سفرنامہ بہاولپور(2)سنٹرل لائبریری بہاولپور اور بہاولپور میوزیم-محمد احمد

رات کا قیام جامعہ اسعد بن زرارہ میں رہا،صبح  پانچ بجے آنکھ کھلی،چھ بجے جماعت کے ساتھ نماز ادا کی، امامت مولانا اسعد صاحب نے کروائی، قرآن پاک اچھے انداز میں پڑھ رہے تھے اور فجر میں مسنون تلاوت بھی کی، اس بات سے بہت راحت محسوس ہوئی، ورنہ عموماً آج کل آئمہ کرام اس کا اہتمام نہیں کررہے ہیں. فجر کے معمولات پورے کیے، پھر مہمان خانے میں آئے، کچھ دیر بعد مولانا اسعد صاحب تشریف لائے اور ناشتے کا دستر خوان بھی سج چکا تھا، جس میں روایتی کھانوں کے ساتھ ہماری تواضع کی گئی، البتہ مولانا خالد الحسینی کی فرمائش پر  چائے میں پتی بہت تیز کردی گئی تھی، کڑک سے بھی اوپر کی  قِسم کی چائے تھی،مولانا کا فرمانا تھا کہ پتی میں دودھ ڈالا جائے، پھر جو چائے بننی تھی، آپ تصور کریں، ہم نے جیسے تیسے کرکے کپ ختم کیا. میزبان محسوس کرچکے تھے کہ ہم چائے پی نہیں رہے، بلکہ زبردستی معدے میں پھینک  رہے ہیں، انہوں نے صدق دل سے کہا کہ آپ کے لیے الگ چائے بنواتے ہیں، میں نے ان کو سختی سے روک دیا۔
ناشتے سے فراغت کے بعد مولانا خالد الحسینی اور جناب محمود صاحب کھجور کے پودے لگانے یزمان چلے گئے. مولانا اسعد صاحب نے جامعہ کے استاد مولانا امجد صاحب کے ذمہ لگایا کہ وہ مجھے شہر میں موجود تاریخی مقامات کا مطالعاتی دورہ کروائے،مولانا امجد صاحب جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کے فاضل ہیں اور 2001 سے یہاں تدریسی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
گیارہ بجے کے  قریب ہم مدرسہ سے نکلے، ہم سب سے پہلے بہاولپور میوزیم میں آئے، میوزیم کی عمارت شاندار تھی، اندر صفائی ستھرائی کے ساتھ  بہترین نظم تھا۔ جہاں تاریخی ورثہ محفوظ تھا، ریاست بہاولپور کی نایاب اور قیمتی اشیاء کے ساتھ نوابوں کے استعمال آنے والی گاڑیاں اور ملبوسات اور دیگر سامان بھی موجود تھا، اس کے علاوہ قرآن پاک کے نسخے، اسلحہ، سکے، ڈاک ٹکٹ، برتن اور دیگر ثقافتی ورثہ بھی رکھا ہوا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس کے بعد سنٹرل لائبریری بہاولپور آئے، یہ ایک تاریخی لائبریری ہے، جس کا شمار ملک بھر کی بہترین اور عالیشان  لائبریریوں میں ہوتا ہے. یہ لائبریری کئی اعتبار سے منفرد لائبریری بھی ہے. 8 مارچ 1924 میں نواب صادق محمد خان کی تاج پوشی کے موقع پر اس وقت کے وائسرائے ہند نے اس کی بنیاد رکھی. یہ لائبریری اطالوی اور اسلامی طرز تعمیر کا شاندار نمونہ ہے. 88 کنال، دس مرلے کے رقبہ پر پھیلی ہوئی ہے. لائبریری کی تعمیر میں عوام نے اعانت کے لیے ایک لاکھ چندہ دیا، سرکاری ملازمین نے بھی اپنی تنخواہیں جمع کرائیں،سات سال کام جاری رہا، لیکن رقم ناکافی ثابت ہوئی، لائبریری کی تعمیر مکمل نہ ہوسکی، بالآخر بلدیہ بہاولپور نے اس کو اپنی تحویل میں لیا اور یہ عمارت دفاتر کے طور پر استعمال ہونے لگی، پھر قیام پاکستان سے دو سال قبل اس وقت کے وزیراعظم مشتاق احمد گورمانی  نے لائبریری کی اشد ضرورت محسوس کرتے ہوئے  دوبارہ اس عمارت کو بلدیہ واپس لیا اور لائبریری کی تعمیر مکمل کروائی اور اس کا نام صادق لائبریری تبدیل کرکے سنٹرل لائبریری رکھا۔ یہاں ایک لاکھ سے زیادہ کتابیں موجود ہیں، 60 ملازمین کام کررہے ہیں۔اس لائبریری کی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں ممبر شپ دی جاتی ہے، پھر آپ کتاب اپنے گھر پڑھنے کے لیے لے جاسکتے ہیں، ممبران کی  تعداد پندرہ ہزار سے زائد ہے، اس کے علاوہ بڑی خوبی یہ ہے کہ یہاں محققین حضرات کے بیس کیبن بھی قائم ہیں، جہاں ان کو ہر سہولت میسر ہے، آپ آرام اور سکون کے ساتھ ریسرچ کرسکتے ہیں، جس کا کوئی معاوضہ نہیں. لائبریری میں داخل ہوتے استقبالیہ کاؤنٹر ہے، جہاں ضروری معلومات ملتی ہے اور وہاں کیٹلاگ بھی موجود ہے۔یہ لائبریری ہر اعتبار سے ایک شاندار لائبریری تھی، تمام جدید سہولیات اور آلات سے آراستہ ہے، کتابیں سلیقے سے  رکھی ہوئی تھیں ، صفائی کا نظام اعلیٰ تھا۔ درمیانی ہال میں مطالعے کے لیے کرسیاں موجود تھیں، باقی بالائی منزل سمیت اطراف کے ہالوں میں کتابیں موجود تھیں۔لائبریری دیکھ کر دل کو سرور محسوس ہوا کہ ایک دن ہمارا معاشرہ، بالخصوص نوجوان کتابوں سے ضرور جڑے گا۔
جاری ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply