آج کل کہا جا تاہے کہ آج کی عورت کسی بھی میدان میں مردوں سے پیچھے نہیں ہے،کسی شعبے میں اس کا کردار مردوں کی نسبت کم نظر نہیں آتا،لیکن اگر حقیقت پسندی سے دیکھا جائے تو اسلام کی آمد کے ساتھ عورت کو وہ حقو ق مل گئے تھے ،جنہوں نے عورت کے اندر برابری اور فخر کے احساس کو پیدا کیا اور اسے ناقابلِ تسخیر بنا دیا۔ خواتین نے اس دنیا میں ہونے والی تمام تحریکوں میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اگر عظیم پیغمبروں کے واقعات پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ خواتین کا کردار بہت موثر رہا ہے۔ حضرت ابراہیم (؏) اورحضرت اسماعیل (؏) کی تاریخ جناب سیدہ ہاجرہ (س) کے بغیر نامکمل ہے۔ حضرت عیسیٰ (؏) کا نام جناب سیدہ مریم (س) کے بغیر نہیں آتا۔ ہمارے پیارے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ جناب سیدہ خدیجہ(س) کی قربانی نظر آئے گی۔ اس کے علاوہ جناب سیدہ فاطمہ(س) بھی ہر مشکل میں، ہر جگہ اپنے بابا بزرگوار اور اپنے شوہر نامدار حضرت امام علی(؏) کے ساتھ ساتھ نظرآتی ہیں۔ عورت کسی بھی رشتے میں کبھی اپنے کردار سے کم نظر نہیں آئی بلکہ ہمیشہ اس نے توقع سے بڑھ کر ہی کردار نبھایا ہے۔
اسی طرح کربلا کے واقعات کو زندہ و جاوید بنانے میں بھی اسیران اہل بیت (؏) اور کربلا کے دیگر شہداء کی بیویوں اور ماؤں کا اہم کردار رہا ہے۔ کسی بھی تحریک کے پیغام کو عوام تک پہنچانا بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ کربلا کی تحریک کے پیغام کو عوام تک کربلا کی اسیر خواتین نے پہنچایا ہے۔ جناب سیدہ زینب (س) کے بیمثل کردار اور قربانیوں سے تاریخ کربلا روشن نظر آتی ہے۔ واقعہ کربلا میں صرف عاشورہ میں ہی نہیں بلکہ انہوں نے شہادت امام حسین (؏) کے بعد مختلف مقامات پر اپنا کردارادا کرکے یہ بات ثابت کی ہے کہ حضرت امام حسین(؏) اپنے ساتھ رہتی دنیا تک اپنے کردار سے تربیت کرنے والی مثالی خواتین کو مدینے سے ساتھ لے کر نکلے تھے۔ اس لیے بجا طور پر کہا جاتا ہے کہ:
“حدیث عشق دو باب است کربلا و دمشق یکی حسینؑ رقم کرد و دیگری زینبؑ“۔ عاشورہ کو وجود دینے والے امام کے دلیر ساتھی در حقیقت انہی عظیم ماؤں کی گود کا سرمایہ تھے۔
واقعہ کربلا نے انسانیت کو سرخ رو کرنے کے ساتھ ساتھ اسلامی اقدار کو حیات نو بخشی ہے۔اس عظیم اور بے مثال جنگ میں جہاں پر مولا امام حسین علیہ السلام کے با وفا ،بہادرفرزندان اور اصحاب کے بے نظیر کردار موجود ہیں وہاں پر خواتین کی بے مثل قربانیوں سے انکار نا ممکن ہے، جس کو انسانیت کی تاریخ نے ہمیشہ سنہری حروف میں لکھا ہے۔ ان مثالی خواتین نے باطل کے مقابل اپنے معصوم بچوں کو بھوک وپیاس کی شدت سے بلکتا ہوا دیکھنا گوارا کیا، لیکن دین اسلام کی کشتی کو ڈوبنے نہیں دیا۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں کہ مقصد واقعہ کربلا کو اپنی منزل مقصود تک پہنچانے میں خواتین کربلا کے کئی بے نظیر ولاثانی کردار ہیں۔یہاں پر یہ جملہ لکھا جائے تو مبالغہ نہیں ہو گا کہ حادثہ کربلا میں اگر یہ عظیم خواتین نہ ہوتیں تو حضرت امام حسین علیہ السلام کا مقصد قربانی ادھورا ہی رہ جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت سید الشہدا علیہ السلام نے بہت سے اصحاب کباررضی اللہ عنہم کے مشورے کے برخلاف اپنے ہمراہ اسلامی معاشرے کے لیے نمونہ خواتین کو میدان کربلا میں لائے تھے۔کربلا کی ان بہادرخواتین نے اپنی عمل سے ثابت کردکھایا کہ نواسہ رسول علیہ السلام کربلا میں خواتین کو بے مقصد نہیں لائے تھے۔
کربلا کا واقعہ صرف عراق کی سر زمین کربلا میں ہونے والا ایک واقعہ نہیں ہے، بلکہ کربلا ایک تحریک، ایک حقیقت، ایک مشن اور ایک مقصد کانام ہے کیونکہ خامس آل عبا علیہ السلام کی اس عظیم تحریک کاآغاز 28 رجب المرجب 60 ھ سے شروع ہو ا اور یہ تحریک محرم الحرام کو عصر عاشورا کے ساتھ ختم نہیں ہوئی بلکہ ام المصائب، ثانی زہرا جناب سیدہ زینب سلام اللہ علیہا اور بیمار کربلا، سید السجاد،زین العابدین حضرت امام علی ابن الحسین علیہما السلام کی سربراہی میں کوفہ اور شام کے فاسق، جابر اور ظالم حکمرانوں کے درباروں تک پہنچنے کے ساتھ ساتھ اس انقلاب کی صدا پورے شرق و غرب اور عرب و عجم میں بھی سنائی دی ۔
یہ جناب سیدہ زینب (س) ہی تھیں جن کے خطبوں سے کربلا کی تحریک کو تا قیامت اسی شدید جذبے سے یاد رکھا جائے گا جیسے وہ صدیوں کی بات نہیں‘ کل ہی کا قصہ ہو۔ حضرت زینب ؓ قوت برداشت اور صبر کے اعلیٰ ترین درجے پر فائز تھیں۔ حضرت امام حسین (؏) کی شہادت کے بعد آپ کی تین اہم ذمہ داریوں کا آغاز ہوا تھا جن کو آپ نے کمال کامیابی کے ساتھ نبھایا۔ سب سے بڑی ذمہ داری جناب سجاد (؏) کی تیمارداری اور دشمن سے ان کی حفاظت، دوسری ذمہ داری ان عورتوں اور بچوں کی حفاظت، جو بیوہ ہوچکی تھیں اور بچے یتیم۔ تیسری ذمہ داری کربلا کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانا تھا۔ دم توڑتی انسانیت کو زندہ کرنے کا جو ارادہ حضرت امام حسین (؏) گھر سے لے کر نکلے تھے اس کو انجام تک کردارِ اور گفتارِ زینب (س) نے پہنچایا۔ جناب زینب (س) کی سربراہی میں حضرت امام حسین(؏) کے اہل حرم نے کوفہ و شام کے گلی کوچے میں اپنے خطبوں کے ذریعے یزیدیت کے ظلم کا پردہ چاک کیا اور رہتی دنیا تک ہونے والی کسی بھی سازش کو بروقت بے نقاب کردیا۔ اس لئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ نہ صرف اپنی نسلوں کی تربیت کرنے میں یہ عظیم خواتین باکمال تھیں بلکہ میدان عمل میں بھی ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں