الحاد کی تعریف۔۔منصور ندیم

موجود ہ دنیا کی ٩٠ فیصد آبادی ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جو کسی نہ کسی مذہب کو مانتے ہیں۔ کوئی نہ کوئی نظریہ یا عقیدہ ہمیشہ سے انسان کی ضرورت رہا ہے۔ انسان کے اندر موجود تجسس کا مادہ اسے ہر معاملے میں کوئی نہ کوئی نظریہ یا عقیدہ رکھنے کی ترغیب دلاتا ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ  مکمل علم کے حصول تک انسان محدود علم سے بھی لا تعلقی کا اعلان کر دے۔یعنی یہ تمام ۹۰ فیصد لوگ مذہب پرست واقع ہوئے ہیں، ایک اندازے کے مطابق اس وقت کم و بیش ۴۲۰۰ کے قریب عقائد یا مذاہب دنیا میں موجود ہیں۔   لیکن جو ۱۰ فیصد لوگ دنیا میں ایسے ہیں جو مطلقاً  خدا کے وجود کا انکار کرتے ہیں یا اثبات و انکار کے بیچ میں کھڑے ہیں ۔ تاہم مختلف سروے ظاہر کرتے ہیں کہ ملحد دنیا کی آبادی کا ۲ سے ۱۰  فیصد تک ہیں۔ زیادہ امکان ۲-۵  فیصد تک   ہیں۔ ان تمام لوگوں کی ۳ اقسام ہیں ۔

۱- مذہب پرست   Religious Or  Believers :

عقائد یا ایمانیات کے ایسے تصور کے حامل افراد ، جو کسی ایک خاص قوت کو مرکز خلق و ایمانیات مانتے ہوں، اور اس ہستی کے دیئے گئے اصول و قواعد کی پاسداری کو اپنا نصب العین مانتے ہوں ۔ مذہب میں انسان تسلیم کرتا ہے کہ دنیا میں تمام اشیاء کی اصل طاقت کامحور  کسی ایک خالق کے پاس ہے اور وہ  خدا کا تصور ہے۔ تمام ہی مذاہب  میں قریب قریب اصل طاقت کا محور  ایک ماوراء خالق کا تصور ہے اور زندگی گزارنے کے لئے اس کی جانب سے دی گئی  عبادات ، معاملات اور معاشرت کا قانون اور ضابطہ ہے ، جس کی بنیاد پر اس زندگی کے بعد دوسری زندگی جنت یاجہنم کا فیصلہ موجود ہے۔ جو قریب قریب تمام مذاہب میں کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔

۲- ملحد یا الحاد Atheism:

Atheism  کی سادہ سی تعریف  ہے کہ خدا یا  خداؤں  کے وجود  کا صریحاً  یا مکمل  رد  کرنا۔ اس کا Root word  دو مختلف لفظوں کا مجموعہ ہے A اور Theism، یونانی زبان میں Theist کا لفظ خدا کے لئے استعمال ہوتا تھا، اور A کا لفظ نہ ماننے کے ضمن میں ہے، انہی دو لفظوں کے مجموعے کو الحاد کے لیے انگلش میں Atheism کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے جو کہ یونانی لفظ  Atheos  سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ”بغیر خدا کے” ہے، اس کے لیے اردو میں دہریت کا لفظ بھی متبادل کے طور پر بولا جاتا ہے ۔ فیروز الغات کے مطابق الحاد کا اردو میں لغوی معنی ہے” سیدھے راستے سے بھٹک جانا”۔الحاد کو انحراف کے معنوں میں استعمال کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ لفظ عربی زبان کے لفظ لحد سے نکلا ہے جسے قبر کی اس دراڑ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو درمیان سے الگ ہو جاتی ہے یعنی ہٹاؤ  یا انحراف کر جاتی ہے۔اسلامی اصطلاح میں ملحدفی الدین کا لفظ ایسے ہی افرادکے لیے بولا جاتا ہے جو  خدا کے وجود کی کلی طور پرنفی کرتا ہے۔

۳- اگنوسزم  Agnosticism :

اگنوسسٹ  اس فرد کو کہتے ہیں جو خدا کے  ہونے یا  نہ  ہونے کے  بارے یقین  یا علم میں کمی کی کیفیت  میں ہو۔Gnostic   کا مطلب علم یا روشنی ہے اور Agnostic وہ کہلائے گا جو یہ کہے کہ مجھے خدا کے وجود  کی آگاہی اور ادراک نہیں ہے ۔نہ وہ خدا کے ہونے کا اقرار کرتا ہے اور نہ ہی خدا کے وجود کے نہ ہونے کا۔

الحاد کا فلسفہ بہت پرانا ہے اس کی ماضی میں تاریخ ملتی ہے۔ دہریت یا الحاد کا آغاز انڈین اوریونانی تہذیبوں  سے  ملتا ہے، لیکن موجود عہد کے جدید الحاد کا فکری سفر فلسفے اور منطقی آئیڈیالوجی سے آگے بڑھ کر  سائنسی فکر کی جانب گامزن ہوچکا ہے۔ جبکہ پرانا الحاد فقط اب بھی فلسفے کو موضع بحث بنائے ہوئے ہے۔جیسا کہ پہلے دور میں منطق کو اہمیت دینے والے معتزلہ ، وہ انہی باتوں کو قبول کرتے تھے جو عقل کی کسوٹی پر پوری اترے، معجزات اور بعض مذہبی عقائد کے منکر تھے ۔ مغرب میں  بھی کچھ ایسے ہی ملتے جلتے خیالات اگنوسٹوں کے تھے، مزے کی بات یہ تھی کہ وہاں چرچ انہیں ملحد   شمار نہیں کرتا تھا کیونکہ وہ خدا کے قطعی انکاری نہیں تھے، یعنی کنفیوزڈ تھے یا حق کی تلاش میں تھے۔اوروہاں کے  مذہبی  رہنماؤں کا ماننا تھا کہ ان کی مذہب میں واپسی ممکن ہے ، کیونکہ یہ مطلقا مذہب یا خدا کے وجود کے انکاری نہیں ہیں۔

قدیم اہل فلاسفہ میں سے  جو چند فلاسفہ خدا کا انکار کرتے تھے ان کا انکار خدا “عدم ثبوت کی بنیاد پر تھا، یعنی خدا کی موجودگی کے ثبوت ناکافی ہیں “۔لیکن نیا الحاد جس پر آج کا موجودہ ملحد انحصار  کرتا ہے وہ فلسفے سے زیادہ سائنسی دعوؤں اور نظریات کو ترجیح دیتے ہیں، ان کے بقول “خدا وجودہی نہیں رکھتا “۔اور ان کا ماننا  ہے کہ یہ خیال یانظریہ موجودہ سائنسی علوم سے اخذ شدہ ہے ۔حالانکہ یہ خیال یا نظریہ خود  سائنس میں قانون کا درجہ نہیں رکھتا مگر اس سوچ کے مقلد موجود ہیں، ایک طالب علم کی حیثیت سے بھی اور اساتذہ کی حیثیت سے بھی۔چونکہ موجود دور سائنس کا دور ہے، اور قیاس، فلسفہ اور منطق موجودہ سائنسی دوڑ میں قدرے  پیچھے رہ گئے ہیں، اورموجودہ سائنس اور ٹیکنالوجی نے علمی میدان میں خود کو منوایا بھی ہے تو اس کی قدر پڑھے لکھے لوگوں اور جدید اذہان میں اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ اور جب سائنس کا طالب علم کوئی سوال  کرے  تو انھیں وہی لوگ جواب دینے کے اہل ہیں جو ان جدید علوم پر دسترس  رکھتے ہیں۔مشہور سائنسدان ایڈون ہبل نے پہلی دفعہ مشاہدہ کرکے بتایا تھاکہ ہماری کائنات میں ملکی وے کے علاوہ مزید اور کہکشائیں بھی ہیں۔ اب بالفرض اگر ہبل سے پہلے کوئی یہ کہتا کہ اسے ۱۰۰ فیصد یقین ہے کہ واقعی کوئی اور کہکشاں نہیں تو پھر ہبل کی دریافت کے بعد وہ کتنا ذلیل ہوتا۔اسی طرح ہبل سے پہلے اگر کوئی یہ دعویٰ  کرتا کہ کائنات میں اور بھی کہکشاں ہیں تو پھر اسکے پاس اپنے دعوے کے ثبوت کے طور پر ٹھوس شواہد نہیں ہوتے تو نتیجتاً  ہبل سے پہلے وہ بھی ذلیل و خوار ہوتا۔اسی لئے سائنسی ترقی یا مفروضات کی بنیاد پر عقائد یا ایمانیات تشکیل نہیں دی جاسکتی ۔ اسی تناظر میں موجود عہد  کے  نوجوانوں کے لئے  ایک حوالہ جو غیر ارادی طور پر مذہب سے سائنس کا تقابل کرتے ہیں یا سائنسی ترقی سے متاثر ہو کر مذہب پر بلا جواز تنقید کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔

“غیرمحسوس اورغیرمادّی حقائق کا برملا انکار کرکے  مذہب بےزاری Theophobia سے ایک  جدید نظام فکر کی تشکیل پارہا ہے۔ مغرب میں اب صرف وہ علم معتبر ٹھہرا جس سے لا دینی فکر کو تقویت ملتی ہو اور سائنس کا ہر ہم سفر شعوری یا غیر شعوری طور پر مذہب بےزاری کے جذبے سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔
مغرب کے حکماء اور فلاسفہ اس ذہنیت کو ”لادینیت “ کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ یہ لاادریت Agnosticism سے بالکل مختلف نظریہ ہے۔ یونان کے ”لاادریہ“ ( اگنوسٹس) فلسفی لاعلمی کے مدعی تھے۔لیکن جدید دور کے حکماء اور فلاسفہ مذہب دشمنی کے عَلَم بردار ہیں۔ خدا کے تصور کو حذف کرنا اور مادیت کے ذریعہ کائنات کی ہرشے کی تشریح کرنا اب ان کا منتہائے مقصود بن گیا ہے ۔ اس کا واضح ثبوت فرانس کے سائنس داں ”لاپلاس“ Laplace کے جواب سے ملتا ہے۔ اس نے اپنی طبیعاتی تصنیف نپولین (۱۸۰۴ء تا ۱۸۱۴ء ) کو پیش کی۔ نپولین نے لاپلاس سے دریافت کیا !! میں نے آٹھ سو صفحات کی کتاب میں خدا کا لفظ کہیں نہیں پڑھا !! اس کی کیا وجہ ہے؟ لاپلاس نے جواب دیا : ”آقا ! اب اس فارمولے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔(مغربی فلسفہ تعلیم کا جائزہ، ص:۳۲)””۔

علاوہ ازیں مذہب کے ماننے والوں کے اذہان میں بھی علمی اور منطقی معاملات میں بعض اوقات ایسے مراحل آتے ہیں جب انسان اپنے مذہبی یا اپنے الحادی تصورات سے کچھ چیزوں کا احاطہ نہیں کر پاتا اور بالآخر وہ اگناسٹزم کی  کیفیت میں چلا جاتا ہے۔یا وہ تشکیک و ارتیاب کی کیفیت میں رہتا ہے ایسےوقت میں عموما ہمارے ہاں بعض  مذہبی حلقوں سے سخت  تنقید قولا و فعلا بہت ہی عام ہے ، تنقید اگر تنقید برائے مخالفت نہ ہو بلکہ اصلاح کی غرض سے ہو تو واقعتا ایک مستحسن امر ہے۔عموماً  ہمارے ہاں جو تنقید ہوتی ہے وہ شخصی یا اعتقادی  تنقید ہوتی ہے ،اور  کسی شخض کے افکار و نظریات کی بجائے اس کی ذات اور شخصیت کو رگیدا جاتا ہے ، ایسے جاہلانہ رویے سے عموما وہ افراد مزید مذہب سے برگشتہ ہوجاتے ہیں۔  عموماً  اس طرح کی تشکیک  کی بنیاد نفسیاتی یا معاشرتی عوامل بھی ہوتے ہیں لیکن چونکہ اس طرح کی تشکیک کے مقابل رائے بجائے کہ    علمی رویہ یا دلائل ہو ، بلکہ حد سے بڑھے ہوئےتعصب ، انتہا پسندی اور جذباتی مزاج سے سامنے آئےتو اس سے عمل اور رد عمل کی کیفیت پیدا ہوتی ہے لوگ اچھے خاصے ایک خاص پہلو پر کنفیوز فرد کو الحاد کے کٹہرے تک لے جاتے ہیں  ۔کیونکہ ملحد تو  مذاہب اور خالق دونوں کا بیک وقت انکار کرتا ہے۔جبکہ اگناسٹک مذاہب کا تو انکاری ہوتا ہے ، مگر خالق حقیقی کا متلاشی ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ اگنوسزم ایک فلسفیانہ  نقطہ نظر ہے ، کہ  انسان خدا کے ہونے یا نا ہونے کو کبھی جان ہی نہیں سکتا    اسی  وجہ سے ایک اگنوسٹک بیک وقت خدا کا منکر اور اقراری ہوتا ہے۔بظاہر  اگنوسٹک آپ کو  خدا کا انکار کرتے ہوئے تو نظر آئے گا، لیکن ساتھ ہی کائنات کے موجب کے موجود ہونے اور کسی ایسی قوت جو اس کائنات کی خالق ہو، اس کے موجود ہونے کے امکان کو  حتمی یا کلی طور پررد بھی نہیں کرے گا۔ ویسے بھی کسی فرد کی طرف سے  الحاد   جو خدا کا انکار ہے حتمی طور پر طے شدہ نہیں ہے کہ یہ انکار سوچا سمجھا بھی ہو سکتا ہے اور بلا سوچے سمجھے قدرتی طور پر بھی۔ جدید  عہد کا ملحد اس انکار خدا سے متعلق نہیں ہے جو جہالت پر مبنی ہو یعنی مذہبی تعلیمات سے نا آشنائی کی بنا پر پیدا ہونے والا الحاد،اصلا الحاد نہیں ہے۔ محض خدا کے نہ ہونے کا نظریہ کمزور الحاد ہے۔ جدید دور کا ملحد یہ ہے کہ انسان یہ مانے کہ نہ خدا ہے اور نہ ہی خدا ہوسکتا ہے اور یہی فکر  سائنسی افکار کی صورت میں پیدا ہونے والاالحاد ہے۔ کمزور الحاد محض سو قسطائینت ہے جب کہ ملحد دراصل واضح طور پر خدا کا قطعی انکار ہے یعنی کوئی خدا ہو ہی نہیں سکتا اور یہی سے اگناسٹس اور ملحد کی راہیں جدا ہوتی ہیں ۔

موجود زمانے میں الحاد کے  اصل تصور پر یقین رکھنے والوں میں زیادہ تر اضافہ یورپین ممالک، کینیڈا اور امریکہ میں ہواہے۔ اٹھارویں  صدی تک خدا پر یقین اتنا مضبوط اور ہمہ گیر تھا کہ الحاد کے وجود پر سوال اٹھنے لگ گئے۔الحاد کے پھیلاؤ  میں ایک بہت بڑی رکاوٹ خود ملحدین ہیں، جو کسی بھی بڑی مشکل کا شکار ہوں تو خداکو ماننے کے جزوی اعتقادات پر عمل شروع کردیتے ہیں اور بلواسطہ یا بلا واسطہ اپنی التجائیں خدا کے حضور پیش کرتے ہیں، کیونکہ خدا پر یقین ہی مصائب سے نکلنے کاحل ہے۔ انگریزی میں ایک اور اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے جسے Death bed  Conversion کہتے ہیں یعنی بسترِ مرگ پر موت کی سختیاں دیکھ کر وجودِ خدا کی گواہی دے دینا یا اپنے عقائد تبدیل کر لینا۔اس کی سب سے بڑی مثال چارلس ڈارون ہی ہے جو لیڈی ہوپ کے مطابق بسترِ مرگ پر اپنی تھیوری پر کف افسوس مل رہا تھا اور اس کی جانکنی کے عالم میں بھی یہ خواہش تھی کہ لوگوں کی جماعت اکھٹی کی جائے جنہیں یہ خدا کے وجود پر لیکچر دے سکے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

زمانہ عصر  میں  سوشل میڈیا ایک ایسی دنیا ہے جس نے ہر فرد کو اپنا موقف ایک ایسے پلیٹ فارم پر دینے کے قابل بنا دیا، جہاں وہ اپنے خیالات کا اظہار کرسکتا ہے، بلاشبہ اظہار رائے کی آزادی ایک اچھی بات ہے لیکن چونکہ معاشرتی طور پر ہماری شدت پسندی یا اختلاف رائے کی کوئی تربیت نہ ہونے کی وجہ سے اکثر کئی اصطلاحات کے مطالب و مفاہیم  کی درست تشریح نہ ہونے پر ہم اکثر کمنٹس میں ایک دوسرے پر تنقید کی صورت میں الحاد  یا مختلف الزامات لگاتے دیکھتے ہیں ۔ علاوہ ازیں ان اصطلاحات کی درست تشریح یا ان کے مابین تفریق کو بھی نہیں جانتے۔عموماً  اگر کوئی شخص مغرب کی مثال دے یا آپ سے مذہبی اختلاف کرے  تو اسے  ملحد کا خطاب دے دیا جاتا ہے۔اب اگرانہی افراد سے یہ پوچھا جائے کہ جو الزام آپ لگا رہے ہیں ان کا مطلب کیا ہے تو عموماً  وہ ان Terms کو خود بھی define نہیں کرپاتے۔یا وہ خود اس کی مکمل تعریف سے آگاہ نہیں ہوتے۔ ہمارے ہاں جو لوگ الحاد  کی طرف مائل ہوتے ہیں، وہ عموما  مختلف قسم کا مذہبی پس منظر رکھتے ہیں۔  الحاد کے اسباب جہاں نفسانی، نفسیاتی اور معاشرتی ہیں، وہاں اس کا ایک بہت بڑا سبب یہ بھی ہے کہ بہت سے لوگ اس لیے ملحد بن جاتے ہیں کہ ان سے اپنے مذہب یا مسلک کے بارے لوگوں کے شرعی وعقلی سوالات اور اعتراضات کا جواب نہیں بن پڑتا،یا سائنسی ترقی اور نظریات سے مذہبی تعبیرات اور ایمانیات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔جو یقینا ایک غلط کسوٹی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”الحاد کی تعریف۔۔منصور ندیم

  1. منصور صاحب تحریر شاندار ہے مگر آپ نے ڈی ازم کو یکسر نظر انداز کر دیا ہے “ڈیزم (deism) ایک ایسا الحاد ہے جس میں خدا کے وجود کو تو تسلیم کیا جاتا ہے لیکن خدا سے تعلق قائم کرنے کیلئے وحی، خارجی ہدایت اور مذاہب عالم کی تعلیمات کومن گھڑت اور غیر ضروری سمجھ کر یکسر مسترد کر دیا جاتا ہے۔اس نظرئیے کے مطابق انسان کا اصل اور خالص مذہب ڈیزم ہےیعنی یہ کہ خدا پر اپنی عقل اور خواہش کے مطابق ایمان لایا جائے اور خدائی احکامات پر عمل کر کے اسے خوش کرنے کی بجائے از خود اپنی عقل سے کائنات پر غور کر کے خدا کو خوش کیا جانا چاہئے۔ یعنی خدا کو یوں نہ مانا جائے جیسا کہ وہ چاہتا ہے بلکہ یوں مانا جائے جیسا کہ انسان اسے چاہنا چاہتا ہے”
    ڈیزم کا بنیادی نظریہ یہ ہے کہ خدا موجود ہے، اور وجود کائنات کی علت اولیٰ وہی ہے لیکن وہ براہ راست کائناتی امور میں مداخلت نہیں کرتا ، اس نے کائنات بنائی تو ضرور ہے لیکن اسے فطری قوانین کے ماتحت کر کے چلا دیا ہے۔ اب یہ کائنات اپنے داخلی قوانین کی مدد سے رواں دواں ہیں، اب خدا کا اس دنیا سے کوئی لنک باقی نہیں رہا،
    https://mushahidaat.com/%DA%88%DB%8C%D8%B2%D9%85-%DA%A9%DB%8C%D8%A7-%DB%81%DB%92%D8%9F/

Leave a Reply