عبدالحکیم کون ہیں وثوق سے کُچھ کہنا ممکن نہیں۔مزاج بلغمی تو انداز شبنمی۔بلا کے دل پھینک ہیں پر مجال جو کبھی نگاہیں زمین سے اُٹھائی ہوں۔اندازِ تکلم ایسا کہ جیسے پھول جھڑ رہے ہوں پر جو مغلظات بکنے پہ آئیں تو لوگ کانوں کو ہاتھ لگائیں۔ سب سے تعلق پر مزاجِ یار سے نا آشنا۔تنہائی پسندہیں یا خود پرست کہنا مشکل ہے. نام کے حکیم ہیں پر طب پہ اتنا عبور ہے کہ کسی کے سر میں درد ہو یا کسی کو دورہء قلب حکیم صاحب ڈسپرین ہی تجویز کرتے ہیں۔حکیم صاحب کے لئے سب کے لئے سب سے مشکل کام شاید شادی بیاہ کی رسومات میں شرکت کرنا ہے۔ جب بھی کوئی دعوت نامہ موصول ہوتا گھبرا جاتے ہیں۔ویسے تو ناڑہ کھول کے کھانے کے عادی ہیں پر شادی میں فاقہ کشی کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ سوچ ہے کہ بوٹیوں سے بھری پلیٹ دیکھ کر لوگ کیاسوچیں گے یا یہ کہ زیادہ کھانے سے اگر بد ہضمی ہو گئی تو رفعِ حاجت کا اہتمام اتنے لوگوں کی موجودگی میں کیسے سر انجام پائے گا ایسے موقع پہ اکثر ساغر صدیقی کا شعر
سکونِ غم سے جو گزرے تو پھرنہ ملی آواز
یہیں کہیں ان گلیوں میں کھو گئی آواز
ذہن کے کسی گوشے میں آپ ہی آپ دستک دے دیتا۔اب رفعِ حاجت اور اس شعر کا آپس میں کیا تعلق ہے یہ صرف عبدالحکیم ہی جانتے ہیں ۔ حضرتِ انسان کو خدا کی عظیم مخلوق مانتے ہیں۔فرماتے ہیں کہ جیسے گنا ہے ، اب جیسے گنا بذاتِ خود بھی میٹھا اس سے گنڈیریاں بنتی ہیں جن کی الگ مٹھاس ہے، پھر گنے سے شکر بنتی ہے ، گنا ہے تو گُڑ ہے ،گنا نہ ہو تو چینی نہ ہو ، تو بھائیو ایسے ہی انسان ہے۔اب جو کسی نے کہہ دیا کہ حکیم صاحب ہر گنا میٹھا نہیں ہوتا تو حکیم صاحب مسکرا دئیے جیسے بات سمجھ آ گئی ہو لیکن مسکراہٹ ایسی ہوتی کہ بات کر نے والا سوچ میں پڑ جاتا کہ جانے حکیم صاحب اس بات سے کیا سمجھے ہیں ؟. خیر کُچھ بھی ہو حکیم صاحب آدمی کمال کے ہیں کیونکہ والد صاحب کا نام ۔۔۔۔۔۔۔۔عبدالکمال ہے

جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں