سرفرازتبسُّم 21 جولائی 1972جہلم میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم کانوونٹ سکول جہلم سے حاصل کی ،والد کے بیرون ملک چلے جانے کے باعث جہلم سےگوجرانوالہ منتقل ہوگئے گوجرانوالہ میں ہی انھوں نے پنجاب یونیورسٹی سے فلاسفی جیسے مضامین کیساتھ گریجویشن کی ڈگری حاصل کی اور درس وتدریس سے وابستہ ہوگئے ان کی اوائل عمری میں ہی ان کے والد کا کینسر کے باعث انتقال ہوگیا جس باعث ان کی گھریلو ذمہ داریاں بڑھ گیئں۔ گھریلو حالات کے باعث 2008 ء میں وہ پاکستان سے ہجرت کر کے یورپ چلے گئے جہاں انہوں نےلیسٹر یونیورسٹی سے ماسٹر ان بزنس ایڈ منسٹریشن کی ڈگری حاصل کی اور آج کل گار منٹس کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔
شاعری
ایک ناخواندہ خاندان سے تعلق رکھنے کے باوجود سرفرازتبسُّم کو بچپن سے کتابوں سے پیار تھا انھیں روزانہ ڈائری لکھنے کا شوق تھا, بچپن میں سکول کی ہر سال نئی کتابیں خرید کر جب گھر آتے تو کتابوں کو سونگھنا ،کاغذکے پرندے بنا بنا کر اُڑانا ، اور درختوں سے اکیلے میں باتیں کرنے کی کئی بار ان کی والدہ نے ان کے والد سے شکایت کی ۔بچپن میں انہیں سنگر بننے کا شوق تھا جس کے لیے انھوں نے باقاعدہ موسیقی کے پٹیالہ خاندان کی شاگردی بھی اختیار کی ۔ میٹرک کے تعلیمی دور میں ہی انہیں شعر سے دلچسپی پیدا ہوئی۔ 1994 ء میں انہوں نے پہلا شعر کہا ،ابتدائی دور میں المعروف شاعر عزیز ہمدم اور پھر جان کاشمیری سے مشورہ سخن کرنے لگے ،ڈاکٹر وزیر آغا اور نذیر قیصر ان کی ہمیشہ پسندیدہ شخصیات رہیں ۔
رائٹر
سرفرازتبسُّم نے لکھنے کی ابتداء افسانہ سے کی اور ابتدائی دور میں انھوں نے کہانیاں اور افسانے لکھے، جن میں سے کچھ رسائل و جرائد میں شائع بھی ہوئے ۔آج کل برطانیہ
کے شہر لیسٹر میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ اور روزنامہ اوصاف لندن کے لیے لٹریری کالم لکھتے ہیں۔ ان کی پہلی مرتب کردہ کتاب “برگِ افکار “ جولائی 2000ء میں شائع ہوئی۔ جنوری 2020میں ان کی اگلی کتاب “ہاتھوں میں آسمان” شائع ہوگی۔
صحافت
1999ء 1996ءمیں ایک ادبی جریدہ سہ ماہی “ادبیت “ کا اجراء کیا، جو چند شماروں کے بعد بند ہوگیا ،اور رسالے کو اخباری شکل میں “آوازیں “کے نام سےشائع کرنے لگے، جو 2002 تک جاری رہا ۔ اس کے علاوہ وہ کئی علاقائی اخبارات میں بطور رپورٹربھی کام کرتے رہے ۔ آج کل برطانیہ سے سہ ماہی “ادبیت”کتابی سلسلے کی صورت شائع کر رہے ہیں۔
آخر میں ان کی ایک غزل آپ کی نذر
میرا ربّ جب رات بنانے لگتا ہے
دن کا سارا بوجھ ٹھکانے لگتا ہے
رات پیالہ خوابوں سے بھر جائے تو
نیند سے تیرا خواب جگانے لگتا ہے
بارش کے موسم میں اکثر شام کوئی
مجھ کو تیری نظم سنانے لگتا ہے
کبھی کبھی کوئی جا دو سا ہو جاتا ہے
اور کوئی سپنا سچ ہوجانے لگتا ہے
کھڑا ہوں اپنے پا ؤں پہ اور میرا سایا
آسمان کو ہاتھ لگانے لگتا ہے
آتا ہے جو دروازے کی درزوں سے
گھر میں تیرے نقش بنانے لگتا ہے
تم نے جو باندھا ہے رستہ پیڑوں سے
مجھ کو اپنے ساتھ چلانے لگتا ہے
شام گئے کوئی میرے دل کے کینوس پر
اشکوں سے تصویر بنانے لگتا ہے!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں