روٹی کی کھوج۔۔محمد فیصل

وہ آج پھر روٹی کی کھوج میں نکا تھا۔ مملکتِ خداداد کا یہ باسی گزشتہ کئی ماہ سے پے در پے آنے والی آفتوں سے زندہ لاش کی شکل اختیار کرگیا تھا۔ کورونا وبا کے دوران لگائے جانے والے لاک ڈاٶن میں ایک ‘سخی” حاکم نے اسے 12 ہزار کی خیرات بھی دی تھی جس کی وجہ سے اس نے کچھ دن پیٹ بھرے گزار لیے تھے۔۔یہ کوئی اس کی آج کی داستان نہیں تھی پہلے اس کا باپ اور اس سے پہلے اس کے باپ کا باپ یہ سب نسل در نسل بھوک کے ہاتھوں غلام تھے لیکن اس کی غلامی ذرا مختلف تھی۔۔ اس کے ساتھ ستم ظریفی یہ ہوئی کہ اس کی نسل میں تھوڑا شعور آگیا تھا۔اس کے باپ دادا تو یہ سب مقدر کا لکھا سمجھ کر منوں مٹی تلے سوگئے لیکن آج کا دور اس کو سمجھاتا تھا کہ یہ سب تمہارا مقدر نہیں بلکہ چند لوگوں کے غیر منصفانہ طرز عمل کا نتیجہ ہے۔

اس کی آنکھوں کے سرخ ڈورے بتارہے تھے کہ وہ رات بھر سو نہیں سکا ہے اور اسے یہ بھی نہیں پتہ تھا اسے ابھی زندگی اور کتنا خراج ادا کرنا ہے۔۔وہ ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے ایک “کھلاڑی” سے امیدیں لگائی تھیں کہ وہ اس سمیت لاکھوں لوگوں کی گیم چینج کردے گا۔۔۔ ان کا کام بس باؤنڈری سے باہر بیٹھ کر گیند واپس پھینکنا نہیں رہ جائے بلکہ اب کی بار “بیٹ” ان کے ہاتھوں میں ہوگا۔۔دماغ میں روٹی کے حصول کا سودا سمائے وہ سوچ رہا تھا کہ یہاں بیٹ تو دور کی بات اس سے تو بال واپس پھینکنے کا حق تک چھین لیا گیا ہے۔

حالات بتارہے تھے کہ آج کا دن بھی اس کے لیے کٹھن ہوگا۔مزدوری ملنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔۔وہ چلتے چلتے ایک دکان کے سامنے رک گیا جہاں ٹیلی وژن پر  قیمتی لباس میں ملبوس  شخص بتارہا تھا کہ ملک کے حالات اب بدلنے والے ہیں۔زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوگیا ہے۔تجارتی خسارے میں کمی آگئی ہے۔کنسٹرکشن انڈسٹری کے لیے خصوصی مراعات کا اعلان کردیا گیا ہے جس کے بعد ملک میں دودھ کی نہریں بہنا شروع ہوجائیں گی۔۔راوی چین ہی چین لکھے گا۔۔ ابھی یہ بھاشن ختم ہی ہوا تھا کہ کچھ پرانے سیاسی “کھلاڑیوں”کی جھلک سامنے آگئی۔۔وہ کہہ رہے تھے کہ اناڑی حکمران نے غریب سے دو وقت کی روٹی بھی چھین لی ہے۔۔اب وہ اس حکومت کے خلاف تحریک چلائیں گے۔۔جلسے ہوں گے جلوس نکالے جائیں گے دھرنے ہوں گے اور عوام کو ان کاحق دلاکر دم لیں گے۔۔۔ وہ پھٹی آنکھوں سے انہیں سن رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ یہ کھلاڑی تو تین تین مرتبہ حاکم بنے ہیں انہوں نے عوام کو ان کا حق پہلے کیوں نہیں دیا۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس کو لگ رہا تھا کہ اس کی ٹانگیں اب اس کے وجود کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہورہی ہیں۔۔ اس نے اپنی جیب میں پڑے سکوں کو شمار کرنا شروع کیا اور ایک تندور کی جانب بڑھ گیا۔۔نان بائی نے اس کے ہاتھ سے لے کر سکے شمار کیے اور تمسخرانہ انداز واپس اس کو تھماتے ہوئے کہا کہ بھائی کس دنیا میں رہتے ہو کیا تمہیں علم نہیں کہ آٹے کا بھاؤ کیا چل رہا ہے۔۔ان سکوں سے تمہارے پیٹ کی آگ نہیں بجھے گی۔۔۔اس کو آج اپنے باپ دادا  پر رشک آرہا تھا ،کچھ بھی سہی وہ کھانے کے لیے روٹی کا انتظام تو کرلیتے تھے۔۔اس نے تھکے ہارے قدموں واپسی کا سفر شروع کردیا۔۔۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اپنے آپ کو تو وہ بہلا لے گا لیکن بچوں کے سوال کا کیا جواب دے گا۔۔۔انہی سوچوں میں غرق وہ نجانے کب گھر پہنچ گیا ۔۔وہ نظریں جھکائے بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک اس نے ایک آواز سنی۔۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ ابا روٹی کہاں ہے ؟اس نے نظریں اٹھائیں اور آنکھیں موندھتے ہوئے بے ساختہ کہا قبر میں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply