ہاں بھئی ہاں

یہ جو ہم”ہاں”کہتے ہیں نا،یہ کئی طرح کی ہوتی ہیں۔۔مثال کے طور پر اگر کوئی پوچھے کھانا کھاؤ گے ؟ تو عزیز ہموطنوں کا جواب ہوگا “ہاں”.یہ اثباتی ہاں ہے۔ اسی طور اگر سوال ہو کہ مفتی پوپلزئی صاحب پاکستان کے سب سے بڑے ماہرِ فلکیات ہیں۔تو کچھ بھائیوں کا جواب ہاں ہوگا ۔یہ تائیدی ہاں ہے۔ اب اگر کوئی با آوازِ بلند کہہ رہا ہو۔۔۔ہاں ہاں میں ای غلط آں، میں ای غلط آں۔ تو یہ بنیادی طور پر”انکاری ہاں”ہے۔ آپ اسے” شوہرانہ ہاں”بھی کہہ سکتے ہیں ۔ایک ہوتی سوالیہ ہاں۔جیسے ۔۔۔۔۔ہاں،توپھر کیا خیا ل ہے۔؟ اب اگر یہ سوال بیگم سے ہے تو جواب ہوگا “پتہ نہیں”۔ اور اگر کسی سرکاری کمیٹی سے ہوتو کہیں گے ابھی معاملہ زیر غور ہے۔

ایک وہ ہاں ہوتی ہے جو ہاں میں ملائی ہی جاتی ہے ۔ جیسے اگر کوئی بڑی سیاسی شخصیت ایسا کہے کہ” میں نے کبھی چھوٹی موٹی بدعنوانی نہیں کی” اور اس کے حمایتی اس کے حق میں بیان دینا شروع ہو جائیں کہ “ہاں ہاں بڑے صاحب نے کبھی چھوٹی بد عنوانی نہیں کی” تو اردو میں اس عمل کو ہاں میں ہاں ملانا کہیں گے ۔حالانکہ اگر عمیق نظر سے دیکھیں تو حمایتیوں نے بڑے صاحب کی “نہ میں نہ ملائی ہے”۔ مگر اردو میں چونکہ نہ میں نہ ملانے کی اجازت نہیں سو مجبوراً نہ میں نہ بھی ہاں میں ہاں ملا کر ہی ملائی جائے گی یا پھر کسی اور زبان میں جا کر نہ میں نہ ملا کر واپس اردو میں آجائیں ۔ہاں میں ہاں ملانا شاید ملاوٹ کے زمرے میں نہیں آتا اس لیے ہر سرکاری ادارے میں ہر سطح پر ہر وقت ہاں میں ہاں ملانے کا عمل جاری رہتا ہے ۔کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے کہ ہاں میں ہاں ملانا ہمارا قومی فریضہ ہے جیسے قومی کھیل ہاکی ہے۔

اردوچونکہ نہایت نستعلیق اور مہذب زبان ہے اس لیے اس میں ہاں میں ہاں ملانے کا متبادل بے ضرر سا ننھا منا سا لفظ خوشامد ہے، ہاں البتہ پنجابی میں اس کے متبادل بڑا دھانسو اور”پھٹے چک” قسم کا لفظ مستعمل ہے۔ رہا سوال ہاں میں نہ ملانے کا تو یہ مجھے نہیں پتہ کہ ہاں میں کبھی کسی نے نہ ملائی کہ نہیں ۔ اور اگر نہیں تو کیوں۔۔۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا ۔۔ اوہ ایک یہ والی ہاں بھی تو ہوتی ہے ۔ یہ ہاں اکثر مقررین اور لکھاری حضرات استعمال کرتے ہیں اور بالخصوص وہ جن کے پاس موضوع پر کہنے کو کچھ نہیں ہوتا ۔ ایک نکی جئی ہاں ہوتی ہے۔ ہوتی تو یہ نکی جئی ہے پر عموماََ شادی جیسے بڑے حادثات کا باعث بنتی ہے ۔

ایک ہوتی ہے”ہوں ہاں”۔ یہ ہاں اس وقت بولی جاتی ہے جب کوئی متعلقہ شخص یا چیز کسی قسم کا کوئی ردِ عمل ظاہر نہ کرے ۔جیسے کہ صدر ممنون حسین صاحب کسی بات پر” ہوں ہاں”ہی نہیں کرتے ۔اس نسبت سے اسے “ممنونہ ہاں”بھی کہہ سکتے ہیں۔ مستقبل میں کوئی موبائل کمپنی ایسے بھی اطلاعی پیغام دے سکتی ہے ۔آپ کا مطلوبہ نمبر فی الحال “ہوں ہاں” نہیں کر رہا برائے مہربانی بعد میں رابطہ کریں ۔ ان سب سے سوا ایک “ہمارے ہاں”ہوتی ہے ۔یہ دراصل”اشتہاری ہاں”ہے۔ سب سے زیادہ تغیر اور تنوع اس ہاں میں پایا جاتا ہے ۔کہیں پرایکڑوں پر محیط کثیرالمنزلہ جیسے کثیرالاقوامی سٹورز ۔یہ اس ہاں کا استعمال کچھ ا س طرح کرتے ہیں”ہمارے ہاں سوئی سے لے کر سوئی قوم کو جگانے والے ڈھول تک سب کچھ دستیاب ہے” ۔اور کہیں پر یہ محض چند انچ کی۔ یہاں تک کہ”صاحبِ ہاں” بذاتِ خود بھی اپنے ہاں کے باہر سڑک پر کرسی ڈالے بیٹھے ہوتے ہیں۔ ایسے مناظر تھوک کی مارکیٹوں میں جابجا نظر آتے ہیں۔

عام طور پر بازاروں میں ایک کا ہاں دوسرے کے ہاں سے ملا ہوتا ہے لیکن بعض لوگ اپنا ہاں کسی دوسرے کے ہاں کے باہر تھڑے پر لگائے ہوتے ہیں ۔جیسے ایک ایک ساڑھی ہاؤس کے باہر تھڑے پر رکھی کون مشین پر بورڈ رکھا تھا ہاں اعلی کون دستیاب ہے۔”کچھ حضرات تو اپنا ہاں اپنے ساتھ لئے لئے پھرتے ہیں”۔ جیسے ایک صاحب ریڑھی دھکیلتے جارہے تھے۔جس پر کچھ مٹکے درجن بھر گلاس اور تیرہ سو اکیس مکھیاں تھیں۔ اورریڑھی کے اطراف میں سفید کپڑے لٹک رہے تھے جن پر درج تھا،” ہمارے ہاں صحت افزا املی آلوبخارے کا شربت دستیاب ہے”۔ ان صاحب نے تو حد کردی ۔پرانی سائیکل کے پیچھے ایک صندوقچی دھرے ساتھ ساتھ پیدل جارہے تھے ۔اور سائیکل کے ہینڈل پر گتے کے ٹکرے پر لکھا تھا”ہمارے ہاں چوہے مار گولیاں ارزاں نرخوں پر دستیاب ہیں”۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس سے ملتی جلتی ایک ہاں اور بھی ہوتی ہے جو شاعروں اور ادیبوں کے ہاں پائی جاتی ہے۔ اسے “ادبی ہاں”بھی کہہ سکتے.اس کی مثال کچھ یوں ہوگی،”استاد غزل لکھنوی کے ہاں عشق اور بھوک ایک ساتھ ملتے ہیں۔یا بیدل مکھنوی کے ہاں مزاح اور موٹاپا بدرجہ اتم موجود ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ آخر میں ایک الجھن اگر کہیں پر لکھا ہو”ہمارے ہاں قلم سے قسم اور فانوس سے ناموس تک سب بکتا ہے”۔۔۔۔. تو وہ کس کا ہاں ہوگا ؟؟؟؟

Facebook Comments

ابن فاضل
معاشرتی رویوں میں جاری انحطاط پر بند باندھنے کا خواہش مندایک انجینئر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”ہاں بھئی ہاں

  1. Well Ibn e Fazal you have selected a simple but customery bahaviour of the society in Pakistan. You presented it in a very hormonic way. Your style of criticism is much appreciable and easily understood. Emphasized on the fundamental and straightforward nature of something.

    Continue your efforts and waiting your next article very soon.

Leave a Reply