دو بچوں کی ماں،لمبے قد،گول چہرے اور دودھیا رنگ والی اٹھارہ انیس برس کی فائزہ(فرضی نام) شاید اُن لوگوں میں شامل تھی جن کی قسمت پر سیاہ رات ایسا اندھیرا ہمیشہ غالب رہتا ہے۔اُس کی گالوں کے سرخی مائل رنگ← مزید پڑھیے
میرا نام رفعت ہے یا شاید شکُنتلا۔ پہلے 12 سال تک تو رفعت ہی تھا پھر کچھ دن کے لیے شکنتلا ہو گیا۔ پھر یہ معمول بن گیا کچھ دن رفعت تو کچھ دن شکنتلا. میرے پاس الفاظ بھی تھے← مزید پڑھیے
میں یہ شادی ضرور ایٹنڈ کروں گی۔ اُس نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔ آرام کرسُی میں دھنسے رحمان نے اُسے مسکرا کر دیکھا اور کہا۔ اگر میں اجازت نہ دوں تو……… اُس نے نٹنگ مشین روک کر بڑی شوخی← مزید پڑھیے
مر گیا صدمہ ء یک جنبش لب سے غالبؔ ناتوانی سے حر یف ِ دم ِ عیسیٰ نہ ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ستیہ پال آنند ذہن میں میرے ہے بیتاب اک عجبک سا سوال ہو اجازت تو میں پوچھ ہی لوں ،← مزید پڑھیے
ایک ڈر پوک دبّو اور سہمے سہمے چہرے والی بیوی کی خواہش کبھی کبھار اُس کے سینے میں اُس وقت مچلتی تھی جب طاہرہ زندہ تھی اور کلب میں برج کھیلتے۔پینے پلانے یا اپنی کسی گرل فرینڈکے ساتھ کسی ہوٹل← مزید پڑھیے
شمع بجھتی ہے تو اس میں سے دھواں اٹھتا ہے شعلہ ء عشق سیہ پوش ہوا میرے بعد ۔۔۔ ستیہ پال آنند شمع بجھتی ہے تو اس میں سے دھواں اٹھتا ہے شعلہء عشق سیہ پوش ہوا میرے بعد پہلے← مزید پڑھیے
نہ حشر و نشر کا قائل، نہ کیش و ملت کا خدا کے واسطے ایسے کی پھر قسم کیا ہے ۔۔۔۔۔ ستیہ پال آنند خدا کے واسطے‘‘ خود میں ہی اک قسم ہے، حضور تو کیا یہ نقص ہے یا← مزید پڑھیے
ہم سب کہانیاں ہیں۔ کائنات میں پھیلی ہوئی لاتعداد کہانیاں۔ ان کہانیوں کے خالق نے اس بات کا خصوصی اہتمام کیا کہ کوئی کہانی دوسری کہانی سے مماثلت نہ رکھے۔ اسی لیے ہر کہانی کا آغاز جدا ہے, کردار الگ← مزید پڑھیے
اس سے پہلے میری معلومات فقط بت شکن تک محدود تھیں، جیسے کہ محمد بن قاسم اور سومنات میں رکھے بتوں کو توڑنے اور فتح کرنے والے محمود غزنوی جیسے فاتحین تک ،جنہیں اسلامی تاریخ کی کتابوں میں بت شکن← مزید پڑھیے
کئی برس پہلے جب امریکہ میں اہل اسلام کے خلاف نفرت زوروں پر تھی تو یہ واقعہ پیش آیا کہ میں مسجد کے باہر کھڑا ایک شاعر دوست سے گفتگو میں مصروف تھا۔ قریب سے کار پر جاتے ہوئے دو← مزید پڑھیے
شور ش ِ باطن کے ہیں احباب منکر، ورنہ یاں دل ِ محیط ِ گریہ و لب آشنائے خندہ ہے ۔۔۔ ستیہ پال آنند اہل ِ فارس کی طرح، اے بندہ پرور، آپ بھی کچھ عجب اغلاط کے وہم و← مزید پڑھیے
بچوں نے اُس کا ناک میں دم کردیا تھا۔جناح ایونیو کی دُکانوں سے ڈھیر سارے کھلونے خرید کر بھی وہ مطمین نہیں ہوئے تھے۔ اب وہ بیت المکرم کی طرف جانا چاہتے تھے۔خوقان وہاں سے ماؤتھ آرگن خریدنا چاہتا تھا۔وہ← مزید پڑھیے
اشعرڈرائیور سے کہہ کر واپس دفتر جانے کی بجائے گھر ہی آ گیا اور سیدھا اپنے کمرے میں پہنچ کر اندر سے کمرہ بند کر لیا ۔۔ شام کو ساجدہ آئی تو اس نے پوچھا کہ کیا ہوا تھا دفتر← مزید پڑھیے
خیال ِ مرگ کب تسکیں دل ِ آزردہ کو بخشے مر ے دام ِ تمنـا میں ہے اک صید ِ زبوں، وہ بھی ستیہ پال آنند مجھے تو سیدھی سادی بات کرنےکا سلیقہ ہے مجھےیہ استعارہ غیر شائستہ سا لگتا← مزید پڑھیے
مختلف عمروں کے چندبچے، بھاگ کر آئے اور اس کی ٹانگوں سے لپٹ گئے۔ اس نے اپنے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے لفافے ایک ایک بچے کا نام لے کر اسے تھمانے شروع کئے۔یہ اس کا خاندان تھا۔ اور یہ اس← مزید پڑھیے
مرثیہ عربی زبان کا لفظ ہے۔یہ رثا سے متعلق ہے،جس کے معنی ہیں مردے کو رونا۔درد انگیز الفاظ سے مرے ہوئے انسان کی توصیف کرنا اور اس کی خصوصیات بیان کرنا۔اہل ِ عرب اپنے مقتولوں پر کرب ناک سوز و← مزید پڑھیے
میرے جیون ساتھی، آؤ!اب تم واپس آجاؤ! میں اپنے بتوں کو توڑ دوں گی اور تم بھی اپنے بتوں کو پاش پاش کر دینا۔ مجھے یقین ہے کہ پھر ہم خوشگوار زندگی پالیں گے جس میں دونوں کا ایک ہی← مزید پڑھیے
وہ سات سال کا معصوم سا بچہ تھا۔جب وہ ایک دراوازے پر کھڑا بھیک نہیں بس روٹی مانگ رہا تھا۔کھڑکی سے کسی کے دیکھتے ہی اس نے بس ایک روٹی کا سوال کیا۔روٹی کا سوال شاید دنیا کا وہ واحد← مزید پڑھیے
تیرا انداز ِ سخن شانہ ٔ زلف ِ الہام تیری رفتار ِ قلم، جُنبش ِ بال ِ جبریل ستیہ پال آنند شاہ کی شان میں ہے یوں تو قصیدہ، لیکن کیوں مرے د ل میں کھٹکتی ہے یہ اک بات،← مزید پڑھیے
“جج صاحب اریبہ کا قتل نورالعین کے قتل سے کچھ روز قبل ہوا تھا۔اسی کے دکھ میں دیوانی ہو گئی تھی یہ عورت۔ اور اتنی وحشی بن گئی کہ اس نے میری دوسری بچی کو بھی قتل کر دیا “۔← مزید پڑھیے