پاکستانی ادب اپنا بیانیہ کھو چکا ہے، محمد نصیر زندہ

1:اظہار اور ابلاغ کی جتنی بھی صورتیں ہیں ان میں شاعری کو کیا امتیاز حاصل ہے؟واجبی تعلیم رکھنے والے لوگ یا کم پڑھے لکھے شاعری کو نہیں سمجھ سکتے،اس تناظر میں اظہار کا یہ ذریعہ کیوں کر دیگر ذرائع سے ممتاز کہلا سکتا ہے؟
جواب:اظہار و ابلاغ کی خبر رساں صورتیں تیز ترین وسعت پذیری کی حامل ہیں،لیکن ان کا سفر خبر رسائی سے آگے نہیں۔خبر مختصر وقت میں اپنا اثر کھو دیتی ہے۔اس کے علاوہ رقص ، موسیقی، مصوری،اور مجسمہ سازی اظہار و ابلاغ کی طاقت ور صورتیں ہیں۔اس تناظر میں دیکھیں تو انسانی ذہن ایک کائنات سے کم نہیں،اور ہر صورت کائناتی معنویت کے ساتھ انسانی ذہن کو مختلف جہات سے روشن کر رہی ہے۔لیکن ان کی عالمگیر اکائیاں عام دماغ نہیں سمجھ سکتا۔ان سب صورتوں میں شاعری کس طرح ممتاز ہے؟رقص، موسیقی،مصوری اور مجسمہ سازی کی کئی کیفیات شاعری اپنی اندر جذب کر کے ایک نئے افق پر انھیں قوسِ قزح کے رنگوں میں آشکار کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ شاعری کائنات سے آگے کا سفر ہے۔شعر نہ صرف لاشعور کی وسعت انگیز کیفیات سے پردہ اٹھاتا ہے بلکہ لامکانی رازوں کا در بھی وا کر دیتا ہے۔امروز کے آئینے میںفردا کی صورت ظاہر کرتا ہے۔علامہ اقبال کا یہ شعر کسی ان دیکھے معنیاتی افق کی خبر دے رہا ہے۔
کارواں تھک کر فضا کے پیچ و خم میں رہ گیا
مہر و ماہ و مشتری کو ہم عناں سمجھا تھا میں
شعر کی تاثیر کو زمانے فنا نہیں کر سکتے۔ایک شعر پوری قوم کے جذبات کا غماز ہو سکتا ہے،یہ ابلاغ کسی اور ذریعہ ء اظہار میں نہیں۔جب فردوسی نے عربوں کے بارے میں یہ شعر کہا تو یہ ساری ایرانی قوم کا ترجمان تھا۔
کہ تخت ِ کیاں را کنند آرزو
تفو بر تو اے چرخِ گرداں تفو
شاعری کا یہ مسئلہ نہیں کہ اس کو عام انسان نہیں سمجھ سکتا۔ شاعری اس دماغ کو متاثر کرتی ہے جو انسانی ذہن کی سمت متعین کرنے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔شعر کثیر الابعاد معنیاتی نور سے پوری نسل ِ انسانی کے لیے شعور ِ کائنات کی مشعل روشن کرتا ہے۔

2:اردو شاعری نے معیار کے حوالے سے کتنی ترقی پائی ہے؟دنیا کی دو عظیم زبانوں کے مقابل،جن کے ساتھ اس کا رشتہ بھی ہے،عربی اور فارسی،اردو شاعری نے خود کو کس حد تک منوایا؟
جواب:اردو شاعری کے اگر معیار کی بات کریں اور عالمی ادب میں اس کا مقام متعین کریں تو مجھے یہ بات کہنے میں کوئی باک نہیں علامہ اقبال کے بغیر دنیاکا ادبِ عالیہ نا مکمل ہے۔ اگر اردو کا رثائی ادب دیکھیں تو جہاں ملٹن کی فردوسِ گم گشتہ ،یونانی شعرا کے رزمیے،مہا بھارت اور رمائن کی تاریخی اہمیت ہے،وہاں انیس و دبیر کے مرثیے ادب کے عالمی منظر نامے میں اپنا مقام رکھتے ہیں۔ بڑی اہم بات تو یہ ہے کہ دنیا کے رزمیے اور اردو کا رثائی ادب مشترکہ اسلوبیاتی جہتیں رکھتے ہیں۔یہی حال نظم اور غزل کا ہے۔رہی یہ بات کہ اردو نے عربی اور فارسی کے مقابلے میں خود کو کتنا منوایا ہے،ہر زبان کا ادب اپنی مقامی روایت کے ساتھ ترقی کا سفر طے کرتا ہے۔ عربی روایت بہت توانا اور وسعت پذیری کی حامل ہے جبکہ فارسی تہذیب اسلام سے پہلے کمال کو پہنچی ہوئی تھی۔پھر اردو کی لسانی عمر عربی اور فارسی سے بہت کم ہے۔کم عمری میں اردو ادب کا عالمی ادب میں جگہ بنانا قابلِ تحسین ہے۔
3: اردو شاعری کی کون سے صنف تمام اصناف کی سرتاج کہلا سکتی ہے؟
جواب: یہ تاجوری ملکہ ء سخن غزل کو حاصل ہے۔ برصغیر کی مٹی غزل کے خمیر میں گوندھی گئی ہے۔ اس کی ہمہ جہت جلوہ آرائی اسے مقبول ِ عام بنانے میں موثر ثابت ہوئی ہے۔ شاعر غزل کے پردے میں کبھی خود کلامی کرتا ہے اور کبھی خدا کے سامنے احتجاج کا نغمہ الاپتا ہے۔شاعر اپنے داخلی جذبات کے آئینے میں محبوب کا حسن ِ گماں رکھ کر تیشہ ء لفظ سے پیکر تراشی کرتا ہے۔جیسا کہ غزل عورتوں کے متعلق باتیں کرنے کو کہا جاتا ہے،شاید اسی لیے غزل نے عورت کی نفسیاتی چادر اوڑھ لی ہے۔ جس طرح عورت کی روح مسخر کرنا مشکل ہے اسی طرح غزل پر کامل دسترس حاصل کرنا اگر ناممکن نہیں تو آسان بھی نہیں۔ اس کیفیت نے غزل کو اردو شعرا کی محبوبہ بنا دیا ہے۔اگرچہ غالب نے تنگنائے غزل کہا لیکن اس کے شعر کو پناہ غزل ہی میں ملی۔رمز و ایما سے لاشعور کی آرزو کو بیان کرنا غزل کا بنیادی وصف ہے۔اس میں تخیل اور جذبہ مل کر تغزل پیدا کرتے ہیں۔غزل کی روایت فارسی سے اردو زبان میں منتقل ہوئی ہے،لیکن اب اس پر اردو شعرا پر مکمل قبضہ ہے۔جنھوں نے متنوع مضامین کو آئینہ ء جمال بنایا ہے۔
در پردہ انھیں غیر سے ہے ربط ِ نہانی
ظاہر کا یہ پردہ ہے کہ پردہ نہیں کرتے
غزل کے ساتھ یہ ظلم بھی روا رکھا جا رہا ہےکہ جو شاعر شمشیر ِ قلم اٹھاتا ہے اسی کو تختہ ء مشق ِ سخن بناتا ہے۔
4:رباعی کو آپ نے اپنا میدان کیوں بنایا؟یہ صنف نظم اور غزل سے پیچھے کیوں نظر آتی ہے؟
جواب: ہر شاعر کو اس کی طبع کسی صنف ِ سخن کی طرف کھینچ کر لے جاتی ہے۔سخن ور کا طبعی میلان شعری اصناف کے انتخاب میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔میری اور رباعی کی طبیعت میں کوئی قدرِ مشترک تھی۔جس کی وجہ سے رباعی نے میرا یا میں نے رباعی کا انتخاب کیا۔اس کا دوسرا پہلو پوٹھوہاری تہذیب کا چو مصرعہ بھی ہے،اور ایک پہلو میرا چشتی مشرب ہونا بھی مجھے رباعی کی طرف لے گیا۔چونکہ صوفیانہ مضامین کی ایمائیت رباعی کے مختصر طرز ِ نگارش میں ابلاغ کے ساتھ بیان کی جا سکتی ہے۔ان باتوں کی بنا پر میں نے رباعی کا انتخاب کیا۔اردو ادب میں رباعی دوسری اصناف ِ سخن، غزل اور نظم سے بہت پیچھے ہے،اس کی کئی وجوہات ہیں جن میں سے ایک،بر صغیر کے لوگوں کا فطری میلان ہے۔ اہل ِ ذوق کی طبیعتیں غزل کے اوزان پر نہ صرف موزوں ہیں بلکہ رواں دواں بھی ہیں۔ ہمارے لوگ رباعی کا مذاق نہیں رکھتے۔ نظمیں بڑے شعرا نے لکھی ہیں،جس کی وجہ سے وہ مقبول ہوئیں۔رباعی کے ساتھ ایسا تجربہ نہیں کیا گیا۔اگر رباعی کو ،درد،غالب، اقبال،اصغر گونڈوی اور فیض احمد فیض لکھتے تو یہ صنف بہت ترقی کرتی۔
5:کیا پاکستانی ادب نے بحثیت مجموعی اپنے فرائض پورے کرنے میں کامیابی حاصل کی؟ بالخصوص معاصر ملکی ادب کو آپ اس حوالے سے کیسے دیکھتے ہیں؟
جواب:پاکستانی ادب کی سرحدیں میر و غالب ،آتش و ناسخ سے شروع ہو کر اقبال ،فیض،حفیظ جالندھری،ن،م راشد،پروین شاکر، جون ایلیا،احمد فراز،اور افتخار عارف تک پھیلی ہوئی ہیں۔ان شعرا کی وجہ سے پاکستانی ادب کا تاج محل کھڑا ہے۔ ان کے مقابلے میں آج معاصر ملکی اداب کا جائزہ لیں تو کامیابی کی کوئی سمت نظر نہیں آتی۔آج پاکستانی ادب کی کوئی منزل نہیں،کوئی سمت نہیں،شعرا میں نہ فکری تموج ہے نہ کوئی فلسفہ ء حیات کار فرما نظر آتا ہے۔

غالب کا شعر درست تلفظ میں جو نہیں پڑھ سکتے انھوںکی شاعری کی کتابیں لکھی ہوئی ہیں۔وہبی شاعر آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ایک اور ستم یہ بھی ہے کہ جو کچھ لکھا جا رہا ہے اس کو شعر نہیں کہا جا سکتا۔تنقید کے شعبے میں مکمل خلا پیدا ہو گیا ہے۔جس کی ذمہ دار پاکستانی جامعایت ہیں۔ آج جمیل جالبی،عبد الحق، ڈاکٹر وزیر آغا، پروفیسر فتح محمد ملک،نیاز فتح پوری،سلیم اختر،یوسف حسین خان،اور سید عابد علی عابد پیدا نہیں ہو رہے ہیں۔یہ صورت ِ حال اردو ادب کے زوال کی آئینہ دار ہے۔ در اصل یہ دور مادے کی ترقی کا دور ہے۔مادہ پرستی کی طاقت نے جمالیاتی ذوق کو قتل کر دیا ہے۔ پوری دنیا میں جو منظر نامہ چل رہا ہے اس نے اردو ادب کو سخت متاثر کیا ہے۔جس کی وجہ سے ہمارا ادبی بیانیہ گم ہو گیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ: محمد نصیر زندہ رباعی کے استاد شاعر ہیں، زندہ کا یہ انٹرویو “روزنامہ اساس کے ادبی ایڈیشن کے لیے معروف صحافی جناب ناصر مغل صاحب” نے  کیا، ”  یہ انٹرویو اپنی اثر پذیری اور ہمہ گیریت کے اعتبار سے  بہت اہمیت کا حامل ہے اس لیے اسے مکالمہ کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔ ادارہ

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply