گھروندا ریت کا(قسط33)۔۔۔سلمیٰ اعوان

”کِس سے ملنا ہے آپ کو؟“
کہنا پُوچھنا تو یہی تھا۔پر دروازے کے پٹ کو ہاتھوں میں پکڑے اور اُسے دیکھتے اُس کی زبان جیسے کچھ بولنے سے انکاری ہوگئی تھی۔ہاں البتہ آنکھوں نے کُھل کُھلا کر اس کا اظہار کردیا تھا۔
اطلاعی گھنٹی کے بجانے کا انداز مقامی لوگوں جیسا تھا۔اس نے رین کوٹ وارڈ روب سے نکالتے ہوئے جُھنجھلاکر خود سے کہا تھا۔
“اِس ماریا کی بچی کو بھی ہر جگہ جلدی پہنچے کا مالیخولیا ہے۔اب دیکھو وقت سے پہلے ہی آدھمکی ہے۔جینٹ اور مارتھا دونوں ڈیوٹی پر ہیں۔چیزوں کا کھلارا پڑا ہے سوچا تھا اُن کے آنے سے پہلے انہیں سمیٹ لوں گی۔صفائی بھی کرنا تھی۔اب سب کچھ یونہی چھوڑ چھاڑ کر جانا پڑے گا۔”
دروازہ کھولا اور اپنے سامنے ہاتھوں میں بریف کیس پکڑے ایک پُرکشش سمارٹ سے مرد کو دیکھا جو پاکستانی تھا یا پھر ہندوستانی۔
دونوں ایک دوسرے کے بالمقابل کھڑے تھے۔وہ دیکھتی تھی جب اُس نے کہا تھا۔
”مجھے اندر تو آنے دیجیئے۔ اتنا کڑا نظریاتی احتساب اطمینان سے کریئے گا۔“
تھوڑی سی شرمندگی،تھوڑی سی خجالت تو ضرور محسوس ہوئی۔پر ساتھ ہی ڈھٹائی پن پر غصہ بھی آیا۔
ہاں البتہ اُس کے لہجے میں چھلکتا بھرپوراعتماد تھوڑا مرعوب بھی کر گیا۔ذرا پیچھے ہٹی اور اُسے نشست گاہ کا راستہ دکھایا۔وہ صوفے پربیٹھا۔بالوں پر پھوار سی پڑی ہوئی تھی جسے اُس نے رومال سے صاف کیا۔کوٹ اُتار کر صوفے کے بازو پر رکھا اور خود سے قدرے فاصلے پر بیٹھی رائل بلیو سوٹ اور ہمرنگ شال میں لپٹی لڑکی کو غور سے دیکھا جو اُس کی ایک ایک حرکت کا بغور جائزہ لے رہی تھی۔
”اگر میں غلطی پر نہیں تو آپ ڈاکٹر تہمینہ شمشیر علی ہیں۔“
”جی میں تہمینہ ہی ہوں۔“اُس نے کِسی قدر آہستگی سے کہا۔

”مجھے اپنا تعارف کروانا چاہیے یا آپ جان گئی ہیں۔“
چند لمحے سرجھکائے رکھنے کے بعد اُس نے گردن اُوپر اٹھائی تھی اور اُس لڑکی جو گہری تنقیدی نگاہ سے اُس کے جائزے میں مصروف تھی سے مخاطب ہواتھا۔
اور تہمینہ نے متانت آمیز سنجیدگی سے گیند کو اُس کے کورٹ میں پھینک دیا تھا۔
”تعارف کروائیں گے تو معلوم ہوگا۔“
لمحے بڑی کاٹ والے تھے۔اُس نے اپنے آپ سے کہا تھا۔
“اس احمق لڑکی نے مجھے کِس جہنم میں دھکیل دیا ہے۔”
”نجمی کہاں ہے؟“
ڈاکٹر تہمینہ کو محسوس ہواتھا جیسے اُس کا تیزی سے دھڑکتا دل ساکت ہوگیا ہے۔اُس کی پیازی رنگت یکدم سفیدی میں بدل گئی تھی۔
رحمان نے اِسے محسوس کیا تھاکہ جب وہ بولی تھی اُس کی آواز میں خفیف سی لرزش بھی تھی۔
”وہ میرے چھوٹے بھائی کے پاس امریکہ گئی ہے۔اُس کا کینیڈا اپنے بڑے بھائی کے پاس جانے کا بھی پروگرام ہے۔شاید اُسی طرف نکل گئی ہو۔کیونکہ ہفتہ بھر سے مجھے اس کا فون نہیں آیا۔“
”آپ مجھے وہاں کے ایڈریس دے دیجئے۔میں اُسے لے آؤں گا اور آپ کے بھائیوں سے بھی ملاقات ہوجائے گی۔“
ڈاکٹر تہمینہ ابھی جواب کے گومگو میں تھی کہ عین اُسی وقت بیل بجی۔ماریااندر آئی۔ماریا لبنان کی عیسائی لڑکی تھی اور کنگز کالج میں تہمینہ کے ساتھ ہی پڑھتی تھی۔لندن میں اقبال جینتی منائی جارہی تھی وہ ڈاکٹر تہمینہ کو ساتھ لے جانے کیلئے آئی تھی۔بڑی بروقت آمدتھی ماریا کی۔ معقول اور موزوں عذر سوچنے اور اُسے پیش کرنے کے لئے وقت مل گیا تھا۔
گھر میں ایک اجنبی صورت کو بیٹھے دیکھ کر علیک سلیک ہوئی۔تہمینہ نے اُس کا تعارف ضرور کروایامگرنہ نجمی کے شوہر اورنہ ہی بہنوئی کی حیثیت سے۔بس اپنے کِسی میل ملاقاتی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا۔اُن کے عزیز ہیں پُوربو پاکستان سے آئے ہیں۔
ماریا پُوربو پاکستان میں دلچسپی رکھتی تھی۔وہاں کا سُن کر صوفے پر بیٹھ گئی اور باتیں کرنے لگی۔
تہمینہ موقع غنیمت سمجھتے ہوئے اُٹھ گئی۔اُس نے فوراً چیزوں کو سمیٹا۔چائے بنائی۔پیش کی۔کپڑے بدلے اور پھر معذرت کرتے ہوئے بولی۔
”آپ آرام کیجئے۔میں جلدی لوٹ آؤں گی۔جانے کا ارادہ تو نہ تھا۔مگر کچھ پاکستانی اور ہندوستانی لوگوں نے جو میرے مریض بھی ہیں مجھے اس تقریب میں شامل ہونے پر بہت مجبور کیا ہے۔مجھے زیادہ سے زیادہ دوگھنٹے لگیں گے ہاں آپ کا کچھ کھانے کو جی چاہے تو پنیڑی میں سبھی کچھ موجود ہے۔“
اُن کے جانے کے بعد وہ اٹھا اُس نے اپنی پسند کی کافی بنائی۔پی اور پھر خوابگاہ میں آکر بستر پر لیٹ گیا۔
یہ تو اِس مختصر سے وقت میں ہی اُسے اندازہ ہوگیا تھا۔کہ وہ اُسے نجمہ کے شوہر کی حیثیت سے قبول کرنے کو تیار نہیں۔اس کا بھی قوی
امکان ہے کہ وہ اُسے ایڈریس ہی نہ دے۔بقول اُس کے وہ امریکہ اور کینیڈا اپنے بھائیوں کے پاس ہے۔تو پھر؟
اُس نے کروٹ بدلی۔یہ صورت اُس جیسے دبنگ بندے کیلئے انتہائی ناپسندیدہ تھی۔
“احمق لڑکی نے اپنے آپ کو اور مجھے کِن گھمن گھیریوں میں اُلجھا دیا ہے۔یہ سب میرے مزاج کے بالکل برعکس ہے۔تمہاری اس بہن کے سامنے مجھے وضاحتیں دینی پڑیں گی۔جو میں قطعی دینا پسند نہ کروں گا۔”
وہ بڑا مضطرب ساتھا۔ دائیں بائیں پہلو بدل رہا تھا۔کبھی چھت کو دیکھتا اور کبھی دیواروں پر نظریں جما لیتا۔پھر وہ خود سے باتیں کرنے لگا۔
”تم اگرصرف میری ضرورت ہی ہوتیں تو میں اپنے دل پر پتھر رکھ لیتا مگر تم میرے بچوں کی وہ مجبوری ہو جس نے اُنہیں اٹھ اٹھ آنسو ررُلادیا ہے۔اتنی کمی تو انہوں نے اپنی ماں کی بھی محسوس نہیں کی جتنی وہ تمہاری کر رہے ہیں۔وہ تو جیسے اب ممتا سے محروم ہوئے ہیں۔بیٹی ہرسانس کے ساتھ تمہارا نام جپتی ہے۔ بیٹا ہر آن تمہیں پُکارتا ہے۔ تم جس طرح چلی آئیں میں کبھی تمہارے پیچھے نہ آتا مگر بچوں نے میری خودداری اور آن کو کُچل دیا ہے۔“
وہ سو گیا۔ جاگا اُس وقت جب برتنوں کا ہلکا ہلکا شور گھر میں بکھرا ہواتھا اور کھانے کی اشہتا انگیز خوشبو سارے گھرمیں پھیلی ہوئی تھی۔
کھانا دونوں نے اکٹھے کھایا۔زیادہ وقت خاموشی رہی۔رحمان اُس سے پیشہ ورانہ سوالات کرتا رہا جن کے جواب وہ متانت سے دیتی رہی۔دوسری کوئی بات نہیں ہوئی۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے وہ قصداً اِس موضوع پر گفتگو سے گریز کر رہی ہے۔مگر کب تک بات نہ ہوتی۔وہ جب لاؤنج میں آئے۔اور کافی بھی پی چکے تب اس نے کہا۔
”آپ مجھے ان کے ایڈریس دے دیجئے۔تاکہ میں بی اے اوسی یا پان امریکن کی کسی بھی فلائٹ سے چلا جاؤں۔
اُس نے اِس بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔چُپ چاپ اپنے سامنے دیکھتی رہی۔جب خاموشی ناگوار اور بوجھل محسوس ہونے لگی۔تب اُس نے ایک بار پھر کہا۔
”میں نے آپ سے کچھ کہا ہے تہمینہ۔ میں آپ سے تعاون کا متمنی ہوں۔ “
”میں نہیں چاہتی کہ جس صدمے سے میں دوچار ہوئی ہوں میرے بھائی بھی اُسی صورت کا سامنا کریں۔“
”آپ حقائق کا سامنا کھُلی آنکھوں سے کریں۔جو کچھ ہو چکا ہے۔اُس پر افسوس کی بجائے غور کریں کہ آپ نے صورت حال سے اب کیسے نپٹنا ہے۔“؟
اُس کا چہرہ غصے سے سُرخ ہوگیا۔وہ قدرے تیز آواز میں بولی۔
”آپ خاصے سمجھداراور معقول آدمی نظر آتے ہیں۔نجمہ جیسی جذباتی اور احمق لڑکی ہی ٹریپ کرنے کے لئے رہ گئی تھی۔“
”ٹریپ۔“
اس بار اُس کا چہرہ سُرخ ہوا اور وہ تُند آواز میں بولا۔
”معاف کیجئے گا۔میں نے اُس سے شادی کی ہے اور وہ میری بیوی ہے رکھیل یا محبوبہ نہیں ہے۔“
”شادی۔“
ڈاکٹر تہمینہ کے ہونٹوں پر زہر خند ہنسی اُبھری۔

اس ہنسی میں رحمان کو اپنی تذلیل نظر آئی تھی۔
”یوں شادی ہوتی ہے کہ جنم دینے والے ماں باپ لاعلم،محبت کرنے والے بہن بھائی بے خبر، عزیز رشتہ دار ناواقف۔
دُنیا بہت آگے جا رہی ہے ڈاکٹر تہمینہ۔آپ لندن میں رہتے ہوئے بھی اسی خول میں بند ہیں اِس خول سے باہر آجائیں۔
”میں اسی خول میں رہتے ہوئے یہاں تک پہنچی ہوں۔اس ماڈرن دنیا کے طور طریقوں کی حوصلہ افزائی میرے بس کی بات نہیں۔ آپ لوگوں کے کیا رواج ہیں۔نہیں جانتی۔مجھے تو صرف اتنا پتہ ہے کہ ہم جیسے نچلے متوسط طبقے کے لوگ اور ہماری خاندانی حدیث۔ رواج میں بیٹیاں خاندان کا مان ہوتی ہیں۔وہ چاہنے والوں کی دعاؤں کی چھاؤں میں رُخصت ہوں تو اُسی میں سب کی نیک نامی ہوتی ہے۔آپ اور ہم کوئی یورپ کے باسی نہیں کہ ایسے اقدامات کو سراہنا شروع کر دیں۔ہم لاکھ بھی ترقی پسند ہو جائیں پھر بھی اس سوسائٹی سے ناطہ نہیں توڑ سکتے جس میں بڑھے پلے ہیں۔
وہ باتیں کرتے کرتے رُک گئی۔اُس کا چہرہ وفور جذبات سے لال بوٹی ہو رہا تھا۔اس کی آواز میں تلخی تھی۔وہ تھوڑی دیر خاموشی کے بعد پھر بولی تھی۔
”آپ نے صرف اپنے مفاد کو مدّنظر رکھا اور اُس بوڑھے باپ کے سفید بالوں کا کوئی خیال نہیں کیا جس کی نجمہ بیٹی ہے۔“
وہ پھر خاموش ہوگئی۔کچھ دیر بعد پھر بولی۔
لگتا تھا جیسے وہ آہستہ آہستہ اپنے دل کی اُس گھُٹن اور بھڑاس کو نکال رہی ہے جو مہینوں سے اُس کے دل پر ڈیرے ڈالی بیٹھی تھی۔
آج آپ میرے پاس آئے ہیں۔کیا پہلے نہیں آسکتے تھے۔ہوسکتا ہے میں اس سلسلے میں آپ کو بہتر مشورہ دیتی۔
“محبت اور جنگ میں سبھی کچھ جائز ہے۔ میں نے اُسے پسند کیا تھا۔چاہا تھا۔حالات مجھے جس موڑ پر لے آئے تھے۔اُن کے پیش نظر مجھے اُس سے شادی کرنی پڑی۔
جی ہاں باپ کی پگڑی پاؤں میں روند کر۔آپ سوچ بھی نہیں سکتے ہمارا تعلق کیسے کٹرادردقیانوسی گھرانے سے ہے۔رشتے دار تو ہمارے باپ کا سر ہمیشہ کے لئے اِس طعنے سے ہی جُھکا دیں گے کہ بڑا لڑکیوں کو پڑھانے چلا تھا۔ناک کٹوا دی۔
”میں آپ سے اُلجھنے کے لئے تیار نہیں۔اپنی بہن اپنے پاس رکھیئے۔میرے جذبے اگر صادق ہوئے تو مجھ تک وہ ضرور پہنچے گی۔“
اور اتنا کہہ کر وہ اٹھا۔بریف کیس پکڑا اور باہر نکل گیا۔تہمینہ نے اُسے روکنے کی رسمی سی کوشش بھی نہ کی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply