رک جائیے۔۔۔مدثر نواز مرزا

ماہِ رمضان کی آمد آمد ہے جو کہ رحمتوں‘ برکتوں‘ معافیوں اور انعامات کی بارشوں والا مہینہ ہے۔ بارہ مہینوں میں سے اس ایک مہینے میں اہلِ ایمان کو یاددہانی کی مشق(ریفریشر کورس) کرائی جاتی ہے کہ فانی دنیا کی لذتوں میں گم ہو جانے‘ رشوت کی کمائی کرنے‘ معبودان باطلہ کی پرستش کی طرف جھکنے‘ ہمسائیوں کو ستانے‘ زمینوں کی محبت میں گرفتار ہو کر تمام رشتوں کو روندنے اور ناجائز قبضے کرنے‘ اخلاقی لحاظ سے پستی کی طرف گامزن ہونے‘ زنا کی لت میں تمام حدیں عبور کرنے‘ جھوٹی اَناَ اور تکبر سے تسکین حاصل کرنے‘ اپنا شملہ اونچا رکھنے کی خواہش کرنے‘ اپنے آپ کو دوسروں سے اعلیٰ و برتر خیال کرنے والے واپس آ جا‘ مڑ آ معبود برحق کی طرف اور یہ سمجھ لے اور دہائی دے کہ میں کچھ نہیں‘ توہی تو۔ اہل ایمان کو یہ یاد کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ زندگی کا مقصد حیوانوں کی طرح پیٹ بھرنے اور شہوات کی تکمیل کا حصول نہیں بلکہ معبود برحق کی بندگی کرنے میں ہے جو کہ حقوق العباد کو احسن طریقے سے بجا لانے اور اس کی کمزور و لاچارمخلوق کی فلاح و بہبود میں پوشیدہ ہے۔ مومنوں کو یہ سبق یاد کرایا جاتا ہے کہ جس الہٰ کا تصور کر کے آپ رمضان میں گناہوں سے رک جاتے ہیں ‘ دودھ میں پانی ملاتے وقت یہ سوچتے ہیں کہ وہ دیکھ رہا ہے‘ صدقہ کرتے وقت اپنے ہاتھ کشادہ رکھتے ہیں‘ ظلم و زیادتی سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں‘ وہی الہٰ گیارہ مہینے بھی آپ کے اعمال سے باخبر ہے لہٰذا ایک ماہ میں سیکھی عادات کو باقی گیارہ ماہ بھی اپنانے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔
روزہ اسلام کی عبادت کا تیسرا رکن ہے جس کے لفظی معانی رکنے اور چپ رہنے کے ہیں۔ کتاب اللہ میں اس کو کہیں کہیں صبر بھی کہا گیا ہے جس کے معانی ضبط نفس‘ ثابت قدمی اور استقلال کے ہیں۔ ان معنوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام کی زبان میں روزہ کا کیا مفہوم ہے؟ وہ درحقیقت نفسانی ہوا و ہوس اور بہیمی خواہشوں سے اپنے آپ کو روکنے اور حرص و ہوا کے ڈگمگا دینے والے موقعوں میں اپنے آپ کو ضابط اور ثابت قدم رکھنے کا نام ہے۔ روزانہ استعمال میں عام طور سے نفسانی خواہشوں اور انسانی حرص و ہوا کا مظہر تین چیزیں ہیں یعنی کھانا‘ پینا اور عورت و مرد کے جنسی تعلقات‘ انہیں سے ایک مدت متعینہ تک رکے رہنے کا نام شرعاََروزہ ہے۔ لیکن دراصل ان ظاہری خواہشوں کے ساتھ باطنی خواہشوں اور برائیوں سے دل اور زبان کا محفوظ رکھنا بھی خواص کے نزدیک روزہ کی حقیقت میں داخل ہے۔
محمد رسول للہﷺکی کوئی تعلیم ربانی محض حکم کے طور پر نہیں ہے بلکہ وہ سرتاپا حکمتوں اور مصلحتوں پر مبنی ہے۔ اس کے فرائض کی عمارت روحانی‘ اخلاقی‘ اجتماعی اور مادی فوائد اور منفعتوں کے چہار گانہ ستونوں پر قائم ہے اور ان مصلحتوں اور ان منفعتوں کے اصول اور جوہر کو خود محمد رسول اللہﷺ کے صحیفہ الہامی نے ظاہر کر دیا ہے اور بتا دیا ہے۔ چنانچہ روزہ کے مقاصد اور اس کے اغراض بھی  تین مختصر فقروں میں بیان کر دیئے ہیں۔
٭تاکہ خدا نے جو تم کو ہدایت کی ہے اس پر اس کی بڑائی اور عظمت ظاہر کرو۔
٭تا کہ اس ہدایت کے ملنے پر تم خدا کا شکر کرو۔
٭تا کہ تم پرہیز گار بنو(یا تم میں تقویٰ پیدا ہو)۔(بقرہ)
روزہ کا سب سے بڑا معنوی مقصد تقویٰ اور دل کی پر ہیز گاری اور صفائی ہے۔ تقویٰ دل کی اس کیفیت کا نام ہے جس کے حاصل ہونے کے بعد دل کو گناہوں سے جھجک معلوم ہونے لگتی اور نیک باتوں کی طرف اس کو بے تابانہ تڑپ ہوتی ہے اور روزہ کا مقصود یہ ہے کہ انسان کے اندر یہی کیفیت پیدا ہو۔ بات یہ ہے کہ انسانوں کے دلوں میں گناہوں کے اکثر جذبات بہیمی قوت کی افراط سے پیدا ہوتے ہیں‘ روزہ انسان کے ان جذبات کی شدت کو کمزور کرتا ہے۔ اسی لیے آپﷺ نے ان نوجوانوں کا علاج جو اپنی مالی مجبوریوں کے سبب نکاح کرنے کی قدرت نہیں رکھتے اور ساتھ ہی اپنے نفس پر بھی قابو نہیں رکھتے روزہ بتایا ہے اور فرمایا ہے کہ روزہ شہوت کو توڑنے اور کم کرنے کے لیے بہترین چیز ہے۔روزہ صرف ظاہری بھوک اور پیاس کا نام نہیں ہے بلکہ درحقیقت دل اور روح کی بھوک اور پیاس کا نام ہے کہ اللہ تعٰلیٰ نے روزہ کی متوقع غرض و غایت تقویٰ قرار دی ہے۔ اگر روزہ سے یہ غرض و غایت حاصل نہ ہو تو یہ کہنا چاہیے کہ گویا روزہ ہی نہیں رکھا گیا یا یوں کہنا چاہیے کہ جسم کا روزہ ہو گیا لیکن روح کا نہیں۔ اسی کی تشریح آپﷺ نے اپنے ان الفاظ میں فرمائی ہے کہ روزہ رکھ کر بھی جو شخص جھوٹ اور فریب کے کام کو نہ چھوڑے تو خدا کو اس کی ضرورت نہیں ہے کہ انسان اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا روزہ برائیوں سے روکنے کی ڈھال ہے تو جو روزہ رکھے اس کو چاہیے کہ لغو اور فحش باتیں نہ کہے اور نہ جہالت (غصہ) کرے یہاں تک کہ اگر کوئی اس سے لڑنے مرنے پر آمادہ ہو اور گالی بھی دے تو یہی کہے کہ میں روزہ سے ہوں۔ بعض حدیثوں میں ہے کہ آپ نے فرمایا روزہ اس وقت تک ڈھال ہے جب تک اس میں سوراخ نہ کرو‘ صحابہؓ نے دریافت فرمایا کہ یا رسول اللہ! اس میں سوراخ کس چیز سے ہو جاتا ہے؟ فرمایا جھوٹ اور غیبت سے۔

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
پی ٹی سی ایل میں اسسٹنٹ مینجر۔ ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply