گم شدہ خدا کا مشترکہ شہر/مسلم انصاری

پچھلے کئی ہفتوں سے وہ مٹی پھرول رہا ہے مگر خدا مٹی میں کہیں نہیں ہے!

مٹی میں مردہ مکوڑے، زندہ کیڑے، کفن کی باقیات، تھیلیاں، کوڑا، ہڈیوں کا چورا، کھانے کی اشیاء کے ذرات، سوکھی کلیاں، پتے اور نمی ہے مگر خدا نہیں ہے!

خدا کی تلاش خدا کے گم ہونے پر شروع ہوئی
ایک خدا اس کے باپ کا تھا جس نے اس کے بچپنے میں روزگار کا حکم دیا اور اس کا باپ تکمیلِ حکم میں کئی کئی ماہ اس سے اور اس کی ماں سے دور رہا جبکہ اس کی ماں کا خدا اور تھا
اس کی ماں نے بتایا کہ اچھے کھانے پکانا، سبق پڑھانا، اسکول جاتے وقت ٹفن بھرنا، اجلے کپڑے پہنانا، آنکھوں میں سرمہ اور سر پر کنگھی کرنا خدا نے ہی سکھایا ہے
ماں کا خدا یونہی دھنی رہتا مگر کچھ مہینوں پہلے جب اس کی ماں مر گئی تو وہ بہت مایوس ہوا اور اس نے اپنے باپ سے پوچھا
“ماں کہاں ہے؟”
“وہ خدا کے پاس چلی گئی!”
حالانکہ وہ خود اپنی ماں کو مٹی میں اتارنے ساتھ گیا تھا مگر وہاں خدا نہیں تھا، اب اس جواب کے بعد سے وہ گاؤں کے قبرستان میں ہے
اس نے کئی بار مٹی پھرولی ہے، گورکن پہلے پہل اس سے خائف رہے، یہاں تک کہ ان میں سے ایک نے پولیس کو خبر دی
“ایک کم عمر لڑکا خدا کی تلاش میں قبر کھودتا ہے”
پولیس نے اس سے پوچھ گچھ کی تو وہ بولا :
“ماں کے خدا نے ماں کو اپنے پاس بلا لیا ہے اب وہ خود مل نہیں رہا”
پولیس کے جوان نے ہنستے ہوئے کہا
“خدا بہت بڑا ہے وہ ایسی تنگ جگہ میں نہیں مل سکتا اور اس گاؤں میں تو کبھی نہیں”
“کھلی اور بڑی جگہ کونسی ہے؟”
“شہر! شہر میں سب ملتا ہے! خدا بھی وہیں ملے گا!”
اب گورکن مطمئن ہیں، وہ لڑکا خدا کی تلاش میں شہر جا رہا ہے!

جب سے وہ شہر پہنچا ہے تب سے زندگی بہت تیز ہے، بیشتر لوگ نہ تو سوال جتنے وقت کے لئے رکتے ہیں، نا ہی درست پتہ سمجھاتے ہیں، کچھ ایک ہنستے ہیں، ایک شخص نے سوال کے جواب میں تضحیک آمیزی کی اور اپنی جیبیں ٹٹولتے ہوئے کہا :
“اوہ ہو! ابھی تو تھا جیب میں، شاید کہیں گر گیا ہے!”
اور آگے بڑھ گیا
اس بات پر وہ پریشان تو ہوا کہ گاؤں میں مجھے کہا گیا خدا تنگ جگہ میں نہیں آ سکتا! پھر قبر سے تو جیب اور بھی تنگ ہے! اس نے سوچا ہوسکتا ہے شہروں میں خدا جیب میں رہتا ہو!
مگر پھر ایک شخص اس کے پاس رک گیا اور اس نے پوچھا “کیا تلاش کر رہے ہو؟”
“خدا!”
وہ شخص مسکرایا، اس نے جیب سے ایک اور ٹوپی نکالی اور اپنی ٹوپی ٹھیک کرتے ہوئے اسے تھما دی اور کہا :
“یہاں آگے کی سمت کچھ دور خانقاہ میں ایک پیر خدا کو جانتا ہے وہاں چلے جاؤ!”
وہ بہت خوش ہوا، تیزی سے آگے بڑھا، ہجوم میں داخل ہوا اور مشکل سے آگے پہنچا، جب وہ پیر کے قریب ہونے لگا لوگوں نے اسے پکڑ کر نیچے بٹھادیا، وہ پھر اٹھا، اسے پھر سے بٹھا دیا گیا،
اس نے کچھ دیر سارا منظر سمجھا اور پھر خود سے کہا : “اس پیر کا خدا اِسے اوپر اور ہمیں نیچے بٹھاتا ہے، یہ خدا برابری والا نہیں ہے! ایسا خدا تو ہو بہو میرے باپ کے پاس بھی تھا، میری ماں نے ہمیشہ نیچے بیٹھ کر کھایا اور میرے باپ نے اوپر، یہ نہیں چاہئے!”
وہ باہر آ گیا

کتنے ہی دن گزر چکے، اتنا بلند و بالا شہر، لاکھوں افراد، پر کسی ایک کے پاس بھی درست خدا کا پتہ نہیں؟
سب کا اپنا اپنا اور الگ ہے!
کوئی اسے کہتا ہے “خدا کی تلاش مت کرو! یہ تمہارے اندر ہے، سکون سے رہو!”
جب کہ اس کے جسم پر تو کپڑے ہیں، ان کپڑوں کے اندر پیٹ ہے، پیٹ کے اندر بھوک ہے، بھوک سے تو پیٹ دن بدن سکڑ رہا ہے، پہلے پسلیاں نہیں دکھتی تھیں، اب دکھتی ہیں، پیٹ چھوٹا ہو رہا ہے، اور چھوٹی جگہ میں خدا نہیں آتا، پولیس والے نے یہی بتایا تھا، سو یہ غلط ہے، اندر خدا نہیں ہے، خدا شہ رگ کے پاس ہے، تو میں اپنی شہ رگ اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتا، یعنی میں اپنا خدا خود ہی نہیں دیکھ سکتا؟ اب یہ کیسی بات ہے!
وہ بڑبڑا رہا ہے، مستقل چل رہا ہے، اب وہ لڑکے سے جوان ہوچکا ہے مگر یہ شہر خدا کا پتہ نہیں بتاتا۔

ایک دن کی بات ہے جب اس نے بہت تیزی سے گزرتی ہوئی عورت کو کہا :
“خدا ۔۔۔۔۔۔۔”
عورت نے جلدی سے پوری بات سنے بغیر آگے کی طرف اشارہ کیا اور بولی “وہ رہا خدا کا گھر!”
خدا گھر میں رہتا ہے؟ شکر ہے گھر پتہ ملا!
خدا کے گھر کا دروازہ کھلا ہے، گھر خالی ہے، کھانے کو کچھ نہیں ہے بس نلکوں میں بہت سا پانی ہے، یعنی ماں نے جو بتایا تھا کہ جہاں پانی ہو وہاں کسی نا کسی کی موجودگی ضرور ہوتی ہے، ضرور یہیں کہیں خدا ہوگا، شاید باہر گیا ہو، ابھی آ جائے گا!
وہ دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا
پھر کچھ وقت بعد ایک بوڑھا آیا، پھر کچھ جوان، کچھ اور بوڑھے اور ان کے ساتھ کچھ گنتی کے بچے، آخر میں ایک اور فرد آیا، وہ سب سے آگے کھڑا ہوا، سب اس کے پیچھے، وہ کچھ دیر جھکے، لیٹنے جتنا زمین سے جا لگے، پھر کھڑے ہوئے اور آخر میں بیٹھ گئے، وہ یہ سب دیکھتا رہا، وہ سب عام سے انسان تھے، ان میں اگر کچھ بھی مختلف ہوتا تو وہ سمجھتا یہی خدا ہے! سو وہ بیٹھا رہا!

لوگوں سے سوال کرنا اب وہ چھوڑ چکا ہے۔
سو بس چپ چاپ خدا کے گھر میں خدا کے آنے کا انتظار کرتا ہے، دن، ہفتے، مہینے اور کئی موسم بیت چکے، وہ مسجد میں ہی ہے، ہر کسی سے معلوم کرنے پر اسے یہ تو پتہ چل چکا ہے کہ “ہاں! یہی خدا کا گھر ہے!” سو وہ رکا ہوا ہے، اس کی امید زندہ ہے، ظاہر ہے ہونی بھی چاہئے کہ اپنے گھر کی جانب تو ایک نا ایک دن ہر کوئی لوٹ کر آتا ہے! خدا بھی آئے گا! جب وہ آئے گا تب وہ خدا سے ضرور پوچھے گا
“ماں کو کیوں لے گئے؟ اتنے دن کہاں تھے؟ سب کے پاس تمہارا پتہ الگ الگ کیوں ہے؟ میری سسکیاں کیوں نہیں سنیں؟ اتنے اتنے دن اپنے گھر سے باہر کیوں جاتے ہو؟ جلدی کیوں نہیں لوٹ آتے کہ کوئی تو تمہارے گھر میں تمہارا انتظار کررہا ہوگا!”
پر وہ یہ سب زور سے یا چیخ کر نہیں بول سکتا کیونکہ اب وہ جوان سے بوڑھے ہونے کے سفر کی طرف ہے!

پھر ایک سہ پہر کچھ ہوا۔
وہ مسجد میں سویا ہوا تھا کہ اس کی آنکھ شور سے کھل گئی، اس نے دیکھا کچھ لوگ امام مسجد سے جھگڑ رہے ہیں، وہ اٹھا اور ان کے پاس پہنچ گیا، اس نے ان کی باتیں سنیں، ایک آدمی چلاتے ہوئے امام مسجد سے کہ رہا تھا :
“کیسے انسان ہو! تم نے اس منصب پر ہوتے ہوئے مخالفین کا ساتھ دیکر زیادتی کی، تم نے غلط گواہی دی، اپنا ضمیر اور ایمان بیچ دیا، ارے تم نے تو خدا بیچ دیا!”
جب اس نے یہ سنا تو وہ زمین پر گر گیا، اس کے پیروں سے زمینی گرفت گم کردی، لوگوں نے اپنا جھگڑا چھوڑ کر اس کی طرف دیکھا پر اس نے امام کا گریبان پکڑ لیا
“تم نے خدا بیچ دیا؟؟ کیسے؟؟ کب؟؟ کیوں بیچا؟؟ تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا کہ تمہارے پاس خدا ہے؟ میں ہی خرید لیتا! اتنے سالوں سے میں یہاں خدا کے لئے ہی تو تھا! تمہیں پتہ بھی تھا، آخر تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں؟ تم نے خدا کو بیچ دیا تبھی کتنے ہی سالوں سے وہ یہاں واپس اپنے گھر نہیں آ پا رہا، اس کے انتظار میں میں بوڑھا ہو گیا ہوں! مجھے بتاؤ کسے اور کب بیچا؟”
وہ رونے لگا
اس کی آواز خدا کے گھر میں گونج رہی تھی، پھر وہ بچوں کی مانند مسجد کی چیزیں ٹٹولنے اور چھونے لگا
وہ بلکتے ہوئے کہ رہا تھا : “ہائے خدا! انہوں نے تجھے بیچ دیا، میری زندگی غارت گئی، تیرا گھر خالی ہے، تو جانے کہاں ہوگا! اب میں تجھے اور کہاں تلاشوں؟ جانے تو ٹھیک ہے بھی کہ نہیں؟ تجھے بیچا نہ گیا ہوتا تو تو ضرور ایک دن واپس آتا اور مجھے ملتا!”
اس کا رونا چیخوں پھر سسکیوں میں بدل گیا
وہ مسجد سے 17 سال 13 دن اور 19 گھنٹے بعد باہر نکل آیا

اب وہ بہت بوڑھا ہوچکا ہے
اس کا جسم ہر طرف سے لٹک گیا ہے، نچلا ہونٹ بھی بولتے ہوئے اوپر کے ہونٹ سے ایسے ہی نہیں ملتا جیسے اسے خدا نہیں ملتا، شہر کا ہر فرد اس سے واقف ہے، قریب سبھی لوگ جانتے ہیں کہ اگر اس کے پاس سے گزرے تو وہ پوچھے گا “خدا کہاں ہے؟” اور اس کا جواب پورے شہر کے پاس نہیں ہے تو اسے کون بتلائے؟ پاگل سمجھ کر ہنستے ہیں، دور سے گزرتے ہیں اور کن انکھیوں میں جملے کستے ہیں، پھر بھی کچھ اوباش لڑکے اس کے پاس سے گزرتے ہوئے خود ہی پوچھتے ہیں “خدا ملا؟” وہ کہتا ہے “نہیں!” تو وہ آگے سے پوچھتے ہیں “کوئی آثار؟” اس پر بوڑھا چپ ہو جاتا ہے!
اس بوڑھے کو چپ کروانے کا یہی واحد حل شہر کے پاس ہے!

عجیب سی بات ہے
جتنا یہ شہر اس بوڑھے سے واقف ہے اتنا ہی بوڑھا بھی اس شہر کے ہر ایک فرد کو جانتا پہچانتا ہے، کوئی نیا راہی یہاں آن بھٹکے تو وہ بوڑھا تیزی سے اس کی سمت لپکتا ہے کہ شاید اس کے پاس نئی خبر ہو! اس نئے انسان کو خدا کا پتہ ہو!
ایسا ہی ایک دن صبح سویرے ہوا جب بوڑھا لاری اڈے میں نئے لوگوں کی تلاش میں تھا، ایک جوان لڑکا لال آنکھیں لئے لڑکھڑاتا ہوا بس سے نیچے اترا تو بوڑھا اس کی جانب قریب دوڑتے ہوئے پہنچا اور اس کی کلائی تھام لی، جوان جانے کیوں پہلے سے ہی بے سدھ اور ٹوٹا ہوا تھا کہ چپ چاپ کھنچتا چلا گیا، بوڑھا اسے بھیڑ سے دور لے جا کر بولا
“خدا کہاں ہے؟”
جوان نے آنکھیں موند لیں، جب کھولیں تو دو موٹے آنسو اس کی آنکھوں سے لڑکھ گئے، وہ بولا : “مجھے نہیں معلوم! میں تو خود اسے ڈھونڈنے آیا ہوں!”
بوڑھا پہلی بار چونکا
یہ ہی وہ پہلا فرد تھا جس نے اپنے منہ سے کہا “میرا بھی خدا کھویا ہے!” وگرنہ بوڑھا جانتا تھا (کھویا تو پورے شہر کا خدا ہے بس اقرار کوئی نہیں کرتا!)
“تمہارا خدا کہاں تھا؟”
بوڑھے نے اس کے کان میں سرگوشی کی
“جب میری بیٹی پیدا ہوئی تھی تب مجھے کئی لوگوں نے کہا تھا کہ تمہاری بیٹی کی آنکھیں شفاف اور پر نور ہیں مانو ان میں خدا دکھتا ہے”
جوان نے رونا روکنے کی پوری کوشش کی
“پھر؟” بوڑھا فوراً بولا “تمہاری بیٹی کہاں ہے؟”
اب جوان رو پڑا، اس نے دل چیر دینے والی چیخ کے ساتھ کہا “میری بیوی میری بیٹی کو لیکر کسی اور کے ساتھ چلی گئی! جب وہ اپنے آشنا کے ساتھ بھاگ رہی تھی تب میرا خدا اس کی گود میں تھا!” اور جوان بوڑھے کے گلے سے جا لپٹا
“باباااا، میں بھی خدا ہی تلاش کررہا ہوں!”

اب وہ دو ہیں۔ دور سے آتے پہچانے جاتے ہیں، ایک بوڑھا ہے ایک جوان ہے، دونوں شہر بھر میں کسی خدا کی تلاش میں ہیں، کسی نے جوان کو مشورہ بھی دیا تھا کہ کسی لکھاری کے پاس جاؤ اور اسے کہو “خدا کی گمشدگی پر تحریر یا پوسٹ لکھ دے!” اخباروں میں خدا کی گم شدگی کی خبریں چھپواؤ، ٹی وی پر چلواؤ، گلے میں لکھ کر ڈالو، تاکہ ممکن ہے کسی دن خدا کی نظر پڑ جائے اور وہ تمہیں آ ملے!
بوڑھا تو اس طنز کو سمجھتا تھا مگر جوان نہیں، سو وہ دونوں ایک قلم کار کے پاس گئے، قلم کار نے کہانی لکھنے، نیوز رپورٹر نے خبر بنانے پر پیسے کا مطالبہ کیا، جس پر دونوں نے کہا : “پیسے تو نہیں ہیں، جو تھے گزر بسر میں ختم ہو گئے، اور پیسے کہاں سے ملتے ہیں؟”
آگے سے مضحکہ خیز جواب ملا
“پیسے تو خدا ہی دیتا ہے! اور تمہارا گم چکا ہے!”

خدا گم چکا ہے!
یہ شرطیہ بات ہے! بڑھئی سامان بناتا ہے خدا نہیں، سیاست دانوں تک پہنچنا ایسے ہی نا ممکن ہے جیسے خدا تک رسائی، پھر بھی وہ روز کسی نا کسی کو روکتے ہیں، کہیں جا گھستے ہیں، ان کا سوال ہر پیشے سے جڑے فرد کے دماغ پر گھنٹے کی طرح بجتا ہے، اور اس سوال کا جواب اچھا وقت ہے جو کبھی نہیں آتا، پھر بھی وہ اپنی شناخت رکھتے ہیں، اپنے سوال سے ان کی پہچان برقرار ہے، ظاہر ہے اگر آپ نامور یا پہچان رکھتے ہیں تو آپ ایک نا ایک دن ضرور ہر ایک جگہ رسائی پا لیں گے۔
ایسے ہی وہ بوڑھا پہلے ایک تھا پھر دو ہوئے، پھر تین، آٹھ، اٹھارہ اور ستائیس، یہاں تک کہ ان سے وہ عورتیں بھی آ جڑیں جس کی کفالت کرنے والا گم نام شخص مرگیا تو انہیں لگا ان کا بھی خدا گم گیا ہے، اس ہجوم میں وہ بھی شامل ہیں جن کی کوئی دعا نہیں سنی گئی، بے روزگار جوان، اپاہج اور سطحی لوگ بھی اس گروہ کا حصہ ہیں، وہ رفو کرنے والا بھی جس کا اپنا دکھ کوئی نہیں سیتا، وہ خواجہ سرا بھی جن کے ہاتھ نہیں ہیں تاکہ وہ تالی پیٹیں اور وہ عورتیں بھی جنہیں خدا ترسی کے نام پر کونوں کھدروں میں لے جانے کا اشارہ کیا جاتا ہے۔
اب بھیڑ زیادہ ہے، سوال جوں کا توں باقی ہے مگر اس بھیڑ کو جوان لڑکا سنبھالتا ہے، یہ بھیڑ دن میں شہر کی مختلف جگہوں میں بٹ جاتی ہے، رات میں ایک مخصوص مقام پر جمع ہوکر وہ سب ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں
“کیا بنا؟”
پر بوڑھا اس ہجوم میں شامل نہیں ہے!

بوڑھا کہاں گیا؟ یہ بہت بے معنی سی بات ہے مگر اس کا جواب فقط ایک نرس کے پاس ہے جو اس واقعے کی چشم دید گواہ ہے۔
وہ بتاتی ہے، ایک روز بوڑھا جنرل ہاسپٹل میں داخل ہوا، اس نے کچھ لوگوں کو ایک ڈاکٹر سے بدتمیزی کرتے ہوئے دیکھا جو سرجن سے کہ رہے تھے “ہمارا قریبی تمہاری غفلت اور دیری کی وجہ سے مر گیا تم قصور وار ہو!”
اس سرجن نے جواب میں تحمل سے کہا “نہیں، ہرگز نہیں، یہ بس خدا کی مرضی تھی!”
اس پر وہ بوڑھا بیچ جھگڑے کود کیا اور اس نے سرجن سے پوچھا “کہاں ہے؟” ڈاکٹر نے ہڑبڑاہٹ میں سوال کی نوعیت سمجھے بغیر سرد خانے کی طرف اشارہ کیا (کہ فوت ہوجانے والا مریض اس کمرے میں ہے) حالانکہ یہ سوال خدا کے بارے میں تھا!

بوڑھا ایک یخ بستہ کمرے میں داخل ہوا، جہاں بہت سے گم سم افراد لیٹے ہوئے تھے، اس نے ان سب میں خدا کو تلاش کیا اور اسی اثناء میں وہ نرس اندر داخل ہوئی جو یہ قصہ بتاتی ہے
“تم یہاں کیا کررہے ہو!”
“خدا کی تلاش!”
“ہاہ! ٹھیک ہے لگے رہو! یہ سب بھی خدا کے پاس گئے ہیں ان ہی سے پوچھ لو خدا کہاں ہے!”
“پوچھا ہے مگر یہ بول نہیں رہے!”
“پاگل بوڑھے! مردے کبھی نہیں بولتے!”

جب نرس چپ ہوئی تو بوڑھا یک دم سکتے میں چلا گیا، اسے یاد آیا، بچپنے میں جب وہ اپنی ماں سے کہتا تھا کہ “خدا سے کہیں بابا کو کام سے چھٹی دیکر گھر بھیج دیں” تو اس کی ماں اس کا دل رکھنے کے لئے آسمان کی طرف سر اٹھاتی اور کہتی “خدا صاحب اس بچے کے ابا کو کب بھیجیں گے؟” اور وہ اپنی ماں سے پوچھتا “خدا نے کیا جواب دیا؟” وہ مسکراتے ہوئے کہتیں “خدا نہیں بولتا بچے!”
اور اب نرس نے کہا ہے کہ مردے بھی نہیں بولتے!

Advertisements
julia rana solicitors london

بوڑھا اسی لمحے سرپٹ دوڑا، پہلے ہسپتال سے باہر نکلا، پھر اس محلے سے، پھر چوک چوراہے پر کچھ لوگوں کو شہر کی باہری سمت بھاگتا ہوا دکھائی پڑا، آخر میں وہ شہر سے باہر نکل گیا، اُسی گاؤں گیا، قبرستان میں پہنچا، ایک بوسیدہ قبر تلاش کی اور اس کے پہلو میں لیٹ گیا!

Facebook Comments

مسلم انصاری
مسلم انصاری کا تعلق کراچی سے ہے انہوں نے درسِ نظامی(ایم اے اسلامیات) کےبعد فیڈرل اردو یونیورسٹی سے ایم اے کی تعلیم حاصل کی۔ ان کی پہلی کتاب بعنوان خاموش دریچے مکتبہ علم و عرفان لاہور نے مجموعہ نظم و نثر کے طور پر شائع کی۔جبکہ ان کی دوسری اور فکشن کی پہلی کتاب بنام "کابوس"بھی منظر عام پر آچکی ہے۔ مسلم انصاری ان دنوں کراچی میں ایکسپریس نیوز میں اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply