مکھی ۔ سجاد خالد

عین مزنگ چونگی پر واقع راجا چیمبرز کی چار منزلہ عمارت سے نیچے اتر کر المشہور چھہتر ماڈل مکھی نما ستر سی سی ہنڈا موٹر سائیکل جب اپنی جگہ پر نہ ملی تو ہمیں یقین نہیں آیا۔ اس لیے بھی کہ قحط الرجال ہے اور اس حالت کی موٹر سائیکل کوئی نابغہ ہی پسند کر سکتا تھا۔ کفرانِ نعمت نہ بھی کریں تو نابغے کے لیے اس کو سٹارٹ کرنا افسانہ اور اس حالت کو برقرار رکھنا احمقانہ خیال لگتا تھا۔

جملہ فضائل تو اس سواری کے بیان نہیں ہو سکتے لیکن تبرکاً کچھ عرض کرتے ہیں۔

جب کراچی کے ریگل چوک سے قریب سیکنڈ ہینڈ آہنی اصطبل سے اسے خریدا گیا تو یہ بے آواز تھی۔ دو چار روز بعد انجن نے خرخرانا شروع کیا تو رش کے ہنگامے میں اتنا محسوس نہ ہؤا۔ پھر ایک دن خوب مینہ برسا اور یہ مادہ اسپِ آہنی جو نہا کر نکلی ہے تو فریدہ خانم کے مشہور گیت کی مصداق بن چکی تھی

میں نے پیروں میں پائل تو باندھی نہیں
کیوں صدا آرہی ہے چھن ننَ چھن
چھن نن چھن نن چھن نن

سو اب ہارن کی چنداں ضرورت نہ رہی تھی۔ ابھی ہم گلی کے کونے ہی پر ہوتے تو گھر کا گیٹ کھول دیا جاتا، بیسن کے پاس تولیہ لٹکا دیا جاتا اور توے پر روٹی دھر دی جاتی۔ گلی کے لونڈے لپاڑے جو ہماری نام نہاد شرافت سے گھبراتے تھے، اِدھر اُدھر ہو جاتے اور جو کھڑے رہنے پر مجبور ہوتے وہ اپنے موضوعات میں اصلاحِ معاشرہ کا کوئی رنگ بھر لیتے۔

بارش نے مکھی کے اندامِ نہانی میں رکھے ہوئے گتے نکال باہر کیے تو خالص لوہا اپنی قدرتی آواز میں گویا ہؤا۔ انجن کی پہلی تیل بدلی سے معلوم ہؤا کہ اس کو فروخت سے پہلے کیلے کھلائے گئے تھے۔ موبل آئل جب مہنگے مِلک شیک کی طرح گاڑھا ہو تو اچھے اچھوں کی آواز بیٹھ جاتی ہے، ستر سی سی انجن کس کھیت کی مولی تھا۔ آواز کے ساتھ دل بھی بیٹھ گیا۔

ہیڈ لائٹ اتنی تیز تو بہر حال تھی کہ وہ کھڈا صاف دکھائی دیتا جس میں ہم موجود ہوتے۔ فزکس میں روشنی کے موضوع سے ہماری دلچسپی کا اندازہ اس بات سے بآسانی لگایا جا سکتا ہے کہ ہیڈ لائٹ کو تیز کرنے کے لیے ہم نے پچھلے پہیے اور انجن سے منسلک چین کی تین گُھریاں نکلوا دیں۔ پلازا سینیما کا ایکشن اور رومانس سے بھرپور نو سے بارہ والا شو دیکھ کر جب ہم گھر کو نکلتے تو ہر طرح کے جذبات کے اظہار کے لیے یہی ناتواں ہوتی۔

گُھریاں نکلوانے والے تجربے نے ایک بانکپن بھی اس مکھی کو بخشا اور وہ یہ کہ سگنل کھلتے ہی معمول سے کچھ زیادہ ریس دینے پر یہ پچھلے پہیے پر کھڑی ہو کر چوک پر رکے ہؤوں کو سلامی پیش کرتی اور ہم خود کو دیومالائی شہسوار سمجھتے۔

اہل اللہ سے دیرینہ نیاز مندی کے طفیل مکھی کے جملہ ظاہری اور باطنی کمالات محسوس کر کے طے ہو گیا کہ اب اسے مقفل نہ رکھا جائے سو ایک ڈیڑھ برس روزانہ دفتر کے نیچے اسی طرح کھڑی رکھی گئی۔

اردگرد کے دکانداروں سے دو ایک روز پوچھ پاچھ کر فاتحہ پڑھ لی۔ دل کہتا ہے ان دنوں یہ غزل اتفاقاً تو مقبول نہیں ہوئی ہو گی

تو کیا یہ طے ہے کہ اب عمر بھر نہیں ملنا

لیکن ایک ہفتے بعد ہمیں بتایا گیا کہ آپ سے کوئی ملنے آیا ہے۔

ہم سٹوڈیو سے نکلے تو خود کو مرتب رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے بیس بائیس برس کے پست قد سانولے سے ایک صاحب کو منتظر پایا۔

ہم سے پہلے سلام کر لیا۔ ادب سے ملے اور عقیدت سے بات شروع کی۔ سر۔۔ میں نے سُنا ہے کہ آپ کی موٹر سائیکل چوری ہو گئی ہے۔ عرض کیا کہ جی یہ درست ہے۔ فرمانے لگے مجھے بہت افسوس ہؤا، سوچا تعزیت کر آؤں۔ ہم حیران ہوئے کہ اللہ کی شان تھی۔ چائے پی چکنے کے بعد بھی جاتے نہ دکھائی دئیے تو ہم نے کہا کہ آپ تشریف رکھیں، ہمیں اندر کچھ کام کرنا ہے۔ کہنے لگے
بس میرا ایک مشورہ تھا۔
ہم نے کہا فرمائیے۔
اب وہ کچھ قابلِ رحم سی حالت میں تھے۔ کہنے لگے کہ
ہماری بھی موٹر سائیکل ایک بار چوری ہو گئی تھی۔ تھانے میں رپورٹ درج کروانے کا کوئی فائدہ نہ ہؤا۔ معروف چوراہوں پر بڑی بڑی دکانوں کے گارڈز اور سیلز مینوں کو موٹر سائیکل کا حلیہ اور نمبر لکھوا دیں۔ جلد مل جائے گی۔
ہم نے ان کے اخلاص پر مصنوعی تشکر کا اظہار کیا لیکن وہ اٹھتے نظر نہ آئے۔

کچھ دیر مکمل خاموشی چھا گئی۔ پھر گلا صاف کر کے گویا ہوئے۔ سجاد صاحب۔
عرض کی، جی۔
لیکن خاموش ہو گئے۔
پھر یکلخت پوچھا، آپ کو کسی نے کچھ بتایا ہے؟
ہم نے کہا نہیں تو!۔ کس بارے میں؟
خوف چھپاتے ہوئے کہنے لگے ۔۔۔ اچھا
..وہ۔۔۔۔ نیچے فلاں شو روم کا سیلز مین ہے ناں
جی جی ۔ ہے تو
وہ کہہ رہا تھا میں مولوی صاحب کو بتاؤں گا.. کہ
۔۔۔۔کہ ان کی موٹر سائیکل تم نے چوری کی ہے۔
اچھا ۔ ۔ کتنی بری بات ہے، لیکن آپ سے اس نے ایسا کیوں کہا؟
سر وہ جھوٹا آدمی ہے، میں بہت شریف فیملی سے ہوں، بس وہ مجھے تنگ کر رہا ہے۔
ہم نے دلگیر لہجہ بناتے ہوئے کہا۔۔۔ بالکل۔ اس کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔
سر آپ اس کی بات کا یقین نہ کیجیے گا۔
نہیں نہیں بلکہ میں اس کو سمجھاؤں گا کہ معصوم پر تہمت لگانے کا کتنا گناہ ہوتا ہے۔

وہ کچھ پریشان اور کچھ مطمئن ہوئے۔ پھر کہنے لگے۔ آپ کی مرضی ہے لیکن اس سے ملنے کا کیا فائدہ ہے۔ اسے بس اس کے حال پر چھوڑ دیں۔
عرض کی
جی یہ بہتر رہے گا، ویسے آپ کہاں ہوتے ہیں؟
جی میں؟؟
ادھر ای
ادھر۔ ۔ کدھر؟
پہلی منزل پر فلاں انٹرپرائز میں فیلڈ ورکر ہوں۔
بس تو آپ اب جائیں اور اس معاملے کو بھول جائیں۔ ہم نے زبردستی ان کا ہاتھ پکڑ کر خدا حافظ کہہ ڈالا۔

قارئین سمجھ گئے ہوں گے کہ ہم کیا کرنے والے تھے لیکن دفتر کے دوستوں نے ہنس ہنس کر آسمان سر پر اٹھا لیا تھا۔ مکھی کی قبر کی مٹی ابھی خشک نہ ہوئی تھی اور یہ ظالم ہمیں یعنی ہمیں بھی لوٹ پوٹ کیے دے رہے تھے۔

مہمان کے جاتے ہی ہم کچھ پرسکون محسوس کرنے لگے۔ یہ معلوم نہ ہو سکا کہ یہ سکینت ان کے آنے سے میسر آئی یا جانے سے۔ بہرحال ہم نے تہمت لگانے والے سے فوری ملاقات کی کہ اے محسن، اے مربی تو کہاں تھا اب تک۔

برادرِ عزیز تُم
کہاں پہ ہو گئے تھے گُم
ہزار نغمہ ہائے نو
ہزار جلوہ ہائے ضو
تماری جستجو میں گُم

سیلز مین نے ہمیں دیکھ کر پہلے شرمندگی محسوس کی کہ یہ قریبی قرطبہ مسجد کے باقاعدہ نمازیوں میں شامل تھا اور پھر کچھ جوش سے گویا ہؤا

بھائی جان، ایک ہفتہ پہلے یہ دس بارہ لڑکے معمول کے مطابق شام پانچ بجے نیچے اترے تو آپ کی کالی موٹر سائیکل کا ہینڈل کُھلا دیکھ کر ایک نے کِکیں مارنی شروع کر دیں۔ بہت دیر لگا رہا۔ جب اس کے پسینے چھوٹ گئے تو دوسرے نے کہا میں ٹرائی کرتا ہوں۔ پانچ چھ لڑکوں کی ناکامی کے بعد یہ سانولا لڑکا کوشش کرنے لگا اور بالآخر اس نے سٹارٹ کر لی۔ تالیوں کی گونج میں یہ باقی لڑکوں کو ٹھینگا دکھا کر چلا گیا۔ اس وقت تو خیال نہیں آیا کہ یہ ان کی موٹر سائیکل نہیں تھی۔ جب دو روز پہلے آپ ادھر ادھر پوچھتے پھر رہے تھے تو آپ کے جانے کے بعد خیال آیا۔ کچھ ہی دیر بعد وہی سانولا لڑکا گزرا تو میں نے اس سے کہا تم نے میرے سامنے وہ کالی موٹر سائیکل سٹارٹ کی تھی لیکن وہ صاف مُکر گیا۔

سیلز مین کا شکریہ ادا کیا اور تفتیش کا رُخ پہلی منزل کی جانب موڑ دیا گیا۔ اس ہماہمی میں ذہن مکھی سے تعلق کی تہہ دار تاریخ میں کئی بار ڈوبا۔

اسی شام دو چیتا نما دوستوں کے ساتھ ہم فلاں انٹرپرائز کے دفتر پہنچ گئے اور گورے چٹے خوش شکل مالک سے کہا کہ آپ کے فلاں کارکن نے ہماری مکھی اغوا کر لی ہے، اسے فوراً رہا کروا دیں۔ وہ صاحب کہنے لگے کہ ہمارے لڑکے ایسی حرکت کر ہی نہیں سکتے۔ اس بات پر ہمارے مشتعل دوست نے ان سے کہا کہ مجھے اچھی طرح دیکھ لیں، میں دو منٹ میں اچھے بھلے انسان کو ہمیشہ کے لیے میڈیکلی ان فٹ کر سکتا ہوں۔ بظاہر یوں لگا کہ ہمارے دھمکانے کا کچھ خاص اثر ان کی طبیعت پر نہیں ہو سکا تھا۔بہرحال ہم چلے آئے۔

مکھی سے ہماری محبت دو چار روز پر مشتمل کسی دل پھینک عاشق جیسی تھوڑی تھی بلکہ لیلیٰ مجنوں کی طرح یعنی ’تمہیں کوئی لیتا نہیں تھا اور ہمیں کوئی دیتا نہیں تھا‘ کے مصداق زمینی نہیں، آسمانی حقیقت تھی۔

وہ گدی کی سختی، وہ پِھٹ پِھٹ، وہ چَھن چَھن
وہ اک صنفِ نازک، وہ اک اسپِ آہن

شاہراہوں پر جدید ماڈل کی نسبتاً بلند قامت الہڑ موٹر سائیکلیں جب دائیں بائیں ہوتیں تو ہم خود کو خاصے’ڈاؤن ٹو اَرتھ ‘ محسوس کرتے۔ کسے خبر تھی کہ مزاج کی عاجزی نصیبے کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ تکفیرِ نعمت ہو گی اگر اعتراف نہ کیا جائے کہ مکھی نے ہمیں کئی بار سر بلند کیا۔ ایک صاحب روزانہ ٹوکے والے چوک پر صبح لفٹ کے لئے کھڑے ہوتے اور حسنِ اتفاق سے ان کی نگاہِ التفات و انتخاب بھی ہمیں پر ٹھہرتی۔ ان کا دفتر این سی اے (آرٹ کالج) کے بازو میں ٹاؤن ہال تھا سو آٹھ نو کلومیٹر کی روزانہ رفاقت میں وہ ہماری ڈرائیونگ کے قتیل ہو گئے تھے۔ ایک دن فرمانے لگے کہ آپ بغیر بریک لگائے اتنی مہارت سے رش میں سے راستہ بناتے ہیں کہ رفتار بھی کم نہیں ہوتی۔ ہم نے عرض کی کہ آپ کا حُسنِ نظر ہے اور دل میں سوچا کہ اگر بریک ہوتی تو یہ جوہرِ قابل زمانے کو کہاں مل سکتا تھا۔ ہم نے بریک کی عدم موجودگی میں تھروٹل کنٹرول ڈرائیونگ پر جو ملکہ حاصل کیا تھا وہ مکھی کا فیض تھا۔

ہم تجھے بھول کے خوش بیٹھے ہیں
ہم سا بے درد کوئی کیا ہو گا

مکھی پر ہمارے ہمرکابوں میں علمائے دین، صلحائے امت، اساتذۂ فن، ہمارے ذاتی جلیل القدر شاگرد، خبیث الفطرت ہم جماعت اور راہ چلتے ضعیف و بخیل اجنبی بھی شامل تھے جن کے ٹخنوں اور کہنیوں کی چِھلائی معمولاتِ شہسواری میں ممتاز جبکہ ان کے کان بحرِ مذموم میں عقب سے آتے اور معدوم ہوتے نعرے ’اوہ تیری تے میں ں ں ۔ ۔ ۔ ‘ سے اک گونا مانوس ہو گئے تھے۔ آپ خوب واقف ہوں گے کہ قوم کے بڑوں نے دشنام کا جواب دینے پر اپنا سفر جاری رکھنے کو ہمیشہ ترجیح دی تھی۔

رہگزر کے لمس سے پیدا ہونے والے جملہ امراض سے نپٹنے کے لیے ہلدی، دیسی گھی، گرم اینٹ کی ٹکور کے ساتھ اینٹی ٹیٹنس کے ٹیکے اب ہمارے ہم سفروں کی پُر آشوب زندگی کا حصہ بن چکے تھے۔

واپس آ کر بے یقینی کی کیفیت رہی۔ کوئی کہتا کہ پولیس رپورٹ میں ان لوگوں کے نام دے دینے چاہئیں۔ اور کسی کا خیال تھا کہ دفتر میں مدعو کر کے اس طرح دار سارق کی خدمت کی جائے۔ ہمیں تو رہ رہ کر یہی خیال آتا کہ مکھی کیسی ہو گی،
کہاں ہو گی، کہیں اس کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔

نہیں ۔۔۔۔ ایسا کچھ نہیں ہو گا وہ اپنی عفت پر حرف نہ آنے دے گی اور بلال گنج کے عدم آباد میں آرامیدہ ہونا پسند کرے گی یا اپنے اعضاء عطیہ کر کے کئی مکھیوں کو اپنی لطیف بے تابی بانٹ جائے گی۔

ہم ترے پیار پہ الزام نہ آنے دیں گے

مکھی کے ماضی کے بارے میں آنے والے ہر اندیشے کو دل جھٹک رہا تھا۔ ساحلی شہر میں وہ کس کس کے پاس رہی، اس گدی پر کون کون سوار ہؤا، کیا کیا سمجھوتے کیے، پہاڑ جیسی جوانی کیسے کٹی ۔۔۔ آنسو تھے کہ اندر ہی اندر جذب ہو رہے تھے۔ ہمیں آج بھی یاد ہے کیسے ترپال کے سائے میں اندرونِ سندھ کچے کے ڈاکوؤں، دھوپ، بارش اور پولیس سے بچتے بچاتے فلائنگ کوچ کی چھت پر رکھ کر اس نازک اندام کو ہم مولوی عبد الحق، مُنّی بیگم اور اجمل قصاب کے نگر سے کتب خانوں، بارہ یا تیرہ دریوں، جوئے خانوں اور باغوں کے تاریخی شہر تک لے آئے تھے۔ مشاہیر کے نام نوکِ زبان پر اس لیے نہیں آئے کہ فی الحال ہمیں یہیں رہنا ہے۔وقت کہیں ٹھہر گیا تھا۔ خیال آیا کہ
دن تو گزر جائے گا، کیا ہو گا جب رات ہوئی

وہ شام کچھ عجیب تھی اور ہجر کی وہ رات تو کاٹے نہیں کٹتی تھی۔ جو شے بہر صورت کٹتی تھی وہ مچھر کی عنایت سے کٹتی تھی۔ صبح آئینہ دیکھ کر ان عنایات کے طفیل شہرۂ آفاق رقیب یاد آ جاتا اور دل داد طلب نگاہوں سے کہتا

تو نے دیکھی ہے یہ پیشانی، یہ رُخسار، یہ ہونٹ

اگلے دن ہم بوجھل قدموں سے دفتر پہنچے۔ سہ پہر کے وقت تین افراد ملاقات کے لیے آئے۔ ایک تو فلاں انٹرپرائز کے مالک تھے جو ابھی تک میڈیکلی فِٹ دِکھ رہے تھے، دوسرے پکی رنگت والے قریب تیس برس کے پریشان حال اجنبی اور تیسرے سانولے سلونے ہمدرد ممدوح جن کے حوالے سے ہمارا جی کچھ دن سے میلا ہو رہا تھا۔ آخر کو معاملہ غیرت کا تھا جس پر قابو رکھ کر اسلاف نے عظیم الشان فتوحات کی تھیں۔

معاملہ فہمی میں ہم مشہور تھے سو ٹھیک سے کچھ سمجھ نہیں پائے لیکن آنکھیں الحمدللہ اُسی فہم سے معمور تھیں۔ ہمارا اعتماد دیکھ کر پکی رنگت کے اجنبی نے فرمایا
آپ ہی سجاد صاحب ہیں۔
اقرار میں سر ہلاتے ہوئے کہا، جی
سانولے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگے
یہ میرا چھوٹا بھائی ہے۔ آپ کی موٹر سائیکل یہی لے کر گیا تھا۔ پہلے دن ہم نے پوچھا کہ کس کی ہے؟ تو کہنے لگا کہ ایک دوست سیر کے لیے مری گیا ہے، اس کی ہے۔

ہمارے ایک کولیگ نے پوچھا کہ کیا اس نے پہلے کبھی چوری نہیں کی؟
بڑے بھائی نے کہا، یہ چھوٹی چھوٹی حرکتیں کرتا رہا لیکن ہم نے توجہ نہیں دی۔ نتیجہ یہ ہے کہ بات یہاں تک آ پہنچی۔ غلطی ہماری ہے۔ سزا بھی ہمیں ملنی چاہیے۔ پھر ہماری طرف دیکھ کر کہنے لگے
آپ سے بس اتنی درخواست ہے کہ بھلے اس کی کھال کھینچ لیں لیکن پولیس کو بیچ میں نہ لائیں۔

اب ہمارے سانولے سلونے ممدوح بولے۔ بھائی جان مجھے معاف کر دیں۔ میری وجہ سے میرے گھر والوں کو بھی شرمندگی ہوئی۔ لیکن جس آزمائش سے میں گزرا ہوں اس کا کسی کو اندازہ بھی نہیں۔

سب متوجہ ہوئے تو وہ فرمانے لگے۔
بھائی جان آپ کی موٹر سائیکل کے سٹارٹ ہونے کی کسی کو بھی امید نہیں تھی اور سب لڑکے تھک ہار کے جب اسے چھوڑ چکے تو میں نے بھی مایوسی میں کوشش شروع کی اور تھوڑی ہی دیر میں یہ سٹارٹ ہو گئی۔

مت پوچھ ولولے دلِ ناکردہ کار کے

پھر بہت معصومانہ سوال کر دیا
بھائی جان آپ اسے کیسے سٹارٹ کرتے ہیں
ہم نے کہا، آپ نے ایک ہفتے میں تو سیکھ ہی لیا ہو گا۔ کچھ شرمندگی سے جی کڑا کر کے سلسلۂ کلام جوڑا اور کہا
جب میں اسے لے کر نکلا تو اسی چوک پر اچانک سگنل بند ہو گیا۔ میں سب سے آگے تھا اس لیے اچانک بریک لگائی۔
دوسرا معصومانہ سوال یہ تھا
بھائی جان اسے کہاں سے، یعنی کیسے روکتے ہیں۔
ہم نے کہا، زیادہ روک ٹوک تو ہم نے کی نہیں، بس ٹینکی پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہیں، اگر مناسب سمجھے تو تھم جاتی ہے۔

ان کے بڑے بھائی کھلکھلا کر ہنس دئیے لیکن موقع کی نزاکت دیکھ کر خود پر قابو پا لیا۔

بھائی جان ٹریفک پولیس والے نے مجھے زندگی میں پہلی بار گالیاں دیں اور کاغذات نہ ملنے پر اوپر کی جیب سے پینتیس روپے بھی نکال لیے۔ پیسے کم لگے تو اگلے پہیے کی ہوا نکال لی۔

میں اسے گھسیٹتا ہؤا پنکچر والے کے پاس پہنچا۔ ہوا بھروائی تو یہ پھر سٹارٹ نہ ہوئی۔ قریب ایک مکینک نے کہا، اس کا پلگ شارٹ ہو گیا ہے اور نیا پلگ لگا دیا۔ بھائی جان چالیس روپے کا پلگ لگوایا تو سٹارٹ ہو گئی۔ میں بغیر بریک کے آہستہ آہستہ گھر پہنچ گیا۔

آدھی رات خوشی اور آدھی پریشانی میں گزری۔ اگلے دن چھٹی تھی۔ اس کے نئے بریک شُو لگوا کر نکلا۔ اشارے پر کھڑے ہونے کا مزا آ گیا لیکن سگنل سبز ہوتے ہی یہ خاموش ہو گئی۔ تین کلومیٹر گھسیٹتا ہؤا مکینک کے پاس پہنچا تو وہ کہنے لگا اس کا سٹارٹنگ کوائل جل چکا ہے۔ کہیں سے پرانا کوائل سو روپے کا ڈال کر اس نے سٹارٹ کر دی تو اگلے چوک پر پٹرول ختم ہو گیا۔ پمپ والے کے سامنے پٹرول والی ٹینکی نہ کھل سکی کیونکہ چابی تو تھی نہیں۔ پھر پیدل چل چل کے گیا اور بیس روپےکی یہ دو چابیاں بنوائیں۔ یہ آپ رکھ لیں، میری طرف سے۔

بھائی جان آپ بہت نیک انسان لگتے ہیں۔ اس موٹر سائیکل کو چوری کرتے ہی مجھ پر ایسے ایسے عذاب آئے کہ میں ۔۔ میں ۔۔ اللہ مجھے بخش دے ۔۔۔ میرے اللہ مجھے بخش دے۔۔۔ بھائی جان۔ مجھے معاف کر دیں ۔۔۔۔ مجھے معاف کر دیں

ایسی دلسوزی اور سچی توبہ دیکھ کر حاضرین پر رقت طاری ہو گئی، مکھی اسی جیون میں امر ہوئی اور سانولی رنگت سے ہمیں مشہورِ زمانہ رقیب یاد آ گئے

Advertisements
julia rana solicitors london

آ کہ وابستہ ہیں اُس حُسن کی یادیں تُجھ سے

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply