تیرتی آنکھیں۔۔۔۔۔ احمد نعیم/مائیکروفکشن

بدن میں ایک آنکھیں تھیں جو حرکت میں رہتیں ، باقی سارا بدن تو بس بدن رہتا۔۔ خالی۔۔۔بس اک خالی بدن۔۔

اب وہ تصورات میں بچوں کی مفلسی دیکھ رہا ہے، ڈر رہا ہے، بدن ساکت ہے ۔ اک نہ دِکھنے والی رو ہے جو سیدھی وہاں جارہی ہے جہاں دل لگتا ہے۔ آنکھیں رونے کے مناظر پیش کرتی۔۔۔
نظر اسی بےبسی والے بچوں کے منظر میں، وہ ایکدم اچھلتا ہے ، اور آسمان کی طرف دیکھتا ہے ، اب اس کی آنکھوں میں زندگی بخش مناظر ہیں۔۔۔۔وہ خود کو آسودہ حال حیلے اور ماحول میں نظروں ہی  نظروں میں محسوس کرتا ہے۔۔۔

مصنف احمد نعیم

اسے بھوک کا احساس ہے اب وہ خود کو من  و سلویٰ کے طعام میں پاتا ہے۔۔۔ دنیا جہاں کی نعمتیں ہیں ، اس کا پیٹ بھر جاتا ہے اب اسکی آنکھیں نئے منظر تلاش کرتی ہیں مگر ہمیشہ کی طرح بے آسودگی کے مناظر سامنے آگئے۔۔۔چہرہ وہی، بدن بھی وہی خالی۔۔۔

آنکھیں مناظر پر تیر رہی ہیں ہر طرف افسردگی کے مناظر،

آج وہ آنکھوں کو بڑی لمبی چھلانگ دے گیا، اس کا عالیشان گھر ہے، وہی ہر برباد شخص کا سپنا یعنی چھوٹا گارڈن ،گاڑی، آسائش ،مناسب پریوار، خوب صورت گھر ،تھوڑا پیسہ ،وہ بیٹھا ابھی نظروں کو خوش کر ہی رہا تھا کہ اچانک اس کی نظروں نے بے خیالی میں رخ بدلا ۔۔۔۔جا بجا اندھیرا تھا، آنکھیں لپک کر واپس اسی منظر پر آئیں مگر وہ پُر فریب منظر غائب تھے۔ آنکھوں نے پھر اندھیرے کی طرف دیکھا ،گھبرایا۔۔۔ واپس آنکھوں نے اسی غائب منظر کی طرف دیکھا اب وہاں بھی اندھیرا تھا۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سارا کرب آنکھوں میں،آنکھیں درد سے روشن ہوگئیں۔۔۔خالی بدن آنکھوں کی تلاش میں نکلا، آنکھیں اب نئے مناظر کی بجائے نیا بدن تلاش کر رہی تھیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”تیرتی آنکھیں۔۔۔۔۔ احمد نعیم/مائیکروفکشن

  1. بہت خوب! ہمیشہ کی طرح ایک فنکار آئیڈیل اور حقائق کے درمیان ڈولتا رہتا ہے اور بالاخر فنکار اپنے خواب تج دیتا ہے اور خواب کسی اور آنکھوں میں بسنے کےلیے نکل جاتے ہیں…

  2. محترم جناب احمد نعیم صاحب
    اسّلام علیکم –
    آپ کی کہانی ”تیرتی آنکھیں” ویب سائٹ ”مکالمہ ” میں پڑھی بہت پسند آی – امید و یاس کے مناظر اور مستقبل کے اندیشوں کی اپنے بہت اچھی عکاسی کی ہے – ویب سائٹ ”مکالمہ ” بھی پسند آی – میں اس ویب سائٹ پر اپنی کہانی بھیجنا چاہتا ہوں – بھیجنے کے طریقہ کے تفصیلات آپ ارسال کریں تو مہربانی ہوگی –
    فقط
    قیوم خالد

Leave a Reply