خاموش تماشائی/یوحنا جان

نہ تم نے مجھے پہچان دی اور نہ تم نے مجھے خریدا بلکہ یہ تم پر میرا احسان ہے کہ میں نے تمھیں ایک شناسائی دی۔ احساس کا ایک نام دیا اور چُپکے سے بات کرنے کا سلیقہ دے کر تمھیں سرگوشی میں بتایا۔ افسوس تم نے بدنام زمانہ مجھے کیا۔ حالانکہ میں نے تم کو پہچان دلوائی ، میں نے فطرت سے ناطہ جوڑا ، میں نے تمھیں خاک سے خاص بنایا۔ آج تم ہی مجھے آنکھیں دکھاتے ہو کیوں ؟ اپنائیت کی بجائے بیگانگی ، تعلق کی بجائے دُوری ، محبت کی جگہ نفرت ، اطاعت کی جگہ نافرمانی اور رجائیت پسندی کی بجائے قنوطیت کا لبادہ پہن کر اُس راہ پر گامزن ہو چکے ہو جس کی سمت ہے نہ تعین ہے۔
میں نے کئی بار تمھیں موقع دیا بلکہ باربار دیا۔ سرگوشی میں آگاہی ، تنہائی میں غور ، جگہ جگہ مختلف کنایوں میں اشارہ ، راہ چلتے خیال ، مشکل میں حل ، بھوک میں تل ، پیاس میں پانی اور اندھیرے میں اعتبار دیا۔ تم نے پھر بھی میری طرف توجہ نہ کی کیوں ؟ پتا نہیں تم نے کس زہر کا کنواں خریدا ہے؟ نصیحت میری ، موقع دیا میرا ، ساتھ میرا مگر کس خبیث کے ہاتھ پہ تمھارا ہاتھ آگیا جو نفرت کی بھینٹ چڑھ گیا۔

اے انسان ! تم نے میرا ساتھ کیوں چھوڑا ؟ ہر موڑ پر تم نے رسوا کیا اور حد سے گزر گئے۔ میں پھر بھی خاموش تماشائی تمھارے کیے پر خاموشی سے پردہ ڈالا۔ میں نے ٹوٹے ہوئے رشتہ کو جوڑنے کے لیے تمھیں کئی بار رونقیں دکھائی کہ شاید تم سمجھ جاو کہ میں کون ہوں اور کیوں ایسے مواقع دیے۔
میں نے تم کو بارہا بہاریں دیں۔ پھول ، پھل ، کرشمے دکھائے۔ معجزے پہ معجزہ کرکے آگاہی دی ۔ نہ جانے کس بات پر تم ابھی تک ناواقف اور مایوسی کے بادل میں تلاش گم شدہ ہو۔ جہاں پر تم کو اپنا سایہ بھی نہ مل پایا ہے میں حاضر ۔

اے رشوت کے مارے ! تم کو اس نے بدنام زمانہ کیا اور شکوہ کرنے کے لیے میرا نام یاد آتا ہے حالانکہ میں نے نہ کہا اور نہ کرنے کا حکم دیا۔ جو میں نے ابتدائے عالم سے کہا اُس کو قبول کرتا ہوں اور اقرار کرتا ہوں، اس کی ذمہ داری میری ہے لیکن جو تم سمجھ بیھٹے ہو اس کو ہرگز میرے نام سے منسوب نہ کرو میں اس کی ذمہ دار نہیں ہوں۔
تم نے مجھے مفت میں بدنام کیا ہے۔ میرے جذبات کو ٹھیس دی ۔ ایک دفعہ نہیں، ایک دن میں کئی بار ۔ میری وفا دیکھو میں تمھارے ساتھ ساتھ ہوں۔ تم کو خواب میں آگاہی ، جاگتے وقت احساس و جذبات کے رنگ میں ملتا جاتی ہوں۔ تم نے تب بھی نظر انداز کیا میں چُپکے سے دیکھتی ہوں۔
میری برداشت دیکھو جب بھی میرا ساتھ مانگا عطا ہوا۔ فوراً حاضر ہو کر تمھیں نصیحت کی ۔ اس سے بڑی دلیل اور کیا ہے ؟ جن کو تم اپنا اپنا کہتے ہو وہ ہی تمھیں ویران میں چھوڑ آتے ہیں اور پلٹ کر بھی نہیں دیکھتے۔ میں وہاں بھی تم کو ساتھ پہلو میں ملوں گی۔
میں نے تمھارے کالے کرتوت پر پردہ ڈالا لیکن جن کو تم اپنا ہونے کا نام دیتے ہو انھوں نے ہی تم کو راز دان نہ رہنے دیا۔

رشوت لیتے وقت تم کہتے ہو چُپکے سے دراز میں رکھ دو ، بائیں ہاتھ سے ایسے پکڑاو کے دوسرے کو بھی معلوم نہ ہو۔ میری جیب میں بغیر بولے ڈال دو تاکہ کوئی دیکھ نہ لے۔ ان سب میں تم نے مجھے زمانہ کے بدنام کردار دیا۔ اکثر اوقات پوچھا بھی گیا کہ تم کون ہو اور کس کو جانتے ہو ؟ لیکن میرا نام نہ لیا۔ مجھے اجنبی اور بیگانہ قرار دیا۔ تب بھی خاموش تماشائی بن کر میں نے برداشت کیا۔ اب بھی اس انتظار میں ہوں کہ شاید تم میری قدر جان لو۔

کاش تم اپنی زبان سے اس وفاء کا نام یاد رکھتے اور حالات کا سامنا کرتے۔ جو تم کر رہے ہو یہ زلیخا نے یوسف سے کیا مگر وہ پھر بھی بچ نکلا اور زلیخا کو منہ کی کھانی پڑی۔ تم نے کتاب کے اوراق دائیں سے بائیں تو کر دیے پر اپنا ستیاناس کیا۔ کاش تم سمجھ کر میری طرف توجہ کرتے ، نظر میں نظر ملا کر بات کرتے، مجھ سے ہاتھ ملاتے اور مری وفاء کا اقرار کرتے۔ کتاب کے آغاز میں میرا نام درج تھا تم نے لینا گوارا نہ کیا۔ ہر ورق پہ میری جھلک اور صورت تھی تم نے پلٹ کر نہ دیکھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مقصد بھی کھو گیا اور معانی بھی۔

آج ہر طرف ایک ہی ردعمل ملتا ہے۔ ازل کھو گیا ساتھ ابد بھی ، رنگ بھی کثافت بھی ، اب بھی وراثت بھی ، حق بھی سچ بھی ۔ افسوس اے آدم کی اولاد تم میں انسانیت کا مادہ بتدریج نفرت میں بدل گیا۔ وہ زبان اُوڑھ لی جو بدی سے آلودہ ، انا سے لبریز ، گناہ کا بوجھ ، ہٹ دھرمی کی چال ، بے ادبی کا لبادہ ، گندگی کا پرچار ، سُستی کا بازار ، تفریق کی چال اور تقسیم کی سرکار کو لے لیا۔ اتنا کچھ ہونے کے باوجود میں خاموش تماشائی تمھارا کردار دیکھنے میں مگن اور تمھاری اس چال میں حد کیا ہے دیکھی ۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یاد کرو تم یاد کرو ۔۔۔ اے سُننے اور دیکھنے والو! ان باتوں پر دھیان لگاو میں تم کو یاد کروا کر اپنے ضبط کا جواب اور آگاہی دینے کی کوشش کر رہی ہوں۔ اس بات کو تم جان لو عذاب الہٰی سے بچ جاو میری پہچان کر لو ، میرے نام سے واقف ہو جاو۔ میں زندگی ہو۔
میں اس رب کی امانت ، تم سب کی ضمانت ہوں۔ عقل و دانش کی علامت ، روشن کی دلیل ، اس زمین پر قلیل ہوں۔ میرے معانی تو کچھ نہیں لیکن جو مجھ سے جان پہچان کر لیتا ہے اس کو بامعانی بنا دیتی ہوں۔ میری اہمیت اُس صفر کی مانند ہے جو بذات خود کچھ بھی نہیں لیکن جب کوئی مجھے درست سمت میں اپنے ساتھ لگا لیتا ہے اس کی قیمت دُگنی کر دیتی ہوں۔ جس کے کان ہوں ہو سُن لے ، جس کی آنکھ ہے وہ دیکھ لے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply