محبت کی نفسیات(قسط2)۔۔عارف انیس

یہ جو محبت ہے!
بس ،دو تین سو برس پہلے کی بات ہے!
محبت پر بات شروع ہوئی ہے تو جھیل میں پہلا پتھر پھینکتے ہیں۔ محبت کی باقی اقسام پر بھی بات ہوگی مگر پہلے “رومانوی محبت” سے نبٹتے ہیں۔ رومانوی محبت کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ محبت، جیسا کہ ہم اسے آج کل جانتے، پہچانتے ہیں، ناولوں میں پڑھتے ہیں اور فلموں میں دیکھتے ہیں، کوئی لگ بھگ دو تین سو برس پہلے کی بات ہے اور بس!!!
جی ہاں، ہوسکتا ہے آپ کو پڑھتے ہوئے ایک جھٹکا سا لگے۔ کیونکہ آپ کے خیال میں رومانوی محبت لاکھوں سال سے موجود ہے اور رہے گی، مگر تحقیق کے حساب سے یہ ابھی ایک نوخیز ایجاد ہے۔ ایک چیز ذہن میں رکھیں، میں محبت کی بات نہیں کر رہا، رومانوی محبت کی بات کر رہا ہوں اور یہ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں۔

پھر آپ سوچیں گے کہ مرد اور عورت لاکھوں سال سے کیا کرتے تھے؟ تو اس کا جواب ہے کہ وہ آپس میں شادی کے روایتی یا غیر روایتی طریقے سے تعلقات قائم کیا کرتے تھے اور شعرو شاعری، و خط نویسی میں وقت ضائع نہیں کرتے تھے۔ بائیالوجی کے حساب سے مرد زیادہ سے زیادہ سپرم دنیا میں سپرے کرنے کے لیے آیا ہے تاکہ اپنی اور اپنی نسل کی بقا کے امکانات کو بڑھا سکے۔ جب کہ عورتوں کا جسم اس طرح کی آوارگی کےلیے موزوں نہیں تھا، سو اس وجہ سے شادی کے ادارے نے جنم لیا۔ جس کے ذریعے مرد کو ایک ضابطے میں باندھ لیا گیا تاکہ رشتوں، خاندان اور وراثت کا تعین کیا جاسکے۔ اس معاملے میں روایات اور مذاہب نے اپنا اپنا کردار ادا کیا۔

سو صدیوں سے زیادہ تر مرد اور عورت شادی کیا کرتے تھے، مگر “محبت” اس تعریف کے مطابق نہیں جو آج کل مروج ہے۔ چونکہ زیادہ تر معاشرے مردانہ تھے سو مرد ایک دو، تین، چار یا زیادہ شادیاں کرلیتے تھے۔ چونکہ جنگوں کا دور دورہ تھا سو غلاموں اور کنیزوں کی شکل میں انہیں مزید جنسی تصرف مل جاتا تھا اور انہیں “رومانوی محبت” کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی۔ ایک دوسرے کی طلب ہوتی تھی، ایک دوسرے کی بھوک لگتی تھی اور اس بھوک کو مٹا لیا جاتا تھا۔ اس تصرف میں زیادہ آسانی مردوں کے لئے تھی مگر ایڈوینچرس عورتوں کے لیے بھی کمی نہیں تھی۔
لیکن نہیں، آپ کو ہیلن آف ٹرائے یاد آئے گی کہ کس طرح ایک یونانی عورت کی آنکھوں کی مستی نے ایک ہزار بحری جہازوں کی جنگ کرا دی تھی۔ عرض یہ ہے کہ وجہ “محبت” نہیں تھی( یہاں مراد وہ محبت کی تعریف ہے جو آج کل مروجہ ہے)۔ ہیلن زیوس دیوتا کی بیٹی تھی جس کا دل مینی لاؤس پر آگیا تھا اور اس سے اس کی شادی ہوگئی ۔ تاہم بعد میں وہ ایک جنگجو پیرس کے ساتھ بھاگ گئی اور اس کی وجہ سے ٹروجن کی جنگ لڑی گئی۔ ہوسکتا ہے آپ نے ٹرائے فلموں دیکھی ہو، مگر یاد رکھیں یہ فلم ابھی کی داستان ہے۔ ہومر نے جواب کہانی لکھی تھی وہ جنسی کشش پر مبنی تھی، اس میں محبت کا کوئی خاص کردار نہیں تھا۔ یہی نہیں، یاد رکھیں کہ جب ٹروجن کی جنگ میں پیرس مارا گیا تو ہیلن نے اس کے بھائی کے ساتھ شادی کرلی، جس کو اس نے خود دغا دے کر مروایا اور واپس بھاگ کر اپنے شوہر مینی لاؤس کے پاس آگئی اور آخری وقت تک اسی کے ساتھ، ہنسی خوشی رہتی رہی۔

2400 سال پہلے افلاطون نے اپنی کتاب “سمپوزیم” میں ایک تھیوری پیش کی تھی جو بڑی دلچسپ ہے۔ اس تھیوری کے مطابق جب زیوس دیوتا نے دنیا تخلیق کی تو ایک ہی انسانی جسم میں نر اور مادہ دونوں وجود قائم تھے۔ پھر کسی انسانی شرارت پر طیش میں آکر زیوس دیوتا کے انسانی وجود کو درمیان میں سے کاٹ دیا۔ تب سے نر اور مادہ ایک دوسرے کو ڈھونڈتے پھرتے ہیں اور زندگی میں جیسے ہی کبھی ایک دوسرے کے سامنے آتے ہیں تو وہ ملاپ کے ذریعے ایک ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ اسے افلاطون کی “سول میٹ” تھیوری بھی کہہ سکتے ہیں۔

ہوسکتا ہے کہ آپ کو “محبت” کی لافانی یادگار تاج محل یاد آئے جو کہ کئی سو سال پہلے تعمیر کیا گیا تھا۔ یاد رکھیں ملکہ ممتاز، شاہ جہاں کی “سات بیویوں” میں سے “چوتھی بیوی” تھی۔ 1631 میں ممتاز 47 سال کی عمر میں انتقال کر گئی تھی۔ جب ممتاز اپنے چودہویں بچے کو جنم دے رہی تھی۔ ان کے چودہویں بچے کا نام گوہر بیگم تھا۔ ممتاز کے انتقال کے بعد شاہ جہاں نے ممتاز کی بہن فرزانہ کے ساتھ شادی کر لی تھی۔ جی ہاں یہ ذہن میں رکھیں کہ ممتاز محل سے “بے تحاشا” محبت کے دوران شاہ جہاں کے حرم میں ہزار سے زائد کنیزیں بھی موجود رہا کرتی تھیں۔
یہاں ایک دفعہ پھر خلاصہ کرلیتے ہیں۔ صدیوں سے مرد اور عورت جنسی کشش کے باعث، ایک دوسرے سے جسمانی ملاپ کی تڑپ رکھتے تھے اور جیسے تیسے اس منزل پر پہنچ جایا کرتے تھے۔ اس سارے عمل میں “محبت” کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ تعدد ازدواج عام تھا۔ باقی جنگوں میں مال غنیمت کے صورت میں کنیزیں ہاتھ آجاتا کرتی تھیں۔ ایک عورت پر قناعت نہیں کی جاتی تھی۔ جو “محبت” کرتے تھے اور تاج محل بناتے تھے، ان کے حرم بھی بھرے رہتے تھے۔

رومیو اور جولیٹ رومانوی محبت کی ابتدائی سیڑھی کہی جاسکتی ہے۔ شیکسپیئر کی بیان کردہ اس رومانوی کہانی میں کچھ اجزاء موجود ہیں، مگر یہ مت بھولئے کہ یہ کہانی بھی بنیادی طور پر شادی کے گرد گھومتی ہے جو کہ مالی مقاصد کے لیے کی جارہی تھی مگر “محبت” کی وجہ سے رکاوٹ آگئی۔ اس کہانی میں پہلی مرتبہ محبت کی تڑپ اور ایک دوسرے کے لیے جان دینے کی بات ہوئی، مگر ہماری موجودہ مروجہ تعریف سے وہ بھی کسی حد تک دور ہے۔

اب مروجہ تعریف ہے کیا؟ جسے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ انیسویں آور بیسویں صدی کے لٹریچر، ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کی فلموں کے زیر اثر تشکیل کردہ تعریف ہے جسے ہم ارد گرد دیکھ پاتے ہیں۔ محبت کی  موجودہ تعریف اپنے محبوب کو سامنے پا کر گم سم ہوجانا، کھو جانا، اپنے حواس سے باہر ہوجانا ہے۔ اس میں محبوب کے عیب، غائب ہوجاتے ہیں۔ اس میں جذبات میں طغیانی آجاتی ہے۔ بھوک، پیاس، نیند، چین اکارت ہوجاتا ہے۔ ایک بے کلی چھا جاتی ہے۔ یہ جذباتی طغیانی صرف جنسی ملاپ سے نہیں بجھتی بلکہ اس میں ایک دوسرے کا ہونا سب سے بڑی ضرورت بن جاتی ہے۔ محبت کی یہ تعریف اس حوالے سے بہت مختلف ہوتی ہے کہ اس میں پوری دنیا ایک شخص کے گرد گھومتی ہے، اس میں شیئرنگ کی گنجائش نہیں ہے، حسد پورے عروج پر ہوتا ہے اور رومانوی محبت کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ اس میں تیسرے شخص کی موجودگی اس کے خاتمے کا باعث بن جاتی ہے۔ آپ کے لیے خبر یہ ہے   کہ یہ رومانوی محبت، جس میں “سول میٹ” کی تلاش کی جاتی ہے، یعنی وہ روح یا جسم کا حصہ جو صدیوں پہلے ہم سے بچھڑ گیا تھا، اس کو پانے کے لیے پہاڑ سر کیے جاتے ہیں اور سمندر پایاب ہوجاتے ہیں، بس کوئی لگ بھگ دو سو برس پہلے ایجاد ہوئی ہے۔
اب ہم رومانی محبت تک پہنچ ہی گئے ہیں تو یہ دیکھتے ہیں کہ عورت اور مرد محبت کے بارے میں کیسے ایک جیسے اور کیسے مختلف ہیں؟

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply