گمانِ محبت(1)-جمیل آصف

تیز قدموں سے چلتا یونیورسٹی کے  کوریڈور میں  وہ بس اپنے آرٹیکل کے لیے کچھ مواد کے حصول کے لیے لائبریری کی طرف جا رہا تھا۔۔۔
“خطاب میری بات سننا”
عظیم نے اسے پکارا
اپنی ازلی جلد بازی اور اپنے کام پر مرتکز رہنے کی عادت پر اس کو ہاں کہتے ہی جلدی سے لائبریری میں داخل ہو گیا ۔ کتابوں کے ریکس میں اپنی پسندیدہ کتاب کی تلاش کے بعد جونہی خطاب ریڈنگ ٹیبل کی جانب بڑھا تو اچانک اسے وہ سامنے ہمیشہ کی طرح سادہ سی  باوقار ہلکے سے میک اپ  میں جو وہ ہمیشہ کرتی تھی کریم کلر کے ڈوپٹے میں اسی کے امتزاج کے ساتھ موسم سے مطابقت رکھتے ہوئے لباس میں   موجود تھی ۔
“اس کی قربت کا احساس زیادہ دل کش ہے یا اس کتاب کا مطالعہ”
ایک ہلکی سی مسکراہٹ خود سے کی گئی سرگوشی سے ہونٹوں پر پھیل  گئی ۔
“ایک ہلکے سے قہقہے کے ساتھ
“دونوں”
اب وہ اسی کشمکش میں کہ اسے خاموشی سے کتاب کی اوٹ میں دیکھے یا کتاب کے من پسند مضمون میں کھو جائے ۔جو ویب سائٹ کے لیے آنے والے ہفتے میں بھیجے جانے والے مضمون کے لئے ضروری تھا ۔اسے ایک دوراہے پر کھڑا کردیا ۔
انسان بھی اس وقت بے بس ہو جاتا ہے جب اسے دو پسندیدہ چناؤ میں سے  کسی ایک کا چناؤ کرنا پڑے ۔

دل کی آواز اسے کتب بینی  سے باز رکھ رہی تھی اور دماغ ہمیشہ کی طرح اسے مطالعہ کی طرف متوجہ کر رہا تھا ۔اور ایسی تمام جذباتی کیفیات میں  ہمیشہ دماغ اس  پر حاوی رہتا تھا ۔اور اب بھی یہی ہوا ۔
کچھ لمحے بے  ترتیب ہوتے خیالات کو یکسو کر کے وہ مطالعہ میں مشغول ہو گیا ۔کچھ وقت کے بعد جب ھال میں نظر دوڑائی تو وہ جا چکی تھی ۔
ہمیشہ کی طرح وہ اس کے ساتھ اپنے یکطرفہ احساس کی دنیا میں کھو گیا۔
“تم ہمیشہ سے ایسی ہی سنجیدہ ہو،؟”
تصور میں اس سے سوال کرنے لگا ۔
لیکن فریق دوم ہو تو اسے جواب ملے ۔
بلند قہقہہ لگا کر ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے خود سے مخاطب ہوا
“کم از کم یک طرفہ احساسات میں امید کی کرن تو باقی رہتی ہے، انسان اپنی مرضی کے رنگ تو بھر لیتا ہے”
اور قدم بڑھا دئیے ۔
“محبت کا احساس ان کہی سوچوں میں نکھار، زندگی کے رنگوں میں قوس قزح بھرتا ہے ۔ لفظوں میں مہک گفتگو میں چاشنی اور سماعت میں محبوب کی صدائیں روح لطیف احساسات سے روشناس کرواتی ہیں ”

Advertisements
julia rana solicitors

اس نے قلم بند کیا ڈائری کو ٹیبل میں رکھا، اپنے خیالات وہ اب تک کاغذ کے ہی سپرد کرتا آیا تھا ۔اس کا محرم  راز وہ کاغذ ہی تھے لیکن کب تک وہ اپنے جذبات کو چھپا پاتا ۔
کہتے ہیں عشق، مشک اور رشک چھپائے نہیں چھپتے ۔یہ بات اسے بھی معلوم تھی چہرہ آنکھیں، قدم اور الفاظ کا چناؤ آشکار کر ہی جاتا ہے ۔
“خوبصورت عورت بدصورت منظر کو بھی خوبصورت بنا دیتی ہے”
کسی جگہ یہ پڑھی ہوئی بات پر خطاب کو اس وقت یقین ہونے لگتا جب اریج اسے اپنے پاس اردگرد نظر آتی منظر حسین جگہ خوبصورت، احساس دل کش اور روح کشادہ محسوس ہوتی ۔۔
“کیا میرے وجود میں اس کا جزو ایک روح کی مانند بنتا جا رہا ہے؟ یا میں، میری سوچیں میرے انداز فکر تک میں وہ خاص حد  تک داخل ہو چکی ہے ۔۔”
وقت کے ساتھ وہ اسے بہت سوچنے لگا
“جب آپ کسی کو بہت سوچتے ہیں تو آپ کی سوچ کا محور، دیکھنے کا انداز باتوں میں اس کا تذکرہ حتی کہ  لفظوں تک میں اس کی مہک محسوس ہوتی ہے ”
ایک دن وہ عادل  سے اپنے دل کی کیفیت کو بیان کر بیٹھا تو وہ اسے سمجھانے لگا ۔۔۔
” بات تمھاری درست ہے عادل  حتی کہ میں مستقبل کے لیے  اپنے اہداف، مقاصد تک میں اس کو بطور شریک محسوس کرنے لگا ۔ وقت کے ساتھ یہ کیفیت بڑھ ہی رہی ہے ۔”
اکثر کمروں میں گھٹن بڑھ جائے تو کھڑکی دروازے کھول دئیے جاتے ہیں تاکہ تازہ ہوا اس گھٹن زدہ ماحول کو تروتازہ کردے ۔
انسانی حواس اور سوچوں پر آئی ایسی کیفیت کے انسان بھی کسی ایسے فرد  یا مقام کی تلاش میں ہوتا ہے جو اس گھٹن میں اس کا معاون ہو، ایک اچھا ساتھی اس کی الجھی گرہوں کو سلجھانے والا مخلص دوست  جس کی قربت اسے پرفضا مقام کا کا احساس دلائے ۔
جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply