محمد افضل حیدر کی تحاریر
محمد افضل حیدر
محمد افضل حیدر شعبہء تدریس سے وابستہ ہیں.عرصہ دراز سے کالم , اور افسانہ نگاری میں اپنے قلم کے جوہر دکھا رہے ہیں..معاشرے کی نا ہمواریوں اور ریشہ دوانیوں پر دل گرفتہ ہوتے ہیں.. جب گھٹن کا احساس بڑھ جائے تو پھر لکھتے ہیں..

محبت اب نہیں ہوگی(2،آخری قسط)۔۔محمد افضل حیدر

دو دن بھی ایسے تیسے گزر گئے قاری صاحب کلاس پڑھا رہے تھے اور فیضان کا وہ پیریڈ خالی تھا اس لیے اس سے صبر نہیں ہوا اور وہ سیدھا ان کے پیچھے ان کی کلاس تک چلا گیا۔ اسے←  مزید پڑھیے

محبت اب نہیں ہوگی(1)۔۔محمد افضل حیدر

کالج کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اس کے لیے یونیورسٹی میں زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ نئے دوست ملے, زندگی کو نئے ڈھنگ سے جینے کا سلیقہ ملا, اس کی زندگی میں یہاں جتنے بھی نئے لوگوں←  مزید پڑھیے

خلا ۔۔افضل حیدر

اس دن دوپہر کا کھانا اس نے معمول سے تھوڑا لیٹ کھایا۔کھانے کے بعد طبیعت میں بے چینی کو بھانپتے ہوئے اس نے کچھ دیر گھر سے باہر چہل قدمی کا فیصلہ کیا۔وہ اپنی گنجان اور پرانی آباد شدہ کالونی←  مزید پڑھیے

لوٹ کر آؤں گا۔۔محمد افضل حیدر

وہ اس وقت ڈیوٹی پر موجود شخص کے سامنے باقاعدہ ہاتھ جوڑ کر کھڑا تھا۔ اس کے لہجے میں چھپی بے بسی اور التجا کو اس بوڑھے خاکروب نے بھانپ لیا اور کچھ ہی دیر میں خلاف قانونی  کاغذ قلم←  مزید پڑھیے

محبت جیت جاتی ہے۔۔محمد افضل حیدر

ابا جی کو میرے میٹرک کے امتحان میں پاس ہونے کی خوشی ضرور ہوئی  مگر اتنی نہیں جتنی ہونی چاہیے تھی۔ انہوں نے میری خواہش کے برعکس مجھے شہر کالج بھیجنے کے بجائے بڑے بھائی  کے ساتھ آڑھت پر بھیج←  مزید پڑھیے

دو ٹکے کا لڑکا۔۔محمد افضل حیدر

شام کو حمید صاحب کام سے فراغت پاکر گھر واپس آئے تو کھانے کے دستر خوان پر زویا کو موجود نہ پاکر مضطرب ہوئے۔ زویا کہاں ہے۔نظر نہیں آرہی؟ کالج سے واپس آنے کے بعد سے دروازہ بند کرکے بیٹھی←  مزید پڑھیے

پیاری چھمی،سلام محبت۔۔۔محمد افضل حیدر

آج قلم اور کاغذ لے کر بیٹھا ہوں تو زندگی میں کبھی اتنے فکری انتشار کا شکار نہیں ہوا جتنا اس وقت ہوں۔یاد داشتوں کا ایک سمندر ہے جس میں غوطہ زن ہوں اور مسلسل ڈوب رہا ہوں, ایک جست←  مزید پڑھیے

میرے پاس ماں ہے۔۔محمد افضل حیدر

ابا جی کی وفات کے بعد پورا گھر خزاں رسیدہ پتوں کی مانند بکھر گیا۔اتفاق اور اکھٹا رہنے کے سب بھرم ٹوٹ گئے۔ ابا جی نے ہر ممکن حد تک سب کو متحد   رکھا ہوا تھا۔ وہ زندہ تھے←  مزید پڑھیے

لوٹا تو میرے پاس آیا۔۔۔محمد افضل حیدر

اس نے گھر سے نکلتے وقت ہمیشہ کی طرح دروازہ زور سے بند کیا اور پتہ نہیں کہاں چلا گیا۔ یہ سب اب اس کا معمول بنتا جا رہا تھا۔۔ وہ گھر میں موجود ہوتا تو خاموش رہتا یا پھر←  مزید پڑھیے

تنگ پگڈنڈی۔۔۔محمد افضل حیدر

وہ ہر روز آٹھ بجے دفتر کے لیے نکلتا تھا اس کا دوست زین اور وہ ایک ہی فلیٹ میں رہتے تھے زین ایک ٹیلی کام کمپنی میں انجینئر تھا. وہ رات دیر سے فلیٹ پر آتا اور صبح تاخیر←  مزید پڑھیے

شادی کا نوحہ۔۔۔محمد افضل حیدر

میرا جگری دوست اسد آج کل اپنے خانگی حالات کی وجہ سے بہت پریشان ہے۔ وہ مجھ سے اپنی ہر بات شیئر کرتا ہے اس لیے مجھے اس کی نجی زندگی سے لیکر پیشہ ورانہ وارداتوں تک ہر چیز کی←  مزید پڑھیے

منافقت زندہ باد۔۔۔محمد افضل حیدر

موجودہ زمانے میں منافقت ایک ہمہ گیر اور عالمگیر انسانی طرز ِعمل بن چکا ہے۔ کیا چھوٹا کیا بڑا، کیا گورا کیا کالا ،ہر کوئی اس کی سحر انگیزی سے متاثر نظر آتا ہے۔ اس کی اثر پذیری اس حد←  مزید پڑھیے

سُلگتا کشمیر۔۔۔محمد افضل حیدر

بھارت کی طرف سے کشمیر پر اٹھایا جانے والا حالیہ غیر معمولی اقدام میرے لئے حیران کُن نہیں تھا۔جو لوگ بھارتی وزیر اعظم کے پس منظر اور اس کی فسطائی ذہنیت سے پوری طرح واقف تھے ان کے لیے مودی←  مزید پڑھیے

کیچڑ۔۔۔محمد افضل حیدر

اس رات ہونے والی طوفانی بارش نے مٹھو ہوٹل والے کی فکر میں بے حد اضافہ کر دیا تھا۔ اسے اپنے گھر اورچھپر ہوٹل کی فکر کھائے جا رہی تھی،پچھلی بارش پر بھی اس کے گھر کی سر کنڈوں سے←  مزید پڑھیے

برگد کا پیڑ۔۔۔محمد افضل حیدر

اُس کو مرے ہوئے دو گھنٹے گزر چکے تھے۔۔ اسپتال کی ایمرجنسی سے ملحق ایک اسٹور نما کمرے میں اسٹریچر پر پڑی اس کی لاش کے اردگر د ایک نرس کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔نرس ہاتھ میں ایک رجسٹر←  مزید پڑھیے

سائیاں وے۔۔۔۔ محمد افضل حیدر

دِن کا پہلا پہر ماحول کے طول و عرض پر اپنی آمریت مسلط کر چکا تھا۔ گرمیوں کا سورج دِن کے آغاز سے ہی اپنے تیور دکھا رہا تھا۔دِتاّ کھیتوں کے بیچوں بیچ سے ہوتا ہوا منشی رب نواز کے←  مزید پڑھیے

سویرے والی گاڑی۔۔۔محمد افضل حیدر

شادی کے محض چار سال بعد ہی دونوں میاں بیوی کے درمیان نوبت طلاق تک پہنچ گئی تھی۔ تلخ کلامی اور رویوں میں سرد مہری اب آئے روز کا معمول تھا۔ارشد نے اسی برس چھوٹی عید کے دوسرے روز ایک←  مزید پڑھیے