زردادحسرت صاحب ۔۔جاویدخان

دھندلے دھندلے نقوش،بیضوی چہرہ،بات کرنے لگیں تو سامنے کے دو دانت نمایاں ہو کر چہرے کو رونق بخشیں۔پھرتیلابدن،قداندازاً پانچ فٹ  چند  اِنچ۔مسکرائیں تو خوشی کاتاثر پورے چہرے سے چھلکے۔زرداد حسرت صاحب سکول میں ہمارے پی۔ٹی تھے۔ان سے پہلا واسطہ تب پڑا جب میں دوسری جماعت کاطالب علم تھا۔عید کے دن میں اپنے پھوپھی زاد بھائیوں کے ایک قافلے کے ساتھ ان کے گھر پہنچا۔کچے گھروں کارواج تھا۔اپنے آبائی گھر سے کافی اوپر ایک مزار کے نیچے انھوں نے یہ گھر نیا نیابنایا تھا۔گھر کے بائیں طرف ایک اونچا چبوترا تھا۔ جہاں نماز کے لیے پتھر کی جائے نمازیں لگی تھیں۔گھر کے پیچھے ایک کھڑا پہاڑ بلند ہوتاتھااور پہاڑ کی چوٹی پر پیر نور علی شاہ نامی کسی گمنام بزرگ کامزار تھا۔گھر کی پچھلی دیوار سے نمی آتی تھی۔مٹی کی لیپائی برسات میں دیوار کے اندرونی حصے سے اُکھڑ اُکھڑ کر گرنے لگتی۔ایک پہاڑی ندی جو برساتوں میں طغیان لیے ہوتی۔ان کے گھر کے دائیں طرف سے ہوتی ہوئی،گھر کے کافی نیچے سے اُترتی تھی۔گویاان کی زمین کی کسی حد تک حدبندی ندی کرتی تھی۔بارانی  موسموں میں دائیں طرف ندی،نیچے ندی،پچھلی دیوار سے پانی اور مٹی کی چھت سے مٹیالی برسات ہونے لگتی۔مہمان خانے میں داخل ہوئے تو لمبائی میں لگی لکڑی کی میزوں کے اطراف میں،آمنے سامنے کرسیاں لگی تھیں۔جیسے کسی کانفرنس کی منتظر ہوں۔چونکہ  باقی لوگ ان کے شاگرد تھے۔بس میرا تعارف ہوا۔زرداد صاحب نے چائے،کیک،بسکٹ،پیسٹریوں کے علاوہ میٹھے سے تواضع  کی۔مہمان نوازی کایہ انداز  آج سے 33سال قبل ہماری پہاڑی اور دیہاتی زندگیوں میں نہ تھا۔رخصت ہوتے وقت وہ چبوترے تک آئے اور مجھے چھوڑکر ہر ایک کو ایک ایک رسالہ پڑھنے کو بطور تحفہ دیا۔شاگردوں کو انھیں پڑھنے کی تاکید کی۔ساتھ ساتھ مجھ سے وعدہ کیا کہ  تمہاری عمر کے مطابق کوئی کتاب تمھیں ضرور دوں گا۔

غالب نے بَلی ماروں کے محلے میں واقع اپنے گھر کا جو نقشہ ایک خط میں کھینچا ہے۔زردادصاحب کاگھر کاشانہ غالب کی برابری کرنے کاکوئی موقع ضائع نہ ہونے دیتاتھا۔رین بسیروں اور ندی کی زور آوریوں سے تنگ آکر انھوں نے وہاں سے بوریا لپیٹنے کاسوچ لیا۔ان کاسسرال ہمارے پڑوس میں ہے۔یہ ان کے آبائی گھر سے کافی بلندی پر واقع بیاڑ کے جنگل میں گِھراایک خوب صورت اور پُر فضا مقام ہے۔سسرال والوں نے مکان کے لیے اچھی خاصی جگہ انھیں یہاں سے دے دی۔جہاں مکان کے علاوہ کھیتی کے لیے بھی کافی جگہ بچ جاتی تھی۔ان کے اندر کے چپھے فن کار نے اب آہستہ آہستہ باہر آنا شروع کردیا۔کاری گروں نے کم،زرداد صاحب نے زیادہ اپنا گھر تعمیر کیا۔اس کی آرائش و زیبائش کے بعد انھوں نے صحن اور باغیچے پر کام شروع کیا۔پھولوں اور کیاریوں سے سجا صحن،چھوٹاساچمن،چھوٹی چھوٹی کھیتیاں،اِردگردبیاڑوں کے درخت اور اس کے بیچ سرخ جست کی چادروں کابنگلہ۔زرداد صاحب کے اندر کے نقش گر اور جمال گر کاکمال تھا۔مہمان نوازی ان کے پورے خاندان میں بھری ہوئی تھی۔کشمیر کے دور دراز خطوں میں ان کے دوست تھے۔یہ اکثر ان کے ہاں آتے جاتے رہتے تھے۔گھڑالہ کشمیر میں ضلع سدھنوتی کامشہور سیاحتی مقام ہے۔یہاں یہ اپنے دوست کے ہاں گئے۔واپسی پر اس نے ”میسلون“ کاتھیلا بھر کردیا۔یہ جڑیں سرد اَور بلند علاقوں میں ہوتی ہیں۔ دراصل مشہور مشروب ”کشمیری چائے“ کی پتی یہی میسلون نامی جڑی ہے۔اس کی جڑیں اور پتیاں کشمیری چاے میں پڑتی ہیں۔جب تک میسلون کاوہ تھیلا ختم نہ ہوا۔ زرداد صاحب کشمیری چائے سے مہمانوں کی تواضع کرتے رہے۔حال آنکہ کشمیری چاے میں دیگر لوازمات کھوپرا،کش مش بھی پڑتے ہیں۔علاوہ اس کو بنانے میں قدرے مہارت اور ریاضت کی ضروت ہے۔ یہ قدرے مہنگا مشروب ہے۔

مطالعے کاشوق انھیں بچپن سے تھا۔اُردو ڈائجسٹ تواتر سے خریدتے اور پڑھتے تھے۔بعض دفعہ پورے سال کے لیے پیسے ایک ساتھ جمع کروالیتے۔اسکول میں بزم ادب کے ذمہ دار تھے۔پروگراموں  کے خاکے،تقاریر،ٹیبلو تیار کرواتے تھے۔پلے ڈے کے موقع پر چھلانگ (جمپ)،رسہ کشی،دوڑ،فٹ بال،والی بال کی الگ الگ ٹیمیں بنواتے اور تمام طلباء کو شامل کرنے کی کوشش کرتے۔جانے کس موقع پر وہ پی۔ٹی چنے گئے اَصلاًً وہ علم وادب کے بندے تھے۔تحریر و تقریر کے علاوہ گفتگو کافن انھیں خوب آتاتھا۔ہر شخص کی استعطاعت کے مطابق مجلس دیتے تھے۔کاری گر کے ساتھ وہ کاری گر بن جاتے،مزدور کے ساتھ اس کے مزاج کے مطابق گفتگو کرتے۔اہل سیاست کی مجلس میں سیاسی کارکن نظر آتے تو علم وادب کی محفل میں ایک ادیب اور ناقد نظر آے۔کئی لطیفے انھیں یاد تھے۔مگر سنانے کاانداز لطیفوں کے لطف کو دوبالا کردیتا۔کشمیر میں کئی زبانیں بولی جاتی ہیں۔گوجری ان میں سے ایک ہے۔اس کی مٹھاس اور زرخیزی کے بڑے مداح تھے۔کسی گوجری بولنے والے دوست نے انھیں ایک لطیفہ سنایا۔یہ انھیں ساری زندگی یادرہا۔لطیفہ یوں تھاکہ کوئی میاں گجر تھے اور کسی پیر صاحب کے مرید تھے۔پیر صاحب بھی گاہے گاہے شفقت فرمایا کرتے تھے۔سال بھر میں ایک پھیرا مرید کے ہاں ضرور لگاتے۔بکر اذبح ہوتامحلے بھر کی ضیافت ہوتی اور پیر صاحب کی برکت بھری روحانی مجلس بھی۔مگرنہ جانے ایک سال پیر صاحب کو کیا مشکل آن پڑی کے وہ مرید خاص کے گھر نہ آسکے۔چنانچہ مرید نے ایک دکھ بھر ا مضموں موضوع کیا اور پیر صاحب کو بھیج دیا۔یہ نظم زردادحسرت صاحب چٹکلے لے لے کر سناتے۔خو دمحظوظ ہوتے اور دوسروں کو بھی کرتے۔نظم کے کچھ اشعار ہی مجھے یاد ہیں۔
مدت گزری بوتھا نہ تکیا تھارو
جلدی آکے بُوتھا داسو یاحضرت ہمارو
تسبیح تھاری اینج چمکے
جیاں لوہے دیاں ٹوٹو
داڑھی تھاری اینج چمکے
جیاں بیراں بکرو مہارو
(مدت گزر گئی یاحضرت آپ کادیدار نہ ہو سکا۔جلد آکر اپنا دیدار کرایے۔آپ کی تسبح مبارک یاد آرہی ہے جو لوہے کی تاروں کی طرح چمکتی ہے۔اور داڑھی مبارک بھی بہت یاد آرہی ہے جو میرے بکرے بیراں کی طرح ہے۔)
باقی لوگ خوب محظوظ ہوتے البتہ بہت  سے پیر پرست لوگ کچھ پریشان ہو جاتے۔مگر زرداد حسرت صاحب کی شخصیت میں تضحیک کاعنصر تھاہی نہیں۔ہاں وہ فن کار ضرور تھے۔گفتگو کے،اشعار سنانے کے اور لکھنے کے۔ٹوپہ اگرچہ ایک قصباتی بازار تھا۔مگراہل سیاست و سیادت کاگڑھ تھا۔لطیفے،مقالے،مجادلے،مکالمے اور مشاعرے سب یہاں ہوتے تھے۔زردادصاحب آٹھویں جماعت سے ہی اسلامی جمعیت کے بندھن سے بندھ گئے تھے۔اس وقت کی جمعیت کے پہلو میں اک ڈائری اور اس میں چند کتابچے ہر وقت ہوتے تھے۔جب کے سرخوں کی بغل میں سرخ بائبل یعنی کیمونسٹ مینی فسٹو،داس کیپیٹل کے علاوہ سید سبط حسن کی کتابیں،بیدی،منٹو اور کرشن چندر کی کتابیں ہوتی تھیں۔ وہ داہیں بازو کی چھتری تھامے اس ماحول میں بڑے ہوے۔زرداد صاحب جماعت اسلامی سے تعلق رکھتے تھے۔مگر جماعت اسلامی ان میں نہ آسکی۔وہ کبھی بھی سکہ بند کارکن نہ بن سکے۔جتنا بڑا آدمی ان کے اندر تھا۔وہ کبھی باہر نہ آسکا۔ان پرکئی طرح کی برساتیں اترتی رہیں۔کئی برستاتی ندیاں طغیان لیے ان کے رستے میں بہتی رہیں۔وہ ایک کے بعد ایک کو تیر کر پار کرتے رہے۔ جیون کی سو طرح کی برساتوں نے انھیں جم کر لکھنے کاموقع نہ دیا۔اگر وہ اپنی خریدی ہوئی کتابیں جمع کرتے رہتے تو ایک ضخیم لائبریری ان کے پاس ہوتی۔مگر وہ کتابیں لے جانے والوں کاپیچھا نہ کرسکے یوں یہ سرمایہ ضائع ہوتارہا۔اس کے باوجود ایک چھوٹی لائبریری وہ ترکے میں ضرور چھوڑ گئے۔

ایک مرتبہ میں ان سے ملنے گیا۔میرے پاس موبائل میں ایک نغمہ نگار جو مقبوضہ پونچھ راجوری کی ہیں،کاگوجری کلام تھا۔یہ ایک گوجری نظم ہے اَور شاعر نے اپنی ماں کی یاد میں لکھی ہے۔نظم یوں ہے۔
فیر پانی پہ تاں ہنس کہڑیا
کہ گل اَمڑی کی داس کہڑیا
اُت ٹھنڈڑی ٹھنڈڑی چھاں وے تھی
اُت پانی کی اک باں وے تھی
اُت میری سوہنی ماں وے تھی
تھی نال اسے گے چس کہڑیا
کہ گل اَمڑی کی داس کہڑیا
دوکنگن پے گئے بایاں ماں
ہُن ویس ناپہیوں پرایاں ماں
کھج لوگاں بے آزمایاں ماں
وچ کھوری بولے ساس کہڑیا
کہ گل اَمڑی کی داس کہڑیا
اس نغمے کو سننے کے دوران آنسو ان کی آنکھوں سے چھلک پڑے۔اور پھر دیر تک آنسوؤں کی جھڑی لگی رہی۔ناجانے اس نغمے،جس میں ایک پہاڑی اور دیہاتی ماں کی مشقت اور دکھ بیان ہواہے،کو سن کر زردادصاحب کو اپنی ماں جی کی مشقت کے کون کون سے پہلو یاد آے ہوں گے۔؟ میں نے زندگی کی مٹیالی برساتوں کے نیچے کھڑے ہو کر ہنسنے والے چہرے سے پہلی بار دکھ اور یادوں کی جھڑی دیکھی تھی۔کتاب ”ہاتھ،لکیریں اور زندگی“ کے مصنف افطار حسین حسرت اور زرداد حسرت صاحب ہم جماعت بھی تھے اور دوست بھی۔سسرال میں گھر بنانے کے بعد اب دونوں ہمساے بھی بن گئے تھے۔یوں محفل جمی ہی رہتی۔میں ان دونوں کے بیچ ِ،صرف سنتا رہتا۔پرانی یادیں،ہم جماعت،نظریات اور ادب۔حسرت صاحب دائیں بازو کے سرخ سپاہی تھے اور زردادحسرت صاحب جماعت اسلامی کے رکن جنرل کونسل۔کبھی کبھی حسرت صاحب اپناتوازن چھوڑ جاتے اور فوراًًماضی کاسرخ کیمپ سنبھال لیتے۔مگر زردادصاحب بے شکن نشتر سہہ کر موقع کی مناسبت سے جوابی حملہ کرجاتے۔ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد انھوں نے اپنے گھر میں محکمہ تعلیم کے آفیسران اور اساتذہ کی دعوت کی۔ان کے خوب صورت صحن میں گول دائرے میں کرسیاں لگی تھیں۔سٹیج سکریڑی کے فرائض زرداد حسرت صاحب نے مجھے سونپے۔بعض جگہوں پر لقمہ دیتے کے اب فلاں کو دعوت کلام دو۔کیوں کے کچھ لوگ پروگرام کے دوران پہنچ رہے تھے۔اور سب کو میں نا جانتاتھا۔میں نے ان پر ایک مضمون پڑھا۔ضلع نیلم کے ایک معلم نے دلنشیں تقریر کی۔آخر میں زرداد صاحب نے گفتگو کرتے ہوے کہا”میں نے زندگی کابڑا حصہ ٹیچر برادری کے ساتھ گزاراہے۔ان لوگوں سے مجھے سیکھنے کو بہت کچھ ملا۔اس برادری نے مجھے عزت دی اَور اَعزاز کے ساتھ رخصت کیا۔میں نے سوچا اپنے اس گھر میں اپنی اس برادری کی دعوت کروں۔جس نے برسوں مجھے اَپناے رکھا۔آج میں اس بڑی برادری سے الگ ہو گیا ہوں تو اس کادکھ بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔“

Advertisements
julia rana solicitors london

معلمی سے سبکدوشی کے بعد راولاکوٹ میں ایک دفتر کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ساتھ منظم طریقے سے پڑھنے لکھنے کامنصوبہ تھا۔مگر کینسر اچانک آن دھمکا۔زندگی کی ساٹھ برساتوں کو مسکرا کرجینے والے کو کینسر نے نچوڑ کر رکھ دیا تھا۔شعاع ریزی نے ان کے معدے اَور بدن پر منفی اَثرات مرتب کیے۔علاج بھی بیماری بن گیا۔آخر ایک شام کوٹلی کے ہسپتال میں وہ وہاں چلے گئے جہاں ان کے امی ابو رہتے ہیں۔شاید ماں کو گیت سنایا ہواَور سامنا کرتے ہوئے آنسو چھلکے ہوں۔
اُت ٹھنڈڑی ٹھنڈڑی چھاں وے تھی۔
اُت پانی کی اک باں وے تھی
اُت میری سوہنی ماں وے تھی۔

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply