قصہ شہر بدر کا(9)-شکور پٹھان

ہلٹن کی ملازمت ایک بالکل نیا تجربہ تھی۔ یوں کہیے کہ زندگی کا ایک نیا موڑ تھا جہاں نئے لوگوں اور نئی دنیا سے آشنائی ہوئی۔
اب تک میں صرف پاکستانیوں کے ساتھ ہی کام کرتا آرہا تھا۔ پاکستان میں محکمہ صحت کی سرکاری ملازمت اور دبئی میں یونائیٹڈ بنک ( اسے بھی نیم سرکاری کہیے کہ اس وقت پاکستان میں بنک قومیا لئے گئے تھے) میں ماتحت ملازمین کا فدویانہ طرز عمل اور سینئر حضرات کا فرعونیت سے پُر اور تکبر آمیز رویہ، جو سرکاری اور غیر سرکاری دفاتر کا معمول تھا ۔ یہاں زبان کی بھی آسانی تھی کہ انگریزی صرف لکھنے کی حد تک درکار تھی، بولنے کا کشٹ نہیں اٹھانا پڑتا تھا، چنانچہ ملازم پیشہ لوگوں کی اکثریت دفتری کام تو چلا لیتی تھی لیکن انگریزی بات چیت سے تقریباً نا بلد تھی۔ گوروں کے ساتھ ایک تو چھوٹے بڑے کی تفریق اس طرح نہیں تھی جیسی ہمارے ہاں ہوتی ہے۔ یہاں چپڑاسی اور صاحب سب دفتری ساتھی ( کو لیگ) ہوتے ہیں۔

میں نے ہوٹل کی ملازمت کے بعد جس امریکی کمپنی میں کام کیا اس میں چاہے جنرل منیجر ہو، منیجنگ ڈائریکٹر ہو یا کمپنی کا صدر، سب کو اس کے پہلے نام سے پکارا جاتا تھا۔ کوئی “سر”، مسٹر” صاحب اور جناب کا سابقہ یا لاحقہ نہیں لگایا جاتا تھا۔ کوئی چپڑاسی ( آفس بوائے) کے ہاتھ سے دوسرے کو “ سلام” نہیں بھجواتا تھا۔ جس سے بات کرنی ہے، فون پر یا خود چل کر دوسرے کے پاس آکر بات کرتے تھے۔ جنرل منیجر کو بھی کوئی فوٹو کاپی وغیرہ درکار ہوتی، کوئی کاغذ کسی کو پہچانا ہوتا، چائے بنانی ہوتی ، خود جاکر یہ کام کرتا۔ یوبی ایل سےنکل کر اس غلامانہ زندگی سےنجات ملی اور عزت نفس کا احساس ہُوا۔ غلط انگریزی بولنے پر بھی نہ کوئی ٹوکتا تھا، نہ مذاق اڑاتا تھا۔ سب جانتے تھے کہ کس کی مادری یا قومی زبان کیا ہے۔ انگریزی نہ جاننے کا احساس کمتری اور انگریزی جاننے کا احساس برتری یہ صرف ہم غلاموں میں پایا جاتا ہے۔ لبنانی، فلسطینی، مصری عرب، افریقی، چینی، کورین، سب دھڑلے سے غلط سلط انگریزی بولتے اور انگریزی دان کے سامنے ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بات کرتے۔
لیکن یہ سب تجربات تو ابھی ہونے تھے۔ پہلے ہی دن صبح چھ بجے “ کیفے پر گولا” یعںی کافی شاپ میں ڈیوٹی تھی جہاں “ویوین “ سے ملاقات ہوئی۔ یہ میرا ہم عمر ایک گوانیز لڑکا تھا۔ اسے ہندی نہیں آتی تھی، یا کم از کم میں نے اسے کبھی ہندی میں بات کرتے نہیں دیکھا، البتہ ہندی ،اردو سمجھ لیتا تھا۔ ویوین ایک ہنس مکھ اور خوش اخلاق لڑکا تھا۔ مجھے پوری تندہی اور ایمانداری سے کام سمجھاتا رہا۔ میں نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا کہ پہلی بار انگریزی میں کام کرنے کا تجربہ ہورہا ہے اور میری انگریزی کمزور ہے تو کہنے لگا مجھے تو تمہاری انگریزی میں کوئی کمی نظر نہیں آرہی۔ ویوین کے یہ الفاظ تھے کہ مجھے گویا سرٹیفیکٹ مل گیا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن ، مجھے انگریزی آتی ہے یا نہیں، اس بارے میں کبھی احساس کمتری نہیں رہا۔

ویوین کے ہر جملے میں انگریزی کی مشہور چہار حرفی گالی ضرورہوتی۔ چچا نے انگریزی سیکھنے کا نسخہ یہ بتا یا تھا کہ پہلے انگریزی کی ساری گالیاں سیکھ لو۔ ویوین کی شکل میں مجھے ایک بہترین استاد مل گیا۔ جو کچھ مغلظات میں اسے پیش کرتا، وہ انہیں سود سمیت لوٹا دیتا ، یوں میرا ذخیرہ الفاظ بڑھتا رہتا۔

“آج ایسٹر ہے اور میں یہاں جھک ماررہا ہوں “ ویوین نے بتایا تو مجھے علم ہوا کہ ایسٹر اور گڈ فرائیڈے وغیرہ کیا ہوتے ہیں۔ میں نے کہا ناں کہ ایک نئی دنیا سے شناسائی ہورہی تھی۔ زندگی کے دبستاں میں کچھ نیا سیکھنے کا عمل شروع ہوچکا تھا۔

کیفے پر گولا میں ناشتہ کے علاوہ لنچ بھی ہوا کرتا تھا اور مہمان کھانے کے ساتھ پینے سے بھی لطف اندوز ہوتے تھے۔ میں زندگی میں پہلی بار ، بئیر اور ریڈ وائن اور اسکاچ اور سوڈا وغیرہ جیسے الفاظ اپنے ہاتھ سے لکھ رہا تھا اس وقت حرام اور حلال اور ہوٹل کی ملازمت ، بنک کی ملازمت، سود کی حرمت و حلت ، یہ سب باتیں کہیں دور بھی ذہن میں نہیں تھیں۔ نہ کسی نے ٹوکا، نہ کسی نے پوچھا، نہ خود خیال آیا کہ ہم خود ان میں ملوث نہیں ہیں تو ہماری بلا سے کہ اگر کوئی اور یعنی غیر مسلم ( یا مسلم) پی رہا ہے تو ہم پر گناہ ہے یا نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اس وقت ان باتوں پر غور ہی نہیں کیا تھا۔

لنچ کا وقفہ ہُوا تو ویوین کے ساتھ اسٹاف کینٹین کا رخ کیا جو نیچے “ بیسمنٹ” میں تھی۔ یہاں انڈین ، پاکستانی، عرب، افریقی اور طرح طرح کے رنگ برنگے لوگ تھے۔ ہر طرف شور شرابا تھا، قہقہے لگ رہے تھے، گپ شپ ہورہی تھی۔ کہیں کوئی ہندوستانی، پاکستانی، مسلمان، ہندو، عیسائی کا سوال نہیں تھا۔ البتہ میرے لئے یہ سب کچھ بالکل نیا تھا۔ یہ ماحول میں نے پہلے نہیں دیکھا تھا۔ اور سچ تو یہ ہے کہ مجھے اتنا بُرا بھی نہیں لگا تھا۔ کم از کم یہاں قدوس صاحب جیسی متعصبانہ نظریں اور زہریلی باتیں نہیں تھیں۔

اگلے دن دوپہر گیارہ بجے سے ڈیوٹی تھی اور یہ ڈیوٹی تھی “ بازار گرِل (Bazar Grill)ریسٹورانٹ میں جہاں ایک نئے کردار سے ملاقات ہوئی۔ یہ رچرڈ جان تھا جو دراصل راشد جان تھا کہ ایرانی اور ہندوستانی ماں باپ کی اولاد تھا۔ مجھے نہیں یاد کہ ماں باپ میں کون ایرانی اور کون ہندوستانی تھا۔ رچرڈ بحرینی تھا لیکن اپنے آپ کو کبھی ایرانی بتاتا تو کبھی انڈین۔ اس کے دین و مذہب کا بھی کچھ پتہ نہ چلتا تھا کہ وہ خود کو مسلمان بھی کہتا تھا اور کرسچن بھی۔ کبھی وہ عید کی نماز کا کوئی قصہ سناتا تو کبھی سینٹ بارٹس چرچ کے کلب میں گذری ہوئی شام کی باتیں بتاتا۔ اور تو اور وہ شیعہ بھی تھا اور سنی بھی۔ اس قدر “ صلح کُل” انسان شاید ہی کبھی میری نظر سے گذرا ہو۔ یہ بھی میرا ہم عمر تھا اور دشنام طرازی میں ویوین کا ہم مسلک تھا اور میری تربیت اس کے ساتھ بھی جاری رہی۔

رچرڈ یا راشد کی سب سے پیاری اور سب سے مزیدار بات یہ تھی کہ وہ پاکستان کا زبردست حامی تھا اور کبھی ہندوستان پاکستان ہاکی میچ یا فلموں کی بات ہو ( اس وقت ہندوستان اور پاکستان کے مابین کرکٹ میچ بند تھے) یا جنگ کا تذکرہ ہو، وہ ہمیشہ پاکستان کی حمایت کرتا۔ انڈینز کے سامنے کہتا کہ پاکستان کی ائیر فورس دنیا کی نمبر ون ہے۔ یہاں تک غنیمت تھا، لیکن رچرڈ کے نزدیک پاکستانی فلمیں ، انڈین فلموں سے بہت آگے تھیں ( جو کہ ہم بھی صریحاً جھوٹ سمجھتے تھے) البتہ رچرڈ کی دلیل بلکہ دلائل کے آگے ہندوستانی بھی ہتھیار ڈال دیتے ۔

جب بھی فلموں کی بحث ہوتی رچرڈ پاکستانی پنجابی فلموں کا حوالہ دیتا جو وہ بڑے شوق سے دیکھا کرتا تھا اور کسی ہندوستانی نے ( بلکہ ہم پاکستانیوں نے بھی) کوئی پنجابی فلم نہیں دیکھی ہوتی تھی۔ رچرڈ بڑے وثوق سے کہتا کہ پاکستانی “ ہیر رانجھا” ہندوستانی “ ہیر اور رانجھا” سے بہت اچھی ہے۔ میں نے ہندوستانی ہیر رانجھا نہیں دیکھی تھی ، لیکن بہت سال بعد جب دیکھی تو رچرڈ بہت یاد آیا۔ اس کی بات بہت حد تک درست تھی۔
اور رچرڈ یہ بھی انکشاف کرتا کہ انڈین جو ہیں ، یہ پاکستانی فلموں کی نقل کرتے ہیں۔ اس کے ثبوت میں وہ بتاتا کہ راج کپور پاکستانی اداکار کمال کی نقل کرتا ہے اور یہ کہ کمال نے فلم “ جوکر” بنائی تو راج کپور نے اس کی نقل میں “ میرا نام جوکر” بنائی۔ اس کی یہ دلیل برہان قاطع ثابت ہوتی کہ کمال کی فلم راج کپور سے بہت پہلے بنی تھی اور یہ کہ انڈینز چونکہ پاکستانی فلمیں نہیں دیکھتے تھے چنانچہ رچرڈ یا راشد کے آگے ان کی معلومات صفر تھیں۔ رچرڈ کی شکل میں مجھے ہلٹن میں یوبی ایل والے مراد علی ( پران۔بلوچ فیم)کا نعم البدل مل گیا تھا۔ لیکن اس سے تعلق بہت کم رہا۔ میرے ہلٹن میں آنے کے کچھ عرصے بعد اس نے وہاں سے نوکری چھوڑ دی۔ یوں بھی وہ بحرینی نیشنل تھا، اس کے لئے کام کی کون سی کمی تھی؟

اگلے روز  ڈیوٹی روم سروس میں تھی جس کے لئے کچن کے ہی ایک کونے میں میز لگی ہوئی تھی اور مسز تھامس میری استاد تھی۔ یہ ایک سیدھی سادی سی ملبارن تھی جسے “ بزنس” کی بڑی فکر رہتی تھی۔ ہلٹن میں اگر کسی دن کم مہمان آتے تو یوں فکر مند نظر آتی گویا اس کے ذاتی ہوٹل کے کاروبار میں کمی ہورہی ہو۔ویوین، رشید/رچرڈ، مسز تھامس وغیرہ سے بس اسی ٹریننگ کے دوران واسطہ رہا۔ بعد میں ، میں ان کے سر پر سوار ہونے والا تھا کہ میرا کام ہی ان کے کام کی چیکنگ کرنا تھا۔

یہیں “ کرسٹی” بھی ملی جو ایک گلابی سی اینگلو انڈین لڑکی تھی اور شادی اس کی ابھی ہوئی نہیں تھی کہیں۔ اور یہ کہ اسے بھی ہلٹن والوں سے رہائش ابھی تک نہیں ملی تھی اور میں بھی ابھی تک چچا کے ساتھ رہتا تھا۔ اور یہ کہ اس نے کہا تھا کہ کیوں نہ ہم دونوں مل کر پرسنل ڈپارٹمنٹ سے اپنے لئے ایک مشترکہ رہائش کا مطالبہ کریں۔ اور یہ کہ یہ سن کر میرے کان سرخ ہوگئے تھے، اور یہ کہ جب اسے بتایا کہ اگر میرے چچا کو اس کا علم ہوگا تو وہ مجھے گھر سے ہی نہیں بحرین سے ہی نکال دیں گے۔ اور ہاں، یہ بھی کہ اس نے بڑی حیرانی سے پوچھا تھا کہ اس میں ایسی گھر سے نکالنے والی بھی کیا بات ہے۔
میں نے بتایا نا کہ ہلٹن کی ملازمت مجھے ایک نئی دنیا سے روشناس کروارہی تھی۔ وہ تو شکر ہے کہ چچا سر پر موجود تھے ورنہ کرانچی والے بابو جی جنے کیا بن جاتے۔

میری تربیت کا اگلا پڑاؤ دین و ایمان کی آزمائش کا پڑاؤ تھا۔ ایک دن “ گزیبو” “ سوئمنگ پول” پر ڈیوٹی تھی جہاں میں ندیدوں کی طرح حیران و پریشان نازنینان افرنگ کو غسل آبی اور غسل آفتابی میں مصروف دیکھتا، اور کیا بتاؤں کہ کیسے دیکھتاتھا۔ میرے تھوڑے کہے کو بہت جانیے ۔

اگلی ڈیوٹی بھی سراسر شر انگیز تھی۔ یہ “ کیولئیر کلب بار” تھا۔ یہاں بھی کیشئر کے لئے الگ کاؤنٹر نہیں تھا نہ ہی کوئی کیشئر  تھا۔ بار کاؤئنٹر کے ہی ایک جانب کیش مشین رکھی تھی اور “بار مین “ ہی پیسے لیتا تھا اور مشین آپریٹ کرتا تھا۔ یہ “ تھیو” نام کا فلمی ہیرو جیسا خوبصورت اور ہنس مکھ اینگلو انڈین لڑکا تھا جو گلے میں چھوٹی سی “ گلسیا” لٹکائے، کاک ٹیل کی ،تپش، جانچتا ، ساقی گری کرتا۔ بڑی خوش اخلاقی سے انگریزی میں جام پیش کرتا اور مڑ کر ہندی میں غلیظ گالیاں دیتا جو گورے مے خواروں کے پلے نہیں پڑتی تھیں اور وہ تھینک یو کہہ کر بادہ و ساغر کی جانب متوجہ ہوجاتے۔

میں ایک جانب بیٹھا نمکین کاجو اور مونگ پھلیاں ٹھونگتا رہتا، گاہے گاہے، بادہ کشوں کی اتباع میں اورنج جوس یا سیب کا جوس پیتا اور ہر گھنٹے بعد غسل خانے کا چکر لگاتا۔ یہاں مے کشوں کا مطالعہ ایک دلچسپ چیز تھا۔ زیادہ تر امریکی، یورپئین نظر آتے۔ کاؤنٹر پر بیٹھ کر پینے والے زیادہ تر گورے ہوتے۔ میز کرسی پر بیٹھ کر پینے والوں میں مقامی عرب اور ہندوستانیوں کی تعداد زیادہ ہوتی۔اور میں کاؤنٹر والوں کی باتوں کی جانب کان لگائے رہتا۔
ان کی گفتگو بڑے نستعلیق انداز میں شروع ہوتی ۔ موسم کے حال کے بعد ایک دوسرے کی خیریت پوچھتے، کاروبار کے حالات اور حالات حاضرہ پر تبصرہ کرتے۔ دوسرے جام کے ساتھ انہیں پچھلے دنوں کی باتیں یاد آتیں، جام بڑھتے جاتے اور انہیں کبھی گھر یاد آتا یا پچھلی محبوبائیں یاد آتیں۔ ان کی بے وفائیاں یاد آتیں۔ اگلے جام کے بعد کسی کی آنکھ سے آنسو رواں ہوجاتے، تو کوئی گالیوں پر اتر آتا۔ بہت سے ایسے تھے کہ بار شروع ہوتے ہی یعنی سرشام پینا شروع کرتے تو بار کے بند ہونے پر ہی اٹھتے۔ اکثر کسی حسین سہارے کے ساتھ لڑکھڑاتے ہوئے ہاتھ ہلاتے ہوئے ، الوداعی بوسے دیتے ہوئے رخصت ہوتے۔
رات گئے جب ڈیوٹی کے بعد گھر پہنچا تو یوں لگا جیسے انگور کے رس میں ڈ بکیاں لگا کر آیا ہوں ۔ اگلے دن جمعہ تھا۔ نماز جمعہ کے لئے کپڑوں پر بہت سا عطر لگایا تو کہیں جاکر دل و دماغ سے دختر انگور کی خوشبو محو ہوئی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اگلے ہفتے سے رات کی ڈیوٹی تھی اور خالصتاً  پاک صاف اور محنت یعنی آڈٹ کا کام تھا۔ رات کی ڈیوٹی اور پنج ستارہ ہوٹل کی رات کی کہانیاں، بشرط زندگی، اگلی قسط میں۔

Facebook Comments

شکور پٹھان
محترم شکور پٹھان شارجہ میں مقیم اور بزنس مینیجمنٹ سے وابستہ ہیں۔ آپ کا علمی اور ادبی کام مختلف اخبارات و رسائل میں چھپ چکا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply