کچھ دلچسپ مطالعاتی یادیں(1)-ٍ علی ہلال

اپنے والد کے ساتھ بیتے ہوئے ایام کی یادیں تازہ کرتے ہوئے عمربن لادن لکھتا ہے کہ وہ دوسال کے تھے جب ان کے والد نے دوسری شادی کی۔ جب چار برس کے ہوئے تو والد نے تیسری شادی کی اور جب ان کی عمر چھٹے  برس میں داخل ہوئی تو ابو چوتھی خاتون بیاہ کر گھر لائے۔ یہ تمام رشتے ان کی امی نجوی منتخب کرکے لائی ہوئی تھیں۔

ان کے والد عام زندگی میں نہایت متواضع اور سادگی پسند تھے۔ وہ سادہ کھانا پسند کرتے تھے۔ جدہ میں ہمارے چار منزلہ عالیشان گھر میں چاروں بیویاں رہتی تھیں۔ کسی کے گھر میں صرفی سیٹ یا کرسی رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ ابو گھر میں ائیر کنڈیشن لگانے کے بھی مخالف تھے۔

گھریلو زندگی میں روارکھی جانے والی سادگی کے برعکس ان کے والد گھوڑوں اور گاڑیوں کے دلدادہ تھے۔ وہ اپنی وسیع دولت کا بڑا حصہ اعلی ترین عربی النسل گھوڑوں اور نئے ماڈلز کی یورپی گاڑیوں پر خرچ کرتے تھے۔

انہوں نے یہ عشق بیت کم عمری میں بچوں کے دل ودماغ میں بھی ڈالی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ پانچ برس کی عمر میں انہیں پہلی مرتبہ گھوڑے کی پیٹھ پر سوار کرا دیا گیا۔

والد کو دو چیزوں سے پہچانا جاتا تھا۔ مملکت میں وہ شاہی خاندان کے باہر واحد انسان تھا جسے گاڑی پر سیاہ شیشے چڑھانے کی اجازت تھی۔ دوسری چیز ان کی تیز رفتاری۔ وہ بڑے جنونی انداز میں گاڑی ڈرائیو کرتے تھے۔

سعودی عرب سے سوڈان منتقل ہونے کے بعد والد کو وطن کی یاد تو ستاتی ہوگی مگر اس سے کہیں زیادہ وہ اپنے عربی النسل گھوڑوں کو یاد کرتے تھے۔ سعودی عرب کے قانون کے مطابق عربی نسل کے کسی گھوڑے کو مملکت سے باہر لیجانے کی اجازت نہیں ہے جس کے باعث یہ گھوڑے وہاں رہ گئے۔

مئی 1996ء میں سوڈان سے افغانستان روانگی سے قبل سوڈانی حکومت نے والد کو پہلے سعودی حکومت کے حوالے کرنے کی کوشش کی ۔مگر سعودی حکام کو اندازہ تھا کہ انہیں وہاں جنگی ہیرو کی حیثیت حاصل ہے۔ دلوں پر راج کرنے والے ایسے ہیرو کو جیل میں رکھنا خطرے سے خالی نہیں تھا جس کا رسک مملکت نے نہیں لیا۔
سوڈانی ذمہ داروں نے امریکی حکومت کو حوالگی کی پیش کش کردی۔ مگر قانونی پرابلم یہ پیدا ہوگیا کہ امریکی حکومت کی جانب سے اس زمانے میں ان کے خلاف کوئی ایسا حکم جاری نہیں ہوا تھا جس کی بنیاد پر انہیں حراست میں لیا جاسکے۔ اس قانونی رکاوٹ کے باعث وہ امریکہ کے حوالے نہیں ہوسکے۔
کچھ دیگر حکام نے انہیں اس کی خبر کردی تو انہوں نے بوریاں بستر گھول کیا اپنے بیٹے اور چند قابل اعتماد مشیروں کے ساتھ دو طیارے لیکر افغانستان کا رخ کرلیا۔

افغانستان پہنچنے پر ہمارا استقبال ایک افغانی نور اللہ نے کیا۔ جن کے چہرے پر میرے والد کو دیکھ کر ایسی خوشی پھیل گئی جیسے اس کی ملاقات برسوں سے اپنے بچھڑے ہوئے بیٹے سے ہوئی ہو۔ مجھے اپنے والد کی یہ بات یاد آگئی کہ پشتون دنیا بھر میں سب سے مہمان نواز قوم ہیں۔

ملانور ائیرپورٹ میں بھیڑ کو چیرتا ہوا بڑی تیزی سے ہمیں گاڑیوں تک لے گیا۔ ان کے پاس ڈبل کیبن گاڑیاں کھڑی تھیں۔ ملانور کی گہرے سرخ کلر کہ ڈبل کیبن گاڑی تھی۔ جس میں وہ اگلی سیٹ پر ڈرائیور کے ساتھ بیٹھ گئے ۔ میرے والد ان کی پچھلی والی نشست پر بیٹھ گئے اور میں برابر والی سیٹ پر ۔ ان کا ڈرائیور بہت نہال تھا۔ وہ سٹیئرنگ سنبھال کر سگریٹ کے کش لگا رہا تھا اور ساتھ میں گنگنا رہا تھا۔

راستے میں میرے والد نے اس سے میرا تعارف کروایا۔ ملا نےمیرے چہرے پر نظریں گاڑتے ہوئے بڑے غور سے میرے نقوش کا جائزہ لیا۔ اور پھر پاپا سے پوچھا کہ یہ بچہ کون ہے۔
پاپا نے بتایا کہ میرا چوتھے نمبر کا بچہ ہے۔ ملا نور مسکرایا اور ہاتھ بڑھا کر میری ناک کے بانسے پر انگلیاں پھیرنے لگے۔ پھر بولے :”یہ عمدہ ناک ہے۔ طویل اور نمایاں “۔
پھر ایک عریض قہقہہ لگایا اور بولے :” عمر ! تمہاری ناک ایک طاقتور مرد کی ناک ہے”۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

علی ہلال
لکھاری عربی مترجم، ریسرچر صحافی ہیں ۔عرب ممالک اور مشرقِ وسطیٰ کے امور پر گہری دسترس رکھتے ہیں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply