کورونا وائرس عذاب بھی ہے اور وارننگ بھی۔۔محمد اسلم خان کھچی

کرونا وائرس نامی وبا اس وقت تقریباً پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے  ہے،روزانہ ہزاروں لوگوں کو گلے سے پکڑ کے موت اور اذیت کی وادی میں دھکیل رہی ہے۔۔بہت غوروفکر کیا یہ کوئی آسمانی عذاب ہے جو اللہ رب العزت کے حکم پہ دنیا پہ نازل ہوا ہے جس طرح پہلی قومیں اس طرح کے عذابوں کا شکار ہوتی رہیں ؟
بہت سوچ بچار کے بعد دل میں ایک گمان سا پیدا ہوا ہے۔کہ یہ عذاب بھی ہے اور وارننگ بھی تھوڑا گہرائی سے ساری صورت حال کا مطالعہ کیا جائے تو ابھی تک ایک بات سمجھ میں آئی ہے کہ یہ وبا غیر مسلموں کیلئے عذاب کی تصویر بن چکی ہے جبکہ مسلمانوں کیلئے اللہ رب العالمین کی طرف سے ایک “وارننگ ” تک محدود رہی ہے ۔

عذاب اور وارننگ کی Logic سمجھنے کیلئے ہمیں اللہ رب العزت کی صفات کا مطالعہ کرنا پڑے گا۔ رب ذوالجلال کی صفات میں “رحیم اور کریم “کی صفات اللہ کے قہر پہ حاوی ہیں۔ جب موسٰی علیہ السلام کے حکم پہ زمین قارون کو زمین میں دھنساتی جارہی تھی اور وہ گڑگڑا کے حضرت موسٰی علیہ السلام سے معافی طلب کر رہا تھا لیکن حضرت موسٰی علیہ السلام نے معافی نہیں دی اور قارون مکمل زمین میں دھنس گیا۔
تو اللہ رب العزت کی طرف سے وہی آئی۔۔۔۔۔۔
موسیٰ تیرا دل بڑا سخت ہے قارون مجھ سے ایک بار معافی طلب کرتا تو میں معاف کر دیتا۔۔۔۔۔۔

اتنے کرم اور رحم کے باوجود اللہ رب العزت کی طرف سے عذاب اور مسلمانوں کیلئے وارننگ کا جاری ہونا انسان کو سوچنے پہ مجبور کرتا ہے کہ آخر انسان سے ایسی کیا خطا ہوئی کہ انسان اللہ رب العزت کی ناراضگی کا شکار ہو گیا ہے۔۔ حضرت انسان کوئی ایسا ناقابل معافی جرم کر بیٹھا ہے جس کی اسے بھاری قیمت چکانا پڑ رہی ہے ۔اپنا جرم یاد کرتے کرتے ایک حدیث قدسی دماغ میں آئی اور اس نے سارے عقدے کھول کے رکھ دیئے۔
من عادى لي وليا فقد آذنته بالحرب
اللہ رب العزت نے فرمایا ہے
” کہ جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی, میرے کسی دوست کی شان میں گستاخی کی,
اس  سے میرا کھلا اعلان جنگ ہے۔۔

حدیث نے میرے رونگٹے کھڑے کر دیئے کہ اللہ نے انسان سے جنگ کا اعلان کر دیا ہے۔۔ ہاتھ کپکپا گئے۔ سرد لہر پورے بدن میں سرائیت کر گئی۔ کچھ لکھنے کی ہمت ختم ہوگئی ۔۔خوف کی لہر نے گھیرلیا۔۔اسی لمحے سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم کا ایک فرمان یاد آیا کہ”اللہ کی رحمت اسکے عذاب پہ حاوی ہے , ہمیشہ اللہ کی رحمت طلب کرو اور اللہ رب العزت کا کرم مانگو “۔

رب ذوالجلال سے اسکی رحمت اور کرم مانگتے ہوئے آپکی خدمت میں چند حقائق پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ حضرت انسان سے خطا کیا ہوئی ہے کہ آج دربدر ہے۔بیوی بچوں, ماں باپ, رشتہ داروں دوستوں سے ڈرنے لگا ہے۔۔ ہر سو ” نفسی نفسی “کی پکار ہے۔۔ رب العزت کی نعمتوں کو بھی ہاتھ لگانے سے ڈرتا ہے۔
میرے خیال میں انسان اپنے کالے کرتوتوں اور تسخیرانہ تکبر کی وجہ سے اللہ رب العزت کی پکڑ میں آگیا ہے۔۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العزت نے انسان کو سبق سکھانے کیلئے جنگ کا اعلان کر دیا ہے ۔۔ یاد رکھیے گا۔
اللہ تعالیٰ دو باتوں پہ اعلان جنگ کرتا ہے۔سود کے کاروبار پہ اور دوسرا اس کے پیارے نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ,کسی صحابی ,اہل بیت, یا اسکے کسی ولی کی شان میں گستاخی کی جائے,کیونکہ اللہ رب العزت اپنے نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کے معاملے میں بہت Sensitive ہے ۔ناموس رسالت کا مسئلہ پوری دنیا کیلئے ایک Red Zone ہے۔۔ No go area ہے۔۔
رسول اللہ صلی و علیہ و سلم سے محبت کا اندازہ آپ اس طرح لگا سکتے ہیں اللہ رب العزت خود نبئ اکرم صلی اللہ و علیہ و سلم پہ درود بھیجتا ہے۔۔ اس سے بڑی محبت کی مثال پوری کائنات میں اور کیا دی جا سکتی ہے۔۔
لیکن جب کوئی اللہ رب العالمین کے مقرر کیے گئے ریڈ زون کو کراس کرتا ہے تو وہ اللہ سے بغاوت اور کھلی جنگ کا اعلان کرتا ہے۔۔اللہ کے قہر و غضب کو دعوت دیتا ہے۔۔
یقین کیجیے، اللہ تعالیٰ ہر معاملہ نظرانداز کر دیتا ہے ۔۔بڑے بڑے گناہ ایک آنسو کی قیمت پہ معاف کر دیتا ہے۔لیکن جب اسکے حبیب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ناموس کی بات آتی ہے تو اللہ تعالیٰ کسی کو رتی برابر چھوٹ نہیں دیتا۔
اس وقت پوری دنیا بشمول مسلمان اپنے انہی گناہوں کی وجہ سے اللہ کے غضب کا شکار ہیں۔گزشتہ تین دہائیوں سے مسلسل ناموس رسالت پہ حملے ہوتے رہے ہیں لیکن پوری دنیا بشمول مسلمان خاموش رہے۔۔ بلکہ توہین کرنے والوں کو ایوارڈ سے نوازا گیا ۔۔اور اس طرح ہم اللہ تعالیٰ سے برسر پیکار ہو گئے اور جنگ شروع کر دی۔۔
اللہ ذوالجلال کی ناراضگی کا دوسرا سبب اس کے بندوں پہ ظلم ہے ۔۔ جب ظلم ہوتا ہے تو مظلوم کی آہ عرش ہلا دیتی ہے۔۔ اس وقت میری آنکھوں کے سامنے ایک مظلوم کشمیری لڑکی کی آہ یاد آ رہی ہے جو اس نے ٹی وی کیمرہ مین کے سامنے جھولی پھیلا کے اللہ کے حضور روتے ہو دعا کی تھی کہ ” اے اللہ رب العزت ساری دنیا کو اسی طرح بند کر دے جس طرح ان لوگوں نے ہمیں بند کیا ہوا ہے تاکہ ان کو بھی اس اذیت کا احساس ہو , جس سے ہم گزر رہے ہیں “۔

ذرا غور کیجیے : آج پوری دنیا کے لوگ اسی خوف کی فضا میں گھروں میں بند ہیں جس طرح وہ کشمیری لڑکی بند ہے۔
کیا یہ کوئی اتفاق ہو سکتا ہے ؟
لیکن نہیں۔۔ یہ اتفاق نہیں!

اس مظلوم کی دعا نے شرف قبولیت حاصل کیا اور پوری دنیا کشمیری لاک ڈاؤن کا شکار ہو گئی۔مظالم کی ایک طویل داستان ہے جو مسلمانوں پہ ڈھائی گئی۔۔ 9/11 کے بعد طاقت کے نشے میں بدمست ہاتھی اسلامک ورلڈ کو روندتا چلا گیا۔۔افغانستان سے لیکر فلسطین تک پوری دنیا کے مسلمانوں پہ ظلم کے ایسے ایسے پہاڑ توڑے گئے کہ انسانیت کانپ اٹھی۔
معصوم بچوں بڑوں کو زندہ جلایا گیا۔۔
ریپ کی ایسی خوفناک تاریخ رقم کی گئی کہ عراق کی جیلوں میں بند مسلمان بچیوں کی کوکھ میں یہودی فوجیوں کے بچے پلنے لگے اور پتہ ہی نہیں ہوتا تھا کہ بچہ کس کا ہے ؟
موقع ملتے ہی وہ معصوم بچیاں موت کو گلے لگا لیتی تھی لیکن ان کو مرنے کی اجازت بھی نہیں دی جاتی تھی۔برما سے لیکر میانمار تک زندہ مسلمانوں کے اعضا کاٹ کے انکا گوشت پکا کے کھایا گیا اور ساتھ ساتھ کتوں کو بھی کھلایا گیا۔انسانیت کی تذلیل کی ایسی خوفناک داستانیں رقم کی گئیں کہ دنیا ہلاکو سے ہٹلر تک کے مظالم بھول گئی
یقین کیجیے۔۔۔۔ ان مظالم پہ لکھنے بیٹھتا ہوں تو دل گھبرانے لگتا ہے۔۔ ہاتھ کانپنے لگتے ہیں ۔۔دل خون کے آنسو روتا ہے۔۔
کفار نے تو جو کیا سو کیا لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان تمام مظالم میں مسلمان یا تو خاموش رہے یا بالواسطہ یا بلاواسطہ شریک جرم رہے ۔۔
اور پھر ان مظلوموں کی روحیں بارگاہِ الٰہی میں پہنچیں
آپ کو یاد ہو گا جب۔۔عین لڑائی کے وقت ایک عراقی بچی نے بھاگتے وقت کہا تھا
“انکل خدا کے واسطے میری تصویر مت بنانا, میں بے حجاب ہوں “۔
ایک فلسطینی بچہ بھوک سے نڈھال ہو کے رب سے التجا کرنے لگا
“یا اللہ مجھ سے میری زندگی لے لے تاکہ میں جنت میں جا کے پیٹ بھر کے کھانا کھا سکوں “۔
افغان جنگ میں ایک بچے کا بازو بری طرح زخمی ہو گیا۔۔ ڈاکٹروں کے پاس بازو کاٹنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔۔ جب وہ بازو کاٹنے لگے تو بچہ کہنے لگا
“انکل بازو کاٹ دینا لیکن میری آستین بچا لینا۔۔ میرے پاس اور کپڑے نہیں “۔
اور ایک معصوم شامی دم توڑتی بچی نے کہا تھا
“میں اپنے رب کو جا کے سب کچھ بتاؤں گی “۔
اور اس نے جا کے بتا دیا
تو اللہ رب العزت کی طرف سے احتساب کا عمل شروع ہو گیا اور پوری دنیا اسکی لپیٹ میں آگئی۔۔

اس احتساب کو دنیا نے کورونا وائرس کا نام دیا۔۔ جس نے دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کی ٹیکنالوجی, معیشت, زندگی کو تہس نہس کر کے رکھ دیا۔۔ کہکشاؤں کو تسخیر کرنے کے دعویدار پل بھر میں گھٹنوں کے بل گرے اور کسی آسمانی معجزے کا انتظار کرنے لگے۔۔
اٹلی کے وزیراعظم کی بے بسی اور اس کے الفاظ پہ غور کیجیے۔
“کہ زمین کے تمام وسائل استعمال کر چکے, اب آسمان سے کسی معجزے کا انتظار ہے “۔
یہ فقرہ ایک کافر کی طرف سے رب کے قادر مطلق ہونے کا اقرار ہے
لیکن ہمارے بہت سے لوگوں کے دماغ میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور ہمارہ عقیدہ ہے کہ نبئ اکرم صلہ اللہ و علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق انکی امت پہ کوئی عذاب نہیں آسکتا۔۔
تو ہم پہ یہ عذاب کیوں ؟
بالکل درست بات ہے کہ اس امت پہ عذاب نہیں آ سکتا۔۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو ابھی تک مسلمان اس عذاب سے محفوظ ہیں اگر دنیا کی تباہی پہ نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابھی تک مسلمانوں کو صرف وارننگ دی ہے چونکہ مسلمان بھی دنیا کے مظالم میں شریک جرم رہے ہیں۔۔ ظلم پہ خاموش رہے ہیں ظلم پہ خاموشی بھی ظلم کے مترادف ہے اس لیئے کچھ تو سزا ملے گی
لیکن اگر غور کیا جائے تو نظر آتا ہے کہ یہ عذاب ان لوگوں پہ شدید ہے جو رحمت کونین صلی اللہ و علیہ وسلم کی (نعوذ بااللہ) توہین کرتے تھے۔۔
جو نبئ اکرم صلہ اللہ علیہ و وسلم کو (نعوذ بااللہ) گالیاں دیتے تھے۔
کارٹون بناتے تھے
بدنام زمانہ کتابیں لکھتے تھے۔
قرآن حکیم کو جلاتے تھے۔۔ قرآنی آیات کی بے حرمتی کرتےتھے۔۔
جنہوں نے صحابہ کرام اور ولی اللہ کے مزارات شہید کئے۔۔
حجاب پہ پابندی لگائی۔۔
مسلمان بچیوں کے چہروں سے حجاب اتار کے بے پردہ کیا
اذان پہ پابندی لگائی۔۔ وضو اور تمام اسلامی شعائر کا مذاق اڑایا
لیکن خدا کی قدرت دیکھیے
آج پوری دنیا خدا کے قہر سے بچنے کیلئے خدا سے مدد کی طلب گار ہے۔۔
حجاب لازمی قرار پایا ہے۔
فرانس میں صدیوں بعد اذان کی آواز گونجی ہے۔
وضو کو موذی مرض سے بچنے کا طریقہ قرار دیا ہے۔
ٹرمپ وائرس سے بچنے کیلئے ایک مسلمان سے قرآن پاک کی آیات کا دم کرا رہا ہے۔۔
چائنہ میں سرکاری سطح پہ قرآن پاک کی تقسیم ہو رہی ہے۔۔
چائنہ کا صدر باجماعت نماز میں شریک ہو کے نماز پڑھ رہا ہے۔۔
ٹرمپ تمام لوگوں کو عبادت کی تلقین کر رہا ہے۔
پوری دنیا اللہ رب العزت معافی کی طلب گار ہے۔
خدا کا مذاق اڑانے والے خدا کی بارگاہ میں گھٹنوں کے بل گرے پڑے ہیں۔۔
عظیم ٹیکنالوجی کا دعویٰ کرنے والے ایک ان دیکھے کیڑے کے سامنے بے بس ہو گئے ہیں۔۔
پوری دنیا اس وقت خدا سے مدد کی طلب گار ہے۔

لیکن ہم ابھی بھی کسی معجزے کے انتظار میں ہیں۔۔ کسی ویکسین کی تلاش میں ہیں ۔۔ہم اس بات کو بالکل سمجھ ہی نہیں پا رہے کہ اللہ ہم سے ناراض ہے اور اس وقت ہمیں ایک اجتماعی توبہ کی ضرورت ہے۔۔ اللہ رب العزت کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔۔
ہمارے پاس تو مدینہ پاک ہے جو رحمت کونین صلہ الل و علیہ وسلم کا شہر ” دارلشفا “کہلاتا ہے
حرم پاک ہے اور حرم پاک میں 15 مقامات ایسے ہیں جہاں دعا فوری قبولیت کا درجہ حاصل کر لیتی ہے۔۔
مدینہ پاک “دارلشفا ” کے شہر کی خاک بھی شفا ہے۔۔ ایک بار مدینہ شریف میں بخار کی وبا پھوٹی تو آپ صلی اللہ و علیہ و سلم نے حکم فرمایا کہ خاک اپنے بدن پہ ملو۔۔ اور بخار ٹھیک ہو گیا۔۔
آب زم زم ہے جو آب شفا ہے۔۔ وہ تمام کنویں ہیں جہاں سے حضور اکرم صلی اللہ و علیہ و سلم نے پانی پیا۔
اپنا لعاب دہن ڈالا۔۔ حضرت سلمان فارسی رحمتہ اللہ علیہ کا کنواں ہے جہاں آپ اپنے پاؤں بگھویا کرتے تھے۔۔
لیکن ہم نے آب زمزم بند کر دیا۔۔ تمام کنویں بند کر دیئے۔۔ سڑکیں بنا کے خاک ختم کر دی۔۔
اللہ کا گھر بند کر دیا۔۔
در مصطفی صلی اللہ و علیہ و سلم بند کر دیا
در اقدس پہ جانا بند کر دیا۔۔
میرا یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ پہلے ہم سے ناراض نہیں تھا لیکن اب ناراض ہو گیا ہے۔
کیونکہ ہم نے رحمت العالمین کے در اقدس پہ جانا چھوڑ دیا
اللہ کے گھر کے دروازے بند کر دیئے۔۔ ۔
اس وقت اللہ ہم سے ناراض ہے۔۔ ہمیں اللہ رب العزت کو منانے کی ضرورت ہے
اسے راضی کرنے کی ضرورت ہے۔۔
اپنی خطاؤں پہ معافی مانگنے کی ضرورت ہے۔۔
یہ عذاب ٹل جائے گا کیونکہ حضرت یونس علیہ السلام کی قوم پہ بھی آنے والا عذاب معافی مانگنے سے ٹل گیا تھا
اور ہم تو رحمت کونین صلی اللہ و علیہ و سلم کی امت ہیں ،جنہیں خود رب العزت نے رحمت اللعالمین بنا کے بھیجا ہے۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آؤ مل کے رب کو مناتے ہیں، رو کے،منت کر کے،التجائیں کر کے،لاڈ کر کے،اس کے محبوب کا واسطہ دے کے،اہل بیت کا واسطہ دے کے۔۔۔۔
اللہ ایک پل میں مان جاتا ہے۔۔ بس اسے منانے کیلئے آنکھوں میں آنسو لانے کی ضرورت ہے۔اسکے محبوب صل اللہ و علیہ وسلم کی محبت اور ناموس کا واسطہ دینے کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔۔
اللہ رب العزت آپکو اور آپ کے اہل خانہ کو اپنی امان میں رکھے۔۔۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply