بے نیاز خدا اور اس کے بندے۔۔مطربہ شیخ

وحی کا پہلا لفظ “اقراء ” یعنی ” پڑھو ”  یعنی  علم حاصل کرو ،  غور  و فکر کرو ، تحقیق کرو اور جانو لیکن صدیوں سے ہمارا یہ حال ہے کہ ہم چاہتے ہیں کوئی  دوسرا ہمارے مسائل حل کر دے ،ہمیں کچھ نہ کرنا پڑے۔سوال کا جواب خود تلاش کرنا چاہیے نہ کہ کسی دوسرے فرد کے پاس جایا جائے ، دوسرا فرد ضرور اپنی رائے دے گا ، ظاہر ہے ہرفرد کی اپنی سوچ ہوتی ہے ،اپنے تجربات ہوتے ہیں ، اپنے مشاہدات ہوتے ہیں ، ہر فرد کی ذہنی استعداد مختلف ہوتی ہے ، اور اس ذہنی استعداد کو بروئے کار لانے کی ، استعمال کرنے کی صلاحیت بھی مختلف اور خداداد ہوتی ہے.

دور طالب علمی میں ہم نے قرآن فہمی کی کچھ کلاسز یونیورسٹی میں منعقد کرنا چاہیں تو کچھ طالبات کی جانب سے  مفت مشورہ دیا گیا کہ  جو تفسیر اس دوران زیر مطالعہ رہے گی ہمیں   اس پر اعتراض ہے ،کوئی  دوسری  تفسیر لے آیئے ، ہم سب  ہنس  پڑے اور حیران   بھی ہوئے کہ   قرآن کو ترجمے سے پڑھنا اور کچھ سیکھنا ہے لیکن پخ لگا دی گئی  کہ فلاں مصنف صاحب کی کتاب سے پڑھنا ہے۔

یہ پندرہ سال پرانی بات ہے، لیکن اب بھی ہمارے رویئے وہی ہیں ، حتیٰ کہ سوشل میڈیا پر بھی ہمارا رویہ بہت جارحانہ اور غیر منصفانہ ہے. ہم وہ لوگ ہیں جو کسی کی ڈی پی پر برا مان جاتے ہیں، ایک ٹوئٹ پر آگ بگولہ ہو جاتے ہیں ، ایک کہانی پر چراغ پا ہو جاتے ہیں ، ایک اسٹیٹس یا کمنٹ پر سیخ پا ہو جاتے ہیں ،

“اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مشرق و مغرب دونوں میرے ہیں تم اپنا رخ کسی طرف بھی پھیر  لو”

کیا لطیف و حسین پیرائے میں بتا دیا گیا ہے کہ میں تو ہر جگہ  موجود ہوں، تم خود دیکھو کہ میں کہاں کہاں ہوں ،دوران سفر  خاص طور پر رک کر جب تم کسی فقیر کی صدا پر اللہ کے نام پر اس کے کشکول میں جند سکے ڈالتے ہو تو مقصد تو اللہ ہی کی خوشنودی کا حصول ہوتا ہے نا۔ تم اپنی عبادت گاہوں میں جاتے ہو اور مجھ سے ہی مانگتے ہو ، میں تو تمہارے دل میں ہوں ، جب ہی تم کو خیال آتا ہے کہ مجھ سے مانگا جائے مجھے  مخاطب کیا جائے، کبھی کبھی تم سودے بازی بھی کرتے ہو کہ ہم نے اتنا صدقہ دیا ، اتنا چڑھاوا چڑھایا اب ہمیں    بدلہ  دیا  جائے۔۔ میں تمہیں تمہاری نیت کے مطابق بدلہ دیتا ہوں . سب کچھ ہماری اپنی نیت اور سمجھ پر ہے .

لیکن ہم نا سمجھ ہیں ،نہ ہی ہم نے اپنی دینی کتاب درست طور پر پڑھی نہ ہی کبھی اپنا یا عالمی ادب پڑھا، ہاں ڈرامے فلمیں اور انٹر نیٹ پر بے ہودہ چیزیں دیکھنے اور شئیر کرنے میں ہمارا کوئی  ثانی نہیں، کسی اداکار یاادکارہ کی بے ہودہ تصویر دیکھنا یا لگانا برا نہیں سمجھتے  لیکن ایک کہانی پڑھنے سے ایمان خراب ہو جاتا ہے۔۔۔ واہ بھئ واہ،

ایک مزاحیہ ٹوئیٹ سے آگ لگ جاتی ہے لیکن خود فحش لطائف شیئر کر و ، واٹس ایپ پر بھیجو، تو ایمان مضبوط ہوتا ہے شاید ، ہاں شیطان والا ایمان نا۔۔۔ کیونکہ شیطان کو بے ہودہ گوئی  پسند ہے . ہندوستانی بت پرستوں کی فلمیں دیکھنے بہت شوق سے سینما گئے ، سینما دوبارہ کھلنے پر پوری قوم خوش ہو گئی ، کسی فرد واحد کی طرف سے مشورہ نہیں آیا کہ قوم کے بچوں کو  سکول کی ضرورت ہے ، سینما کی نہیں ، اپنی بہنوں، بیٹیوں ،بیگمات کو لے کر بت پرست مردوں کو ناچنے دیکھنے بخوشی  سینما پہنچے ، لیکن ایک کالم پڑھ کر برا مان جاتے ہیں۔

ضرورت ہے کہ اپنے رویوں پر غؤر کیا جائے۔ہم صرف یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ صرف ہمارا ہے ،اسی لیے اگر اس کے بارے میں کسی نے اپنی سمجھ کے مطابق یا اللہ سے اپنے تعلق کی بنیاد پر کوئی بات کردی یا لکھ دی تو بس  بنا سوچے سمجھے  لٹھ لے کر اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں ۔یہ سمجھنے اور جاننے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جاتی کہ بات کا پس منظر کیا ہے۔کیا پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

حالانکہ  ہماری کوشش ہونی چاہیے دوسرے پر تنقید کرنے کی بجائے اپنی ذات،اپنے اعمال اور اپنے رویوں پر  نظر رکھی جائے۔ ایسے رویے کہ  جن  کی بدولت ہم اللہ  کو پسند آجائیں ،اور فلاح پا سکیں ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply