اے اسیرانِ قفس منہ میں زباں ہے کہ نہیں؟۔۔۔مائرہ علی

چند دن دن پہلے خبر آئی کہ آئی جی پنجاب نے تھانوں کے اندر موبائل فون لیجانے پر پابندی لگا دی ہے اور عوام کو تھانے کے اندر جانے سے پہلے موبائل کاؤنٹر پر جمع کروانے ہوں گے۔ اس کا جواز یہ بنایا گیا کہ موبائل اندر لے کر جانے سے تفتیش کے عمل پر اثر پڑتا ہے۔ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور بعد میں پولیس کے سربراہ کی جانب سے وضاحتی بیان جاری کیا گیا جو میرے خیال میں عوامی دباؤ کا نتیجہ تھا۔

حقیقت یہ ہے کہ اس ایک خاص فیصلے سے ہٹ کر بھی کئی ایسے فیصلے نافذ کیے جارہے ہیں جو دن بدن انصاف کے حصول کو مشکل سے ناممکن کی طرف لے کر جارہے ہیں۔انصاف کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آنے والی حکومت انصاف کی فراہمی میں کلی طور پر ناکام نظر آتی ہے، ہر کوچہ و بازار میں نا انصافی اور ظلم و بربریت کی مثالیں رقم ہو رہی ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔

آئے دن ایسے واقعات پیش آتے ہیں جو ہمارے نظامِ انصاف کا منہ چڑاتے ہیں اور جو کسی بھی دوسرے مہذب معاشرے میں نہیں ہوتے، صلاح الدین قتل کیس کی مثال ہی لے لیجیے, ایک ذہنی توازن سے محروم ، اے ٹی ایم چور پر دورانِ تفتیش اس قدر تشدد کیا گیا کہ وہ جان کی بازی ہی ہار گیا،صلاح الدین کی لاش کی تصویریں پولیس کی بربریت کی داستان کھول کر بیان کر رہی تھیں۔

یاد رہے کہ یہاں مقصد صلاح الدین کو ہیرو بنا کر پیش کرنا ہر گز نہیں ہے،وہ ایک چور تھا اور چوری کی قانونی سزا اسے ملنی چاہیے تھی مگر اسے جان سے مارنے کا اختیار دنیا کا کوئی قانون نہیں دیتا بلکہ سنگین سے سنگین جرم پر بھی پولیس اس قدر تشدد کا کوئی جواز نہیں رکھتی۔ایسا لگتا ہے کہ پولیس جس کا نعرہ ہے کہ “نفرت جرم سے ہے انسان سے نہیں”, نے انسان سے نفرت شروع کردی ہے اور عوام کے تحفظ کی بجائے دہشت پھیلانے کو اپنا فرض سمجھ لیاہے جو دردناک ہے۔۔

اگر ان اداروں کو بنانے کا مقصد عدالتی کاروائی کے بغیر ماورائے عدالت فیصلے سنانا اور بے گناہوں کو مارنا تھا تو یہ کام تو عوام خود بھی کر سکتی ہے بلکہ ایسے کئی واقعات ہو بھی چکے ہیں، روزانہ نجانے کتنے بے گناہ لوگ اور معمولی مجرم پولیس کے ہاتھوں ماورائے عدالت قتل ہوتے ہیں اور حیرت کی بات یہ ہے کہ پولیس افسران اپنی نجی محفلوں میں اس کی وجہ نظامِ انصاف کا کمزور ہونا بتاتے ہیں،اگر اس بات کو سچ بھی مان لیا جائے تو بھی یہ اس نظامِ انصاف کے منہ پر طمانچہ ہے۔

افسوسناک بات یہ ہے کہ اس نظام کی خامیوں کے خلاف کوئی موثر آواز یا تو اٹھائی ہی نہیں گئی اور اگر اٹھائی گئی تو اسے کسی نہ کسی طرح خاموش کرا دیا گیا،عوام کا رویہ یہ ہے کہ جب تک کوئی خود کسی نا انصافی کا شکار نہیں ہوتا, وہ خاموش بنا تماشا ہی دیکھتا رہتا ہے۔ ہم اپنے قومی فرائض سے یا تو نا آشنا ہیں یا پھر مایوسی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ ہمیں لگنے لگا ہے کہ اب اس نظام کو کوئی درست نہیں کرسکتا لیکن ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ

ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے بہتا ہے تو جم جاتا ہے

ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے انصاف اور قانون کا جنازہ نکلتا دیکھنے کی بجائے اپنے حصے کا فریضہ ادا کریں اور ناانصافیوں اور استحصال کے خلاف آواز بلند کریں کیونکہ اللہ نے قرآن میں فیصلہ سنایا ہے کہ کسی قوم کی حالت اس وقت نہیں بدل سکتی جب تک وہ خود نہ اس کو بدلنے کا تہیہ کرلے،میری اس سلسلے میں تجویز یہ ہے کہ تفتیش کا تمام عمل کیمروں کی نگرانی میں ہو تاکہ شفافیت اور غیر جانبداریت کو یقینی بنایا جائے۔ اس کے علاوہ عدالتوں میں عشروں سے چل رہے کیسوں کا ترجیحی بنیادوں پر فیصلہ کیا جائے اور ایسا نظام وضح ہو کہ چھ مہینے کے اندر اندر ہر صورت ہر کیس کا فیصلہ سنایا جائے۔

پولیس, وکلا اور دوسرے اداروں کی غنڈہ گردی بند کی جائے اور انہیں عوام کی خدمت کےلیے تربیت دی جائے،تھانے سے لے کر عدالت تک کے پورے نظام کا ازسرِ نو جائزہ لیا جائے اور انصاف کے تمام تقاضوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے موجودہ دور سے ہم آہنگ نظامِ انصاف لاگو کیا جائے۔

اسی طرح قوانین سے متعلق عوام میں آگاہی پیدا کی جائے اور انہیں یقین دلایا جائے کہ ریاست ان کے جان و مال کا تحفظ کرنے میں مکمل فرض شناسی کا مظاہرہ کرے گی، اور ہم سب کو چاہیے کہ اس نظام کی بہتری کےلیے ہر ممکن آواز بلند کریں اور اپنے عوامی نمائندوں کو مجبور کریں کہ وہ عوام کی خدمت کریں۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

ظلم چپ چاپ سہے جاؤ گے آخر کب تک
اے اسیرانِ قفس منہ میں زبان ہے کہ نہیں؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply