• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • اقبال کا موقف اس کی نثر سے ثابت کرو(دوسری،آخری قسط)۔۔ڈاکٹر محمد شہباز منج

اقبال کا موقف اس کی نثر سے ثابت کرو(دوسری،آخری قسط)۔۔ڈاکٹر محمد شہباز منج

اقبال جس ماحول میں پروان چڑھے وہ مذہبی لحاط سے وہی ماحول تھا، جو اس زمانے میں برصغیر کا عام ماحول ہوا کرتا تھا، جس میں تصوف اور صوفیانہ نظریات سے لگاؤ فطرتاً ہو جاتا تھا۔ اس میں انھوں نےابن عربی کی فصوص اور فتوحات کا بھی مطالعہ کیا، جیسا کہ انھوں نے خود ایک خط میں واضح کیا۔ اس زمانے میں ان کی فکر پر وحدت الوجودی تصوف کی چھاپ واضح نظر آتی ہے، نہ صرف شاعری میں جا بجا اس تصور کے عکاس اشعار دکھائی دیتے ہیں، بلکہ مختلف اہلِ علم سے خط و کتابت میں بھی اس نظریے سے متعلق بحث و گفت گو کرتے نظر آتے ہیں، جیسا کہ خواجہ حسن نظامی سے ایک خط میں استفسار کرتے ہیں کہ مجھے قرآن سے تصوف سے متعلق آیات کا پتہ دیجیے۔ (شیخ عطاء اللہ، اقبال نامہ، جلد دوم ص 355) اسی طرح سید سلیمان ندوی سے بھی اس ضمن میں استفسار کیا ، جس کا انھوں نے تفصیلی جواب دیا، اور ہندوانہ اور جاہل صوفیہ کے تصورِ وحدت الوجود کو واضح کرکے مسلم صوفیہ کا درست نظریہ وحدت الوجود واضح کیا ۔ ( دیکھیے :مسعود عالم ندوی (مُرتب) مکاتیبِ سلیمان(خط 172۔الف) چراغ راہ ، لاہور ، 1954،ص 186۔)اسی مطالعے اور تحقیق کا اثر تھا کہ انھوں نے1900ء میں شائع ہونے والے ایک مضمون بعنوان” عبدالکریم جیلی کا تصورِ توحید مطلق ” میں کہا کہ ابن عربی امت محمدیہ کے عظیم ترین اور کثیر التصانیف صوفیہ میں سے تھے، وہ زمین کے سورج کے گرد گھومنے اور سمندر پار ایک دور دنیا کے پائے جانے کا تصور بھی رکھتے تھے۔(دیکھیے :محمد سہیل عمر ، ابن عربی اور اقبال،ماہنامہ سیارہ 39 ، لاہور (1995):38)

اقبال کا تصوف اور وحدت الوجود سے یہ تعلق تقریباً  1908ء تک رہا، قیام ِ یورپ کے دوران بھی وہ تصوف کے وایتی نظریے اور وحدت الوجود کے قائل رہے۔ اس دور کی مذکورہ پس منظر کی عکاس نظموں میں زہد ورندی، گل پژمردہ، تصویر درد، شمع وغیرہ شامل ہیں۔ قیامِ انگلستان کے دوران میں بھی اقبال کے تصوف اور وحدت الوجود کی طرف مائل ہونے کی شہادت اقبال کے ایک استاد پروفیسر میگٹیگرٹ کے اسرارِ خودی کے زمانے میں اقبال کو لکھے گئے ایک خط سے بھی ملتی ہے، جس میں وہ اقبال سے کہتے ہیں کہ اب آپ کے خیالات میں بہت تبدیلی دکھائی دے رہی ، جب انگلستان میں ہم فلسفے پربحث کیا کرتے تھے ،اس وقت تو آپ تصوف اور وحدت الوجود سے میلان رکھتے تھے۔انگلستان سے واپسی کے کچھ عرصہ بعد اسرارِ خودی کی تصنیف کے دوران میں تصوف کے حوالے سے اقبال کے خیالات میں تبدیلی پیدا ہوگئی۔ اب وہ تصوف کے سخت ناقد کی حیثیت سے سامنے آئے۔ 1908ءکے بعد سے اسرارِ خودی کی اشاعت (1915ء) تک اقبال اپنی شاعری اور نثری تحریروں میں تصوف پر سخت تنقید کرتے رہے ، لیکن اس زمانے کی تنقید تصوف کے حوالے سے بھی ذہن میں رہے، جیسا کہ اوپر بیان ہوا، کہ یہ تصوف کے دشمن کی تنقید نہیں، بلکہ ہمدرد کی تنقید ہے ،اور وہ نقد کے ساتھ ساتھ یہ بھی واضح کرتے رہے کہ میں اسلامی تصوف نہیں بلکہ عجمی تصوف کا ناقد ہوں، جس نے مسلمانوں کو حرکت و عمل کی بجائے ، سستی و کاہلی کی راہ دکھائی ہے۔ اسی زمانے میں ابن عربی ، حافظ شیرازی اور حلاج وغیرہ پر ان کی سخت تنقیدیں سامنے آئیں اور بعض جگھوں پر انھوں نے ان کے خیالات کو غیر اسلامی حتی کہ الحادو زندقہ سے بھی تعبیر کیا۔(دیکھیے: شیخ عطاء اللہ ، اقبال نامہ، جلد اول ، ص 40)اس دور کی ساری شاعری خواہ وہ مثوی اسرارِ خودی ہو یا بانگ درا میں شامل نظمیں ، وحدت الوجود کے اس رنگ سے خالی نظر آتی ہیں، جو اس دور سے پہلے ان کی شاعری میں عام دکھائی دیتا تھا۔

1916ء اور اس کے بعد کے دور میں اقبال کی پھر اسی نظریے کی طرف واپسی شروع ہوتی ہے، جس کے اوپر مذکور درمیانی عرصے میں وہ سخت مخالفت کرتے رہے تھے۔

اس ضمن میں ابتدا میں ان کی وہ تحریریں سامنے آتی ہیں جس میں وہ تصوف کی طرف نرم گوشہ پیدا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس زمانے میں وہ ابن عربی سے اختلاف بھی کر رہے ہیں، اور ساتھ ساتھ ان سے متعلق اپنے موقف کی غلطی کا امکان بھی تسلیم کر رہے ہیں۔24 فروری 1916 میں شاہ سلیمان پھلواری کے نام ایک خط میں لکھا کہ مجھے ابن عربی کی نسبت کوئی بدظنی نہیں، بلکہ مجھے ان سے محبت ہے۔ میرے والد کوفتوحات اور فصوص سے کمال توغل رہا ہے ،اور چار برس کی عمر سے میرے کانوں میں ان کا نام اور ان کی تعلیم پڑنی شروع ہوئی ، برسوں تک ان دونوں کتابوں کا درس ہمارے گھر میں رہا ۔ البتہ اس وقت میرا عقیدہ ہے کہ حضرت شیخ کی تعلیمات قرآن کے مطابق نہیں ہیں ،لیکن یہ بالکل ممکن ہے کہ میں نے شیخ کا مفہوم غلط سمجھا ہو، گو میں سمجھتا ہوں کہ اب میں ایک قطعی نتیجے تک پہنچ گیا ہوں،پھر بھی مجھے اپنےاس نظریے پر کوئی ضد نہیں، آپ کی خدمت میں ملتمس ہوں کہ از راہِ عنایت و مکرمت چند اشارات تسطیر فرما دیں ۔ میں ان اشارات کی روشنی میں فصوص اور فتوحات کو پھر دیکھوں گا اور اپنے علم ورائے میں مناسب ترمیم کرلوں گا ۔( دیکھیے:بشیر احمد ڈار ، انوارِ اقبال ،لاہور: اقبال اکادمی ، ل1977، ص177۔) گویا اب وہ ابن عربی اور ان کے نظریات پر دوبارہ غور کرنے کو تیار تھے، اور اس کے معاملے میں وہ شدت برقرار نہ رہی تھی ، جو 1908ء سے 1915ء (اسرارِ خودی کی اشاعت تک ) کے زمانے میں نظر آتی ہے۔ اس کی ایک اور شہادت اس خط سے ملتی ہے، جو مذکورہ خط کے کچھ ہی دن بعد 9مارچ1916ء کو شاہ سلیمان پھلواری ہی کے نام لکھا گیا ۔اس میں واضح فرماتے ہیں کہ میں حقیقی تصوف کا مخالف کیسے ہو سکتا ہوں! میں تصوف میں ان غیر اسلامی عناصر کا مخالف ہوں ،جن کی وجہ سے مغربی محققین نے تصوف کو غیر اسلامی قرار دیا ہے، اور ان لوگوں کا تصوف پر یہ حملہ دراصل اسلام پر حملہ ہے۔(دیکھیے:بشیر احمد ڈار ، انوار اقبال ، ص 181)

دسمبر 1928ءتا جنوری 1920ء کے دوران میں اقبال نے ریکنسٹر کشن میں شامل پہلے چھے خطبات دیے، جو 1930ء میں شائع ہوئے۔ اس عرصے میں بھی اقبال ابن عربی اور دیگر صوفیہ سے متعلق اپنی تحقیق اور مطالعات کو تازہ اور گہرا کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ 1932ء میں انھوں نے انگلستان میں مجدد الف ثانی پر لیکچر دیا، جو ان کے اپنے بقول بہت پسند کیا گیا۔ اس کے بعدوہ انگلستان ہی میں ابن عربی پر لیکچر کا ارادہ رکھتے تھے۔ اس ضمن میں انھوں نے سید سلیمان ندوی اور پیر مہر علی شاہ گولڑوی کو خطوط لکھ کر ابن عربی سے متعلق معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی۔ یہ تقریباً  ایک ہی جیسے خطوط ہیں، جو دونوں شخصیات کو علی الترتیب 8 اگست 1933ء اور 18 اگست 1933ء کو تحریر کیے گئے۔ پیر مہر علی شاہ کو لکھے گئے خط میں فرماتے ہیں کہ میں نے گزشتہ سال انگلستان میں حضرت مجدد الف ثانی پر ایک تقریر کی تھی، جو وہاں کے ادا شناس لوگوں میں بہت مقبول ہوئی۔ اب پھر اُدھر جانے کا قصد ہے، اور اس سفر میں حضرت محی الدین ابن عربی پر کچھ کہنے کا ارادہ ہے ۔ نظر بایں حال چند امور دریافت طلب ہیں ۔ یہ کہ حضرت شیخ اکبرنے حقیقت زمان کے متعلق کیا کہا ہے اوریہ آئمہ متکلمین سے کہاں تک مختلف ہے ؟ یہ تعلیم شیخ اکبر کی کون کون سی کتب میں پائی جاتی ہے اور کہاں کہاں ؟

اس سوال کا مقصود یہ ہے کہ سوال اول کے جواب کی روشنی میں خود بھی ان مقامات کا مطالعہ کر سکوں ۔ حضرات صوفیہ میں اگر کسی بزرگ نے بھی حقیقتِ زمان پر بحث کی ہو تو ان بزرگ کے ارشادات کے نشان بھی مطلوب ہیں۔مولوی سید انور شاہ صاحب مرحوم و مغفور نے مجھے عراقی کا ایک رسالہ مرحمت فرمایا تھا، اس کا نام تھا درائیۃ الزمّان۔جناب کو ضرور اس کا علم ہو گا۔میں نے یہ رسالہ دیکھا ہے، مگر چونکہ یہ رسالہ بہت مختصر ہے ،اس لیے مزید روشنی کی ضرورت ہے۔میں نے سنا ہے کہ جناب نے درس و تدریس کا سلسلہ ترک فرما دیا ہے، اس لیے مجھے یہ عریضہ لکھنے میں تامل تھا، لیکن مقصود چونکہ خدمتِ اسلام ہے ، مجھے یقین ہے کہ اس تصدیعہ کے لیے جناب معاف فرمائیں گے ۔ باقی التماسِ دعا ہے ۔( دیکھیے :عطااللہ ، شیخ ، اقبال نامہ ، جلد اول ،ص 443۔) پیر صاحب کے بارے میں کہا گیا کہ وہ اس وقت عالم استغراق میں تھے، سو جواب نہ دے سکے ، اور اقبال کی بھی اپنے وصال تک ابن عربی پر لیکچر کی خواہش پوری نہ ہوسکی۔بہر حال اس دور میں اقبال کے خیالات میں تصوف اور ابن عربی کے حوالے سے بہت تبدیلی واقع ہو چکی تھی اور بقول ڈاکٹر وزیر آغا وہ ردعمل باقی نہ رہا تھا، جو قبل ازیں وہ تصوف کو نو فلاطونیت اور ابن عربی کو شنکر کے مشابہ قرار دینے کی صورت میں سامنے لائے تھے۔اب ان کو معلوم ہو گیا تھا کہ شنکر کا فلسفہ اور ہے اور ابن عربی کا اور۔(دیکھیے: ڈاکٹر وزیر آغا ، تصوراتِ عشق و خرد اقبال کی نظر میں ،لاہور: اقبال اکادمی پاکستان ، طبع دوم ،ص 165-166۔)

ہم نے اپنی تحریر”اقبال کیسے مہنگا پڑے گا؟ لیجیے ایک جھلک دکھا ہی دیتے ہیں۔” میں حلاج کی تعریف و توصیف اور اس سے انسپریشن لینے سے متعلق اقبال کے افکار جاوید نامہ اور ضربِِ کلیم سے پیش کیے تھے، جو علی التریتب 1932ء اور 1934ء میں شائع ہوئی تھیں، جس سے واضح تھا کہ یہ اشعار اس دور کے ہیں ،جب اقبال دوبارہ وجودی تصوف کی طرف آ چکے تھے، مگر ہمارے معترض کا فرما ن تھا کہ یہ شاعری ہے، اس میں ایسا کہہ دینے کی کوئی بات ہی نہیں،حالانکہ اقبال عام شاعروں کی طرح ہر گزنہیں تھا، وہ جو کہتا بلا خوفِ لومۃ لائم کہتا اور شاعری میں بھی اپنا نظریہ بھرپور طریقے سے بیان کرتا۔یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ اقبال حلاج ایسے صوفیوں کو ویسے تو نا پسندکر رہا ہو ، لیکن اپنی اشعار میں ان کی تعریف میں زمین و آسمان کے کلابے ملائے، اور نہ صرف خود ان سے انسپریشن لے بلکہ دوسروں کو بھی ان سے فیض حاصل کرنے کی طرف مائل کرے۔جو اقبال اسرارِ خودی میں حافظ شیرازی سے اختلاف کرتے ہوئے اس کی مذمت میں یہ اشعار لکھ سکتا تھا کہ:
ہوشیار از حافظِ صہبا گسار۔۔۔جامش از زہر ِاجل سرمایہ دار
آں فقیہہِ ملت مے خوارگاں۔۔۔آں امام امتِ بے چارگاں
بے نیاز از محفلِ حافظ گزر !۔۔۔الحذر از گو سفنداں ، الحذر !

وہ اب حلاج سے اختلاف کررہا ہوتا تو اس کی مذمت کرتا نہ کہ اس کی مدحت میں وہ اشعار لکھتا جس کا حوالہ ہم نے مذکورہ تحریر میں دیا تھا۔مزے کی بات یہ ہے کہ جاوید نامہ میں اقبال نے صرف حلاج کی سرسری تعریف پر ہی اکتفا نہیں کیا، بلکہ اس کے نظریۂ جبر کا د فاع بھی کیا ہے، جو اقبال کے فلسفے کے بالکل خلاف پڑتا ہے۔ (اس لیے کہ وہ حلاج کو اس سے بالکل مختلف مقام سے دیکھ رہے تھے ، جس سے اسے دیگر لوگ دیکھتے ہیں) ۔ ذرا دیکھیے کہ قدر کا قائل اقبال جبر کے قائل حلاج کے فلسفے کی تشریح کیسے کرتا ہے اور کیسے اسے جبر سے اٹھا کر قدر کے رنگ میں رنگ دیتا ہے:
ہر کہ از تقدیر دارد ساز و برگ۔۔۔لرزد از نیروے او ابلیس و مرگ
جبر دینِ مرد صاحب ہمت است ۔۔۔جبرِ مرداں از کمالِ قوت است
پختہ مردے پختہ تر گردد ز جبر۔۔۔جبر ِمردِ خام را آغوشِ قبر

اقبال کے یہی وہ افکار ہیں ، جو اس بات کا واضح ثبوت فراہم کرتے ہیں ، کہ وہ آخری عمر میں وجودی تصوف کی آغوش میں چلے گئے تھے۔ پروفیسر یوسف سلیم چشتی کے الفاظ میں :”قبال آخری عمر میں وحدت الوجود کے قائل ہو گئے تھے، اور ایسا ہونا کوئی خلافِ توقع یا حیرت انگیز بات نہیں ہے،خدا کو ماننے والا فلسفی آخر وجودی ہو ہی جاتا ہے، اور اقبال کی سرشت ہی صوفیانہ تھی۔( دیکھیے :پروفیسر یوسف سلیم چشتی ، شرح ارمغانِ حجاز ، لاہور: عشرت پبلشنگ ہاؤس ،ص18۔)

اور اب ذرا آخر میں “نثری موقف” کے شائقین کے لیے اقبال کی ریکنسٹر کشن کا حوالہ پیش ہے۔ (اور واضح رہے کہ اقبال کے یہ خطبات کوئی خط وغیرہ یا عام نثری تحریر کی قبیل کی چیز نہیں، بلکہ اس اعلی پائے کی عقلی و فلسفیانہ تحریر ہے، جس کو فلسفے کی دنیا میں شرق وغرب میں خصوصی اہمیت دی جاتی ہے) اور یہ بات بھی پیش نگاہ رکھیے کہ یہ حوالہ اس خطبے کا ہے ، جو ریکنسٹرکش کی پہلی اشاعت 1930ء میں شامل نہیں تھا، اور 1934ء کی اشاعت میں ساتویں خطبے کے طور پر شامل ہوا۔ اس خطبے کا عنوان ہے:Is Religion Possible ۔اس خطبے کے ابتدائی الفاظ تصوف اور وحدت الوجود سے متعلق اقبال کی فکر کی وہ ساری ارتقائی کہانی اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں ، جن کا تذکرہ ہم نے گذشتہ سطور میں کیا۔ فرماتے ہیں:
Broadly speaking religious life may be divided into three periods. These may be described as the periods of “Faith”, “Thought”, and “Discovery.”
وسیع تر تناظر میں دیکھیں تو مذہبی زندگی تین ادوار میں منقسم ہے۔ پہلا دور عقیدے کا دوسرا فکر کا اور تیسرا کشف وعرفان کا۔”

اس خطبے میں ایسی بہت سی دل چسپ باتیں ہیں ، جو زیر بحث نوعیت کے معترضین کے فائدے کی ہیں ۔ لیکن ان سے فائدہ جبھی حاصل ہو گا ، جب یہ اقبال کے اس “نثری یا علمی موقف” کو سمجھنے کے لیے اس پورے خطبے کا مطالعہ فرمائیں گے۔ اس میں وہ ابن عربی کو سپین کے عظیم صوفی فلسفی کے نام سے یاد کرتے اور ان کا یہ قول پیش کرتے ہوئے کہ خدا ایک حقیقت ِ مشہود ہے، اور کائنات ایک تصور ہے، مذہبی تجربے کی پرتیں کھولتے اور واضح کرتے ہیں کہاس تجربے کے ماہرین کے مطابق ہمارے عمومی شعور سے متعلق ایک ایسا شعور بھی موجود ہے، جس میں بے پناہ صلاحیتیں اور امکانات پائے جاتے ہیں۔ اس تجربے اور شعور کو کھول دیا جائے تو مذہب کے امکان کا سوال ایک ارفع و اعلٰی تجربے کی حیثیت سے بالکل جائز اور ہمارا مرکز توجہ بننے کے قابل ہوجاتا ہے۔ یہاں انھوں نے اپنے وجودی نظریے کو یہ کہتے ہوئے پیش کیا ہے کہ یہ وجودِ حقیقی ہی ہے، جس سے مل کر خودی اپنی انفرادیت اور مابعد الطبیعاتی مقام و مرتبہ کو پہچانتی ہے۔ع
شاید کہ اتر جائے اتر جائے ترے دل میں مری بات!

Advertisements
julia rana solicitors london

اقبال کا موقف اس کی نثر سے ثابت کرو(قسط1)۔۔ڈاکٹر محمد شہباز منج

Facebook Comments

ڈاکٹر شہباز منج
استاذ (شعبۂ علومِ اسلامیہ) یونی ورسٹی آف سرگودھا،سرگودھا، پاکستان۔ دل چسپی کے موضوعات: اسلام ، استشراق، ادبیات ، فرقہ ورانہ ہم آہنگی اور اس سے متعلق مسائل،سماجی حرکیات اور ان کا اسلامی تناظر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply