسند آئی تھی۔
٭
ٹیلی فون پر گفتگو میں زیرِ تذکرہ آنے والی بہاول پور کی ادبی شخصیات میں ڈاکٹر سید شاہد حسن رضوی صاحب کا ایک خاص مقام رہا ہے۔ اُن کے والد مرحوم سید شِہاب دہلوی صاحب کا ذکر بھی کئی بار ہوا۔ انکل نے شاہد صاحب سے کچھ رسالے میرے توسط سے منگوائے۔ اردو اکادمی بہاول پور سے شائع کردہ ابو جان کی کتاب مغرب میں آزاد نظم اور اس کے مباحث بھی شاہد صاحب نے اُنھیں اِرسال کی۔ میں نے فرانس سے الزبیر کے لیے عالمی معیاری جریدہ نمبر (ISSN) لیا تو انکل نے بہت خوشی کا اظہار کیا اور فرمایا کہ آپ بہاول پور سے اتنی دور بیٹھ کر بھی بہاول پور والوں کے لیے کام کرتے ہیں۔ شاہد صاحب کے بارے میں انکل فرماتے تھے کہ وہ محنتی اور بہت سعادت مند آدمی ہیں۔
٭
ٹیلی فون پر جن لوگوں کے بارے میں اکثر بات ہوتی تھی اُن میں سے ایک صاحب کا ذکر واجب بھی ہے اور فرض بھی۔ جب میں پہلی بار انکل کی خدمت میں حاضر ہوا تھا تو بیس بائیس سال عمر کے ایک صاحب اُن کے ہمراہ تھے۔ یہ ناصر جاوید صاحب تھے۔ اُنھوں نے ہی ابو جان کی تصاویر اور پھر انکل کی کتاب خامہ بگوش کے قلم سے لاکر دی تھی۔ اِسی موقع پر کسی خاص لغت میں سے کوئی لفظ دیکھنے کی ضرورت پیش آگئی۔ میرا اندازہ تھا کہ کتابوں کے اِس بے کراں سمندر سے گوہرِ مقصود کو حاصل کرنے میں کم ازکم آدھ پون گھنٹہ تو ضرور ہی لگے گا۔ لیکن اِسے کیا کہیے کہ محترم بھائی ناصر صاحب ایک منٹ کے اندر اندر مطلوبہ لغت سمیت آموجود ہوئے۔
یہ اُن کا پہلا تعارف تھا جو انکل کی موجودگی میں ہوا۔ اِس کے بعد تو اُن سے رابطے کی ایسی عادت ہوئی کہ سب حجاباتِ من و تو اٹھ گئے۔ انکل سے ٹیلی فون پر میری بات زیادہ تر بھائی ناصر صاحب ہی کے توسط سے ہوتی تھی کیونکہ ٹیلی فون عمومًا وہی سنتے تھے۔ دربان کے قدم لینا تو ویسے بھی ایک روایت ہے، گو شاعری کی لپیٹ میں آکر اِس روایت سے اخلاص یوں نکل گیا ہے جیسے تھنوں سے دودھ نکلتا ہے… یعنی کبھی واپس نہ آنے کے لیے۔ اور یوں یار لوگوں کے ہاتھوں میں اب صرف تھن ہی باقی رہ گئے ہیں! اُن کے بارے میں مرحوم انکل اکثر فرمایا کرتے تھے کہ “بھئی حافظ صاحب! یہ ناصر تو آپ کا مرید ہوگیا ہے۔” میں یہ جملہ کبھی نہیں بھولوں گا۔ انکل کی صحت کا حال اور ادبی موسم کا حال یعنی اُن سے ملنے کے لیے آنے والوں کا حال، ناصر صاحب کی زبانی معلوم ہوتا رہتا تھا۔ ناصر صاحب نے یہ بھی بتایا کہ ایک بار انکل نے اُن سے دریافت کیا تھا کہ حافظ صاحب اور آپ ٹیلی فون پر اتنی لمبی لمبی کیا باتیں کرتے ہیں، تو اُنھوں نے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ “ادبی گفتگو ہوتی ہے۔” انکل بہت ہی محظوظ ہوئے۔
٭
اکادمی ادبیات اسلام آباد کے مہمان خانے میں میں مشفق خواجہ صاحب کی خدمت میں اپنے بہت ہی باذوق اور دین دار دوست جناب ضیاء الرحمٰن صاحب کے ساتھ حاضر ہوا۔ یہ اگست 2006ء کی بات ہے۔ یہ ملاقات بڑی یادگار تھی، اِس لحاظ سے بھی کہ یہ میری اُن سے آخری رو در رو ملاقات تھی۔ اِس موقع کی کچھ باتیں مجھے یاد ہیں۔ کمرے میں کچھ اہلِ قلم موجود تھے جن سے اُنھوں نے میرا تعارف کرایا کہ یہ مرحوم عابد صدیق صاحب کے بیٹے ہیں۔ اِس کے بعد وہ ابو جان کے بارے میں گویا ہوئے کہ “عابد صدیق صاحب کی شخصیت میں میں نے عجیب بات دیکھی۔ اُن کی وفات کے بعد جس نے بھی اُن کا تذکرہ کیا، انتہائی محبت کے ساتھ کیا اور بہت ہی محبت کے ساتھ اُن کو یاد کیا۔ اکثر اہلِ قلم تو کسی کا ذکر زندگی میں بھی اچھے الفاظ میں نہیں کرتے۔ میں نے یہ محبت صرف عابد صاحب کے لیے دیکھی کہ ہر شخص اُن سے محبت کرتا ہے، جو دھڑے بندیوں کے اِس دور میں بڑی ہی عجیب بات ہے۔”
کمرے میں موجود اہلِ علم میں سے کسی نے میری ادبی مصروفیات کے بارے میں دریافت کیا تو میں نے معذرت خواہانہ انداز میں عرض کیا کہ میں ہری پور جیسی بالکل دور افتادہ سی جگہ پر رہتا ہوں اِس لیے مجھے کسی بھی قسم کی ادبی سرگرمیوں کے بارے میں علم نہیں ہوتا، اور میں اِس لیے کوئی علمی و ادبی کام نہیں کرپاتا کہ میں کسی بڑے شہر میں نہیں رہتا۔ میری بات سن کر انکل نے فرمایا کہ “بڑے کام کرنے کے لیے الگ تھلگ رہنا ضروری ہے۔ میں خود کسی ادبی مجلس میں نہیں جاتا۔ بہت کم گھر سے نکلنا ہوتا ہے۔ صرف اتوار کو لوگوں سے ملتا ہوں۔ اِس کے علاوہ بس یوں سمجھیے کہ میں گھر میں معتکف ہوتا ہوں۔ بھئی حافظ صاحب! دوردراز اور الگ تھلگ جگہ پر رہنے کو غنیمت جانیے۔” اِس کے بعد وہ اپنے خاندان کے بارے میں بتاتے رہے، کہ اُن کے عزیزوں میں کیسے مختلف النوع مشاغل والے لوگ ہیں۔
اِس ملاقات کے دوران میں میں نے اُن سے اُن کے تازہ شائع ہونے والے کالموں کے دونوں مجموعوں سخن در سخن اور سخن ہائے ناگفتنی پر آٹوگراف لیے۔ اُنھوں نے دونوں مجموعوں پر لکھا کہ “یہ تو مظفر علی سید مرحوم کی کتاب ہے۔” اور پھر خامہ بگوش لکھ کر 7/8/06 تاریخ ڈال دی۔ کلیاتِ یگانہ پر بھی آٹوگراف لیا۔ پھر اُنھوں نے کمرے میں موجود لوگوں سے ہنستے ہوئے کہا کہ “دیکھیے بھئی! حافظ صاحب کیسے عجیب آدمی ہیں: میری کتابیں خرید کر پڑھتے ہیں اور مجھی سے اِن پر آٹوگراف بھی لیتے ہیں، جیسے میں نے یہ کتابیں اِن کو خود سے دی ہوں۔” میں نے یہ کتابیں اُن کے اسلام آباد آنے سے قبل بطورِ خاص منگوائی تھیں۔ اُن کے کہنے پر میں نے کراچی میں جناب مبین مرزا صاحب سے اِن کتابوں کی خریداری کے لیے رابطہ کیا تھا اور جناب وسیم خواجہ یہ کتابیں اُن سے لے کر آئے تھے۔
نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز اسلام آباد کے ڈاکٹر گوہر نوشاہی صاحب بھی اکادمی ادبیات کے مہمان خانے میں مشفق خواجہ صاحب سے ملاقات کے اِس موقع پر موجود تھے۔ اُن کی ابوجان سے ملاقات اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور میں ابو جان کے ساتھ منائی گئی ایک شام (اواخر نومبر 2000ء) میں ہوئی تھی۔ یہ آخری فنکشن تھا جس میں ابو جان نے شرکت کی، کیونکہ اِس سے اگلے ہفتے میں اُن کا انتقال ہوگیا تھا۔ ڈاکٹر گوہر نوشاہی صاحب نے بہت محبت سے ابو جان کا ذکر کیا اور اُن سے اپنے پرانے تعلق اور فنکشن کی باتیں بتاتے رہے۔
واپسی پر جناب ضیاء الرحمٰن اُن باتوں کا مذاکرہ کرتے رہے جو یہاں ہم نے سنی تھیں۔ اور وہ لمحات جو ہم نے یہاں گزارے تھے، کے قیمتی ہونے اور بالخصوص دور دراز جگہوں پر رہنے میں کی عافیتوں کا تذکرہ ہوتا رہا۔
٭
میرے ابو جان شاعری اور تنقید کے میدان میں ایک خاص مقام کے حامل تھے، گو مشہور نہ ہوسکے کیونکہ بہاول پور جیسے دور دراز مقام پر رہنے کے علاوہ اُنھوں نے زندگی کا بڑا حصہ معاشی تنگی میں گزارا، اور شہرت سے اُن کی طبیعت نفور تھی۔ مشفق خواجہ صاحب کے ایما پر میں نے ابو جان کی وفات کے بعد اُن کے کلام اور ادبی مضامین کو اکٹھا کرنا شروع کیا، اور الحمدللہ اب یہ کام تقریبًا مکمل ہوگیا ہے۔ ابو جان کی ایک کتاب مغرب میں آزاد نظم اور اس کے مباحث دسمبر 2006ء میں اردو اکادمی بہاول پور سے چھپی ہے۔ شعری مجموعہ پانی میں ماہتاب کا دوسرا ایڈیشن جس میں وفات تک کا کلام شامل ہے، اِن شاء اللہ عن قریب لاہور سے شائع ہوگا۔ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا صاحب اِسے شائع کرا رہے ہیں۔ اِس کا پہلا ایڈیشن 1986ء میں منظرِ عام پر آیا تھا۔ مضامین کا ایک مجموعہ تحسینیات کے نام سے ہے، جسے لاہور سے ڈاکٹر وحید قریشی صاحب شائع کر رہے ہیں۔ اِن سب مسودوں کی دیکھ ریکھ اور چھان پھٹک مشفق خواجہ صاحب اور خواجہ محمد زکریا صاحب نے کی ہے۔ معاصر تنقید پر ابو جان کی ایک کتاب مغربی تنقید کا مطالعہ- افلاطون سے ایلیٹ تک پہلی بار 1982ء میں شائع ہوئی تھی؛ یہ کتاب اب تک دوبار چھپ چکی ہے۔ مضامین کا ایک اور مجموعہ اور کچھ چیزیں ابھی زیرِ ترتیب ہیں۔
دریائے سندھ- ایک تاریخی اور جغرافیائی مطالعہ کے عنوان سے ابوجان نے ایک تحقیقی مضمون فروری 1982ء میں جناب کریم بخش خالد، سیکریٹری اطلاعات حکومتِ سندھ کی درخواست پر سکھر بیراج کے جشنِ سیمیں کے موقع پر لکھا، اور یہ سب سے پہلے ماہنامہ اظہار کراچی کے شمارہ مارچ 1982ء میں شائع ہوا۔ کریم بخش خالد صاحب کو یہ مضمون لکھوانے کے لیے ابو جان کا نام مشفق خواجہ صاحب نے تجویز کیا تھا۔
محبِ ہند پریس دہلی سے 1886ء میں شائع ہونے والی منشی چرنجی لال دہلوی کی مرتَّب کردہ ہندوستانی مخزن المحاورات کے پہلے ایڈیشن کا ایک نسخہ ہمارے گھر میں موجود ہے۔ اِس کے ابتدائی تین چار صفحات ضائع ہوگئے تھے۔ انکل نے یہ صفحات فوٹو کاپی کرا کر مجھے اِرسال کیے تھے۔
ابو جان کا دیوان پانی میں ماہتاب اُن کے پاس پہلے سے موجود تھا۔ عرصہ ہوا مغربی تنقید کا مطالعہ- افلاطون سے ایلیٹ تک اُنھوں نے مجھ سے منگوائی۔ اِس کے بعد اب تک دریافت ہونے والے سارے مضامین اور شاعری بھی طلب فرمائی۔ ابو جان پر کچھ لکھنے کا پروگرام تھا یا کسی حوالے کے لیے یہ چیزیں منگوائی تھیں، واللہ اعلم۔
٭
مشفق خواجہ صاحب کی وفات کی خبر میرے لیے نہایت ہی غیر متوقع تھی۔ میں نے 19 فروری کو اُن سے صبح 11 بجے کے قریب فون پر بات کی تھی۔ وہ بالکل ٹھیک ٹھاک تھے۔ تقریبًا بیس منٹ تک باتیں کرتے رہے۔ مجھے حسبِ معمول کئی نصیحتیں فرمائیں۔ بہاول پور میں 8-9 فروری کو ایک عالمی اردو کانفرنس ہوئی تھی۔ اِس کے بارے میں مجھ سے پوچھا۔ ہری پور میں ایک صاحب نے ایک لائبریری بنانے کا ڈول ڈالا ہے۔ اِس سے متعلق بات فرماتے رہے۔ محترمہ فاطمہ ثریا بجیّا کو غالب لائبریری کی ذمہ داری تفویض کِیے جانے کے بارے میں بتایا۔ اور بھی کچھ باتیں کیں۔ میں نے کسی سلسلے میں ایک صاحب کا پتہ دریافت کیا تو مجھے فرمایا کہ “بھئی حافظ صاحب! جو بھی کام کریں، اُس میں پہلے یہ دیکھ لیا کریں کہ اِس کام کے کرنے میں آخرت کا کیا فائدہ ہے۔ اُس کے بعد یہ دیکھا کریں کہ اِس کام کے کرنے سے دنیا میں کیا فائدہ ہوگا۔” مجھے فوراً یاد آیا کہ بالکل اِسی سے ملتا جلتا جملہ ملّا واحدی نے جنابِ مختار مسعود کو آٹو گراف میں لکھ کر دیا تھا۔ اِس موقع پر اُن کی بشاشت اور تفصیلی گفتگو کے بعد میں تو یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ فون پر یہ میری اُن سے آخری ملاقات ہو رہی ہے، اور آج ہی رات وہ سفرِ آخرت پر روانہ ہونے کے لیے تیار ہو رہے ہوں گے۔ بقولِ یگانہؔ ؎
اٹھنے ہی کو ہے بیچ سے پردہ مجاز کا
قصہ بس اب تمام ہے عمرِ دراز کا
سوچتا ہوں کہ پدرانہ شفقت اور محبت کے ساتھ ایسی باتیں کرنے والا اب اور کون ہوگا جس کی نصیحتوں کی بنیاد نرے خلوص پر ہوتی تھی اور مجھ نالائق کے مرحوم پروفیسر عابد صدیق صاحب کا بیٹا ہونے کی وجہ سے میری تربیت ، اور بس۔
میں اُن سے فون پر ہر وقت رابطے میں رہتا تھا۔ لیکن میرے فون کرنے کی وجہ کیا ہوسکتی تھی: میں نہ ادیب ہوں نہ شاعر، بلکہ قلم کے استعمال ہی سے بالکل تہی ہوں۔ میں تو کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کا آدمی ہوں۔ میں اپنے جذبات کو الفاظ کا جامہ کس طرح پہناؤں۔ میں اُن کو صرف اِس لیے فون کرتا تھا کہ اُن کو میرے مرحوم ابو جان سے بہت ہی زیادہ محبت تھی، اور اُن کی آواز سن کر میں اپنے ابو جان کی یاد کو تازہ کیا کرتا تھا۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ مجھے جب میرے ابو یاد آتے تھے، میں اُنھیں کو فون کرلیتا تھا یا ابو جان کے چند احباب میں سے کسی کو۔ میں جب بھی فون کرتا، وہ میری آواز سنتے ہی بہت خوشی کے ساتھ فرماتے تھے: “کیا کہنے، کیا کہنے۔” اور اِس کے بعد سلام کا جواب دیتے۔ محبت اور عنایت کی شیرینی میں ڈوبی یہ آواز جو مجھے میرے مرحوم ابو جان کی یاد دلایا کرتی تھی، اب میں یہ آواز کبھی نہ سن پاؤں گا۔ سوچتا ہوں کہ میں اپنا یہ دکھ، بلکہ دکھ در دکھ، بانٹنے کس کے پاس جاؤں۔ میرا تو یادوں، عنایتوں، شفقتوں اور تربیت کا ایک درخشاں باب ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔ واحسرتا! ایک ایسا آدمی جس سے کبھی کسی کو ضرر نہ ہوا تھا اور جس سے زبان و ادب کے علم کی ہر شاخ کے پھول کا عطر مل جایا کرتا تھا، خود خوشبو بن کر راہیِ ملکِ بقا ہوگیا۔
22 فروری کی شام کو مرحوم مشفق خواجہ صاحب کو سیکڑوں سوگواروں نے سپردِ خاک کیا اور یوں زمین کی امانت زمین کو پہنچ گئی۔ میں رات کو سونے کے لیے لیٹا اور دائیں طرف کروٹ لی تو ایک دم خیال آیا کہ آج اُن کی قبر میں پہلی رات ہے، اور وہ بھی اِسی طرح دائیں کروٹ پر قبلہ رو لیٹے ہوئے ہوں گے۔ یہ خیال دل و دماغ میں کچھ ایسے پیوست ہوا کہ میں تقریبًا ساری رات ہی جاگتا رہا۔ قبر کی زندگی اور منازلِ آخرت سے متعلق نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث یاد آتی رہیں۔ کیسے اللہ کے تعلق والے آدمی تھے وہ کہ اُن کی وجہ سے یادِ قبر نصیب ہوئی۔ اللہ پاک اُن کی قبر کو نور سے بھر دے اور اُس میں جنت کی کھڑکیاں کھول دے اور جنت کی ہوائیں اُن کو پہنچائے، آخرت کی سب گھاٹیوں کو سرعت کے ساتھ عبور کرنا اُن کے لیے آسان کر دے، اور روزِمحشر میں اپنے سامنے اِس حال میں کھڑا فرمائے کہ وہ اُن سے راضی ہو۔ آمین۔ میں اُن کے انتقال کے وقت اسلام آباد میں تھا۔ نمازِ جنازہ میں شرکت کے لیے جانے کا سوچتا رہا۔ جہاز میں نشست بھی محفوظ کرالی۔ لیکن مجھے حوصلہ نہیں پڑا۔ میں موت سے نہیں ڈرتا لیکن میں انکل کو دیکھ نہیں سکتا تھا۔
انکل کے ایصالِ ثواب کے لیے میں نے الحمدللہ ہری پور میں اپنی مقامی مسجد میں قرآن خوانی کرائی۔ دعا کے وقت اللہ نے یہ بات دل میں ڈالی کہ اب وہ دنیا سے انتقال فرما گئے ہیں۔ دنیا کی ضرورتیں اور ہوتی ہیں اور آخرت کی اور۔ اب اُن کے متعلقین یعنی ہم لوگوں کو اُن کی آخرت کی ضرورتوں کے پورا کرنے کی فکر کرنی چاہیے جہاں وہ اب ہمیشہ رہیں گے: ایسے اعمال کرنے چاہییں جو اُن کے لیے صدقۂ جاریہ بنیں کیوں کہ اُن کی آئندہ زندگی کی ضرورتیں صرف یہی ہیں۔ اُن کا اصل نام عبدالحئی تھا، یعنی ہمیشہ زندہ رہنے والے کا بندہ۔ سوچتا ہوں کہ کیسا برمحل نام ہے۔ ؎
عجب نیاز ہے اُس کے لیے مرے دل میں
اگرچہ اُس کو بظاہر میں پوجتا بھی نہیں
انکل مشفق خواجہ کے انتقال کے بعد میں یہ سوچتا رہا کہ تعزیت کس سے کروں، کہ تعزیت کرنا نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مستقل سنت ہے۔ اللہ پاک نے یہی بات دل میں ڈالی کہ اُن لوگوں سے تعزیت کی جائے جن کا ذکر اُن سے ٹیلی فون پر گفتگو میں آیا کرتا تھا۔ اُن کی اہلیہ محترمہ آمنہ مشفق صاحبہ کو خط لکھا۔ اُن کے بھائی خواجہ طارق صاحب سے فون پر بات ہوئی۔ وہ بہت رقت کے ساتھ بتاتے رہے کہ مشفق خواجہ صاحب اُن سے عمر میں گو صرف تین سال بڑے تھے لیکن اُن کا تعلق ایسا تھا جیسا ایک شفیق باپ کا ہوتا ہے۔
تعزیت کا ٹیلی فون میں نے سب سے پہلے ڈاکٹر وحید قریشی صاحب کو کیا تھا۔ اُنھوں نے فرمایا کہ لاہور میں سب لوگ تعزیت کے لیے میرے ہی پاس آرہے ہیں، اور اِس وقت بھی پانچ چھہ لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔ پھر اُنھوں نے بتایا کہ خواجہ صاحب کی فون پر آخری بات اُنھی سے ہوئی ہے، اور اُن کے ہی اصرار پر وہ رات کو ہسپتال گئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب بتاتے رہے کہ اُن کا خواجہ صاحب سے 52 سالہ تعلق تھا، جس میں کبھی دراڑ نہیں آئی۔ اُن کے دل پر بہت زیادہ بوجھ تھا اور آواز گلوگیر۔ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلیم کردہ تعزیت کے آداب یاد آگئے۔ میں نے بات مختصر کرتے ہوئے جلدی ٹیلی فون بند کر دیا۔
٭
میرے بچپن کی بات ہے کہ ہمارے ابو جان پڑھتے لکھتے وقت اپنا قلم کان پر لگالیتے تھے۔ اِس پر ہم حیران بھی ہوتے تھے اور اِس کی نقل بھی، موقع ملنے پر، اُتارا کرتے تھے۔ بہت عرصہ بعد معلوم ہوا کہ کان پر قلم رکھنا قلم کا ادب ہے۔ پھر یہ بھی معلوم ہوا کہ عرضی نویس قلم کو کان پر اِس لیے بھی لگا لیتے تھے تاکہ خالی ہاتھ سے کوئی اور کام کیا جاسکے۔ اور پھر ابھی چند روز پہلے خورشید رضوی صاحب نے غالبؔ کا ایک شعر بھی سنایا ہے: ؎
مگر لکھوائے کوئی اُس کو خط، تو ہم سے لکھوائے
ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے
اُنھوں نے یہ بھی بتایا کہ اِس شعر میں “مگر” کا لفظ، “شاید” کے معنٰی میں استعمال ہوا ہے۔
مشفق خواجہ صاحب کا کالم خامہ بگوش کے قلم سے کے عنوان سے تکبیر کے ذریعے ایک مدت تک ہمارے گھر میں آتا رہا ہے۔ ہم گھر والوں میں سے اکثر لوگ یہ رسالہ اِسی کالم ہی سے شروع کرتے تھے۔ اُن کے بہت سے جملے یاد ہوگئے۔ مثلاً ہمارے دور کے ایک عزیز جو اِس وقت تک شاید پچاس سے بھی زیادہ دواوین کے بوجھ سے اردو شاعری کو زیرِ بار کرچکے ہیں، کی شاعری پر کالم لکھتے ہوئے اُنھوں نے تبصرہ کیا کہ “کیا زمانہ آگیا ہے۔ جس شاعری کا وزن پانچ گرام بھی نہیں ہوتا، وہ نوے گرام کے کاغذ پر چھپتی ہے۔” ایک شاعر کے بارے میں لکھا کہ “وہ بہت اچھے انسان تھے۔ لیکن آخر انسان تھے۔” اُن کے یہ سارے کالم میرے پاس موجود ہیں اور میں اِنھیں اکثر پڑھتا رہتا ہوں۔ کلیاتِ یگانہ کا دیباچہ بھی میں نے کئی بار پڑھا ہے۔ میرے نزدیک یہ دیباچہ خلاّق ذہن رکھنے والے ایک بوڑھے آدمی کی داستانِ ہمت ہے جس نے اپنے original work کی کارگزاری سنائی ہے۔ یہ دیباچہ مجھے James Murrey کی Oxford English Dictionary کے لیے کی گئی محنت کی یاد دِلاتا ہے جو عمر کے سترویں عشرے میں ہفتے میں 90 گھنٹے تک کام کرتا تھا، اور اُس نے ایک ایسا کام کیا تھا جو پہلے سے کِیے گئے کسی کام کی توسیع نہ تھا بلکہ بالکل نیا کام (first-time work) تھا۔ انکل کی تحریریں پڑھنے سے پرانی نہیں ہوتیں بالکل ویسے ہی جیسے پطرس کے مضامین، کہ جب بھی کچھ عرصے کے بعد پڑھیں تو بالکل نئے نئے سے لگتے ہیں۔
اُنھوں نے ایک بار بتایا کہ کلیات، معلومات، وجوہات وغیرہ الفاظ مذکر ہیں، اگرچہ مونث بھی درست ہے۔ میں دونوں طرح استعمال کرتا ہوں۔ ہمزۂ اضافت کے بارے میں بتایا کہ اصل میں مندرجۂ بالا، مذکورۂ بالا، مندرجۂ ذیل وغیرہ درست ہیں۔ اچھے بھلے لوگ اِن تراکیب کو ہمزۂ اِضافت کے بغیر استعمال کرتے ہیں۔ میں نے ایک بار “تحریر” کی جمع پوچھی تو فرمایا کہ “تحریرات” بھی درست ہے، مگر “تحاریر” اور بھی اچھا ہے۔ “مصداق” کی جمع دریافت کی تو “مصادق” بتائی۔ سو میں نے اِنھیں ابو جان کی کتاب کے دیباچے میں استعمال کیا۔
الزبیر کے شمارہ 4، 2004ء میں محترم انیس شاہ جیلانی صاحب نے اپنے خط میں لکھا کہ “یگانہؔ کو مرتَّب کرنے کا ایک کام مشفق خواجہ نے کر تو دیا لیکن دیانت داری سے کترانا اُن کو بھی آتا ہے۔ اقبالؔ سے متعلق یگانہؔ کے اشعار گول کرگئے، یہ گویا اقبال دوستی میں کیا جاتا ہے۔ پنجابیوں کی اقبال دشمنی کی یہ روش خوب ہے۔” میں نے انکل سے اِس کا ذکر کیا۔ فرمایا کہ “معلوم ہوتا ہے کہ اُنھوں نے کلیات کا دیباچہ نہیں پڑھا۔ میں نے حذف کیے جانے والے کلام کے بارے میں صاف لکھا ہے۔ یگانہؔ تو آخر آخر میں بزرگ صحابہؓ اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم تک کی شان میں گستاخیاں کرنے لگے تھے، جس کی پاداش میں لوگوں نے اُن کا منھ کالا کرکے گدھے پر بٹھاکر شہر کا چکر لگوایا تھا اور اُن کے گھر کا سامان تک لوٹ لیا تھا۔ کیا میں ایسے متعفن اشعار درج کر دیتا؟ بھئی حافظ صاحب! میں صرف وہ کام کرتا ہوں جس سے مجھے آخرت میں فائدہ ملنے کی امید ہوتی ہے۔” یہ بات اُنھوں نے وفات سے کوئی ایک ہفتہ قبل کہی تھی۔
مشفق خواجہ صاحب کی وفات سے ادب کو کیا نقصان ہوا، یہ تو علم و ادب سے متعلق لوگ ہی بتائیں گے کیونکہ میں ادب کا آدمی نہیں ہوں، لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ علم و ادب میں بلا امتیاز و لحاظ دیانت داری، سوزِ دل کے ساتھ تنبیہہ اور بے لوث راہنمائی، متانت و وقار کے ساتھ بے کینہ شگفتہ کلامی، تحریر میں دین و وطن اور مشرقیت کی محبت کے توام ہونے اور رسوخ فی العلم کی ایک نادر، بلکہ منحصر بہ فرد روایت اب ختم ہوگئی ہے۔ وہ ادبی نفسانفسی کے اِس دور میں سب اہلِ ادب کا مشترکہ سرمایہ تھے۔
٭
انکل مشفق خواجہ صاحب کی باتیں اور یادیں ایسی نہیں کہ ایک نشست میں بیان کی جاسکیں۔ دل میں غم ہے اور ماحول اُن کے بغیر سوگوار اور تنہا۔ محترم ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا صاحب کے مرتَّب کردہ اور عطاکردہ کلیاتِ مجید امجد سے ایک شعر پیش کرکے بات ختم کرتا ہوں: ؎
یہ کون اِدھر سے گزرا، میں سمجھا حضور تھے
اِک موڑ اور مڑ کے جو دیکھا– زمانہ تھا

Facebook Comments

حافظ صفوان محمد
مصنف، ادیب، لغت نویس

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply