• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • پاپی:خط کہانیاں،آزاد خیال/ڈاکٹر خالد سہیل ۔مرزا یاسین بیگ(خط9،10)

پاپی:خط کہانیاں،آزاد خیال/ڈاکٹر خالد سہیل ۔مرزا یاسین بیگ(خط9،10)

ڈئیررضوانہ !
آپ اور برقعہ۔ مجھے پڑھتے ہوئے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا۔ میں یہ کیسے یقین کروں کہ آپ جیسی فنکارہ ۔۔۔۔آزاد خیال۔۔۔ایک برقعے میں پابند۔ پہلے میں دکھی ہوا ،پھر میری رگِ ظرافت پھڑکی اور جی چاہا کہ ابھی ابھی پیرس جاؤں اور آپ کے لیے برقعے اور بیکینی کے ملاپ سے فنکارانہ طور پربنائی گئی burkini خرید کر تحفے کے طور پر بھیجوں۔

آپ کا شوہر مجھے زمانہِ جاہلیت کا ہیرو سنائی دیتا ہے۔وہ کہیں ماضی پرست تو نہیں۔؟ اسے کسی دن سمجھائیں کہ زمانہ آگے کی طرف سفر کرتا ہے پیچھے کی طرف نہیں۔ مردوں کی نفسیات بھی عجب ہے۔غیروں کی بیویوں کو نیم عریاں دیکھنا چاہتے ہیں لیکن اپنی بیوی کو سات پردوں میں چھپا کر رکھنا چاہتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ان کی عقل پر سات پردے پڑ گئے ہیں۔

مجھے یہ بھی یقین نہیں آ رہا   کہ تم نے ان سب حدود و قیود کو قبول کر رکھا ہے لیکن آخر کب تک۔تمہارے سینےمیں بھی ایک پرندہ نما آزاد منش دل دھڑکتا ہے۔ ایک دن تم بھی اس قید سے رہائی حاصل کرو گی اس روایت کے پنجرے کو توڑ کر پرواز کرو گی اور اگر پنجرے کو نہ توڑ سکی تو پنجرے کو ساتھ لیے اڑ جاؤ گی۔۔۔۔دور بہت دور۔۔۔میں تمہیں نہ جانتے ہوئے بھی اتنا تو جانتا ہوں۔
میں نے ابھی اتنا ہی خط لکھا تھا کہ میرے ایک شاعر دوست اپنی مزاحیہ غزلیں اور نظمیں’ فردیات اور قطعات سنانے آ گئے اور کافی دیر تک ہنساتے رہے۔ ان کا ایک شعر یاد رہ گیا ہے۔ شاید پسند آئے

؎ میں اپنی اس بری عادت پہ خود ہی مسکراتا ہوں

میں اپنے آپ کو اکثر کہیں پر بھول آتا ہوں

میں نے اپنا ادھورا خط دوبارہ پڑھا تو یہ جان کر حیرت بھری مسرت ہوئی کہ لاشعوری طور  پر خط لکھتے لکھتے رضوانہ میرے لیے آپ سے تم ہو گئی ہے۔۔شاید میرے دل کے نہاں خانے میں کہیں تمہارے ساتھ کوئی جذباتی یا روحانی تعلق بن رہا ہے۔اب تو تمہاری پرانی تصویر [ خداکے واسطے مجھے برقعے والی نئی تصویر مت بھیجنا میرا شاعرانہ ذوق خود کشی کر لے گا] میرے دل کی دیوار پر لٹکی ہوئی ہے
؎ دل کے آئینے میں ہے تصویرِ یار

جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی

ڈئیررضوانہ!
مجھے خود حیرت ہو رہی ہے کہ میں تمہیں اس بے تکلفی سے خط لکھ رہا ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ میں بنیادی طور پر بہت شرمیلا ہوں۔
مجھے ابھی بھی تجسس ہے کہ تمہاری شادی ایک شیعہ خاندان میں کیسے ہو گئی اور تم نے برقعہ پہننا کیسے قبول کر لیا۔ اور تم نے اپنے شوہر اور سسرال کے ایسے کیا راز جانے جو تمہارے پاؤں کی زنجیر بن گئے۔

میں تم سے معذرت کرنا چاہتا ہوں کہ میں نے ہمدردی کا لفظ استعمال کیا۔ جو دراصل انگریزی کے لفظ sympathy کا ترجمہ ہے مجھے انگریزی کے لفظ empathy کا متبادل نہیں مل رہا تھا۔ اگر تم جانتی ہو تو بتا دینا۔ ویسے تم بھی کسرِ نفسی سے کام لیتی ہو زمانہِ طالبعلمی میں تمہیں بھی بےشمار اشعار یاد تھے اور تم میں ایک دانشور بننے کے تمام تر امکانات موجود تھے۔

ڈئیررضوانہ !
کبھی موقع ملا تو میں تمہیں اپنے ایک پاکستانی مسلمان طالب علم جہانزیب کی کہانی سناؤں گا جسے ایک ہندوستانی سردارنی پریم کور سے عشق ہو گیا ہے۔ وہ مجھ سے مشورے کرنے آتا ہے۔ اور کہتا ہے۔۔۔
؎ عشق نہ پچھے ذات

کاش تم اس وقت میرے پاس بالکونی میں بیٹھی ہوتیں اور جھیل اور آبی پرندوں کے حسیں منظر سے محظوظ ہوتیں۔ میں کبھی انگریزی موسیقاروں نیل ڈائمنڈ’ کینی روجرز ’کینی جی اور اینیا کی موسیقی سنتا ہوں اور کبھی مشرقی موسیقاروں کی موسیقی سے محظوظ ہوتا ہوں۔ میں جب عابدہ پروین’ پٹھانے خان اور نیرہ نور کی غزلیں سن رہا تھا تو میں تمہاری اس بات سے اتفاق کر رہا تھا کہ میرے من میں کہیں ابھی بھی ایک چھوٹا سا پاکستان بستا ہے اور کبھی کبھار اس کی یاد آتی ہے۔یہ درست کہ میں پاکستان سے نکل آیا لیکن پاکستان کو خود سے نہ نکال سکا اور نہ ہی نکالنا چاہتا ہوں۔ آخر وہ میری دھرتی ماں ہے۔

تم نےمجھے از راہِ تفنن ملحد کہا ہے لیکن مجھے اپنے ہیومنسٹ ہونے پر فخر ہے کیونکہ میں نے بائیس برس کی عمر میں مذہب اور خدا کو خدا حافظ کہہ دیا تھا۔
جانے سے پہلے ایک مذاحیہ واقعہ سناتا جاؤں۔۔ ہے تو انگریزی میں تمہارے لیے اردو میں ترجمہ کرنے کی کوشش کرتا ہوں
امریکہ کے ایک چھوٹے سے شہر میں ڈیوڈ نامی ایک کسان رہتا تھا جو بہت سست الوجود تھا۔ دن رات موسیقی سنتا رہتا اور فلسفیانہ کتابیں پڑھتا رہتا کھیتوں پر بالکل کام نہ کرتا۔ آخر کسی کے مشورے پر وہ کیلیفورنیا گیا کھیتی باڑی کے جدید کورسز لیے اور واپس آ کر کھیتوں میں ہل اور ٹریکٹر چلانے لگا۔ اگلےسال ایک خوبصورت فصل تیار ہوگئی۔ مقامی چرچ کا پادری فادر ہینلی FATHER HANLEYیہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ جب فصل پکی تو وہ مبارکباد دینے آیا۔ ڈیوڈ نے اسے اپنے گھر میں چائے کے لیے بلایا۔ چائے کے بعد فادر ہینلی نے کھڑکی سے باہر خوبصورت فصل کو دیکھ کر کہا
David, this year you and God grew beautiful crops together
ڈیوڈ جو ایک انسان دوست دہریہ تھا زیرِ لب مسکرایا اور کہنے لگا
Father Hanley, you should have seen it last year, when God was doing it alone.

مجھے یاد آ رہا کہ ایک دفعہ تم نے مجھے بتایا تھا کہ تمہاری والدہ کو فکر تھی کہ کہیں تمہیں کسی کی نظر نہ لگ جائے اور انہوں نے داتا دربار جا کر دو کالے بکرے ذبح کیے تھے اور میں نے کہا تھا کہ قربانی میں بھی کالے بکروں کے خلاف تعصب کیوں؟ سفید یا بھورے بکروں کی قربانی بھی تو دی جا سکتی ہے۔۔ اب یہ بتاؤ کہ ایک ماضی پرست شوہر کے ساتھ رہنے اور کالا برقعہ پہننے سے تمہارے خیالات’ نظریات اور اعتقادات میں کیا فرق پڑا ہے۔؟
تمہارا ایک آزاد خیال دوست ۔۔۔
عرفان قمر

خط۔ نمبر 10
قیدی بیوی اور سیاسی شوہر

ڈئیرعرفان!
سوری ۔ یہ خط میں تمھیں چھبیس دن بعد لکھ رہی ہوں ۔ حالات ہی کچھ ایسے رہے کہ تمہارا آخری خط بار بار پڑھتی رہی مگر جواب دینے کا وقت نکال سکی نہ حوصلہ ۔ تم شاید سمجھ بھی نہیں سکتے کہ میری زندگی کس طرح کے بھنور میں پھنسی ہوئی ہے ۔ ہر نیا دن میرے لیے کیا لائےگا اس کا مجھے خود پتہ نہیں ہوتا ۔ ذمےداریوں کے علاوہ قسمت سے لڑنا بھی میرا مقدر بن چکا ہے ۔ تمھیں اپنی شادی کا احوال بتانا تھا مگر اب ذہن آج کے حالات میں ایسا پھنسا ہوا ہے کہ کہاں سے لکھوں اور کیسے لکھوں کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے ۔ تمھیں مجھ سے کچھ نہیں ملےگا سوائے آہ و بکا کے ۔ تم ایک اچھی بھلی آسودہ زندگی گذاررہے ہو کیوں مجھ پاگل سے خط و کتابت کرکے اپنی رنگینیوں کو بوجھل بنارہے ہو۔ تمھیں کیا مل رہا ہے مجھ سے باتیں کرکے ۔ تمہارے اطراف انواع واقسام کا حسن ہے ، دلکشی ہے ، نور ہے پھر کیوں مجھ سات سمندر پار قیدی سے آدھی ملاقاتیں؟

مجھے تمہاری بےچینی کا اندازہ اس تاخیر کے دوران مسینجر پر ملنے والے تمہارے پیغامات سے ہوا ۔ میں اس دوران اپنے شوہر سے ایک بڑی لڑائی لڑرہی تھی ۔ اس وقت کراچی کے سیاسی حالات جرائم کے دامن میں ہیں ۔ بیک وقت فرقہ واریت اور سرکار سے ٹکر چل رہی ہے ۔ میرا شوہر جس سیاسی پارٹی میں ہے اس کے اندر آپس کی جنگ چھڑی ہوئی ہے اور ہر گروہ اپنا پلہ بھاری رکھ کر سرکار کی گود میں بیٹھنے کا متمنی ہے ۔ تمھیں اندازہ تو ہو ہی گیا ہے کہ میں سنی ہوں اور میرا شوہر شیعہ ۔ تین ہفتے پہلے کراچی میں تین شیعہ ڈاکٹرز کا قتل ہوا تب سے میرے شوہر کے قبضے میں شامل ایک گھر میں چار افراد روپوش ہیں ۔ مجھے ان کے لیئے بھی کھانا پکانا پڑتا ہے ۔ لانڈری کرنی پڑتی ہے ۔ اگر وہ شوہر کی پارٹی کے لوگ ہوتے تو شاید مجھے اتنا برا نہ لگتا مگر وہ باہر کے لوگ تھے ۔ شوہر نے کہا ”ہمیں انھیں پناہ دینی پڑتی ہے کیونکہ ہمارے کارکنوں کو بھی برے حالات میں وہ پناہ دیتے ہیں“۔ شیعہ ہوکر شیعوں کے قاتلوں کو پناہ دینے والا میرا شوہر اب میری نظروں سے گرچکا ہے ۔ میں نے شوہر سے کہا کہ اب یہ سب کچھ چھوڑدو اور کہیں باہر نکل چلو ۔ امریکہ یا کینیڈا ۔ شوہر کی پارٹی کے بےشمار چھوٹے بڑے کارکن اور لیڈران ملک چھوڑچکے ہیں مگر میرا بےوقوف شوہر اب بھی کئی عشرے پہلے باہر بھاگ جانے والے لیڈر کی محبت کا اسیر ہے ۔ وہ اس کی خاطر پارٹی کے باغی ٹولوں سے جنگ لڑرہا ہے ۔ اس جنگ میں شیعہ سنی ایندھن بن رہے ہیں ۔ آپس کی لڑائی کو شیعہ سنی فساد بتایا جارہا ہے ۔ ہر طرف سے بھتے وصول ہورہے ہیں ۔ کرائے کے قاتلوں سے کام لیا جارہا ہے ۔

کسی لیڈر یا کارکن کو ایک دوسرے پر اعتماد نہیں مگر عقیدت کا مارا شوہر اس بےمعنی قتل و غارت میں ادھر ادھر رل رہا ہے ۔ پچھلے ہفتے مجھے اپنے بچوں سمیت کسی غیر کے گھر پانچ دن تک پناہ لینی پڑی کیونکہ ہمارے گھر چھاپے کا خطرہ تھا ۔ میں اس صورتحال سے تنگ آچکی ہوں ۔ میرے شوہر کے پاس ان دنوں اچانک بڑی رقم آچکی ہے ۔ میں نے کہا بھی چلو دبئی بھاگ چلتے ہیں وہاں سے امریکہ ، یورپ یا کینیڈا کا چانس نکل ہی آئے گا مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہورہا ہے ۔

ایک رات جب وہ سخت نشے کی حالت میں مجھ سے بیوی کے حقوق طلب کررہا تھا اس کے منہ سے نکل گیا کہ وہ ایک اور شادی کرنے جارہا ہے ۔ اگر شادی ہوگئی تو وہ مجھے آزاد کردےگا کیونکہ نئی عورت ایک بڑے ملک کی ایمبیسی میں کام کرتی ہے ۔ وہ خود تمہارا اور تمہارے بچوں کا ویزہ لگوادےگی اور میں تمھیں باہر بھجوادوں گا۔ وہ بتارہا تھا کہ کراچی آزاد ہونے کے قریب اس لیے وہ کراچی چھوڑکر نہیں جاسکتا ۔ اب تم سمجھ چکے ہوگے کہ مجھے کس طرح پھنسایا گیا ۔ میری اردو کی پروفیسر نے جھوٹ بولا تھا کہ اس کا بھائی سعودی عرب میں انجینئر ہے ۔ وہ کراچی کے ایک انجینئر نگ کالج کا اسٹوڈنٹ ضرور تھا مگر دوران طالبعلمی ہی میں کالج کے پرنسپل کے ساتھ اس کا تنظیمی جھگڑا ہوگیا تھا اور پرنسپل کے قتل کی وجہ سے اسے پاکستان چھوڑکر ملائیشیا میں پناہ لینی پڑی تھی ۔ کئی برس ملائیشیا میں اپنی تنظیمی سرگرمیوں کے بعد وہ پاکستان لوٹ آیا تھا ۔ میری اردو کی پروفیسر کو میری غربت کا پتہ تھا ۔ اس نے میرے والدین کو شیشے میں اتار کر راتوں رات میری شادی کروادی ۔ میرے والدین کو بھی پتہ نہ چلا کہ ان کی سنی بیٹی ایک ایسے شیعہ سے بیاہی جارہی ہے جو انجینئر بھی نہیں بلکہ صرف ایک عقیدتمند حلف یافتہ کارکن ہے ۔ ان دنوں پولیس کو اس کے واپس آنے کی بھنک پڑگئی تھی اور پارٹی اسے ایک اور براعظم بھجوانا چاہ رہی تھی جہاں ان کی تنظیم کے قدم مضبوط ہورہے تھے ۔ بھاگنے کے لیئے ضروری تھا کہ ساتھ میں ایک عورت بھی بیوی کی شکل میں موجود ہو تاکہ شبہ نہ ہو ۔ اسی لیے فوری شادی کے ڈیڑھ ماہ بعد ہی مجھے اور شوہر کو نام بدل کر اس براعظم کے ایک بڑے سے ملک بجھوادیا گیا۔ میں نے احتجاج کی ایک بھرپور کوشش کی تھی مگر مجھے دھمکی دی گئی کہ اگر تم نے میکے میں کچھ بھی کہا تو تمہارے والدین کو دونوں چھوٹے بھائیوں سمیت ماردیا جائےگا ۔ یہ میری انتہائی پرائیویٹ باتیں ہیں جو میں تمھیں بتارہی ہوں ۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ شاید میری زندگی کے دن کم رہ گئے ہیں ۔ میرے شوہر کی جان بھی خطرے میں ہے ۔ میں اسے چھوڑنا نہیں چاہتی ۔ وہ جو بھی ہے اور جیسا بھی ہے میرا شوہر ہے ۔ اس سے مجھے کراہیت بھی آتی ہے ۔ جب میں اس کے ساتھ سوتی ہوں تو مجھے اس کے جسم سے شراب میں ڈوبے ہوئے خون کے بھبھکے آتے ہیں مگر وہ میرے دو بچوں کا باپ بھی ہے ۔ وہ بےشک دوسری شادی کرلے مگر میں اس سے بےوفائی کرنا نہیں چاہتی۔

مجھے لگتا ہے اب تم ڈر کر مجھے چھوڑ جاؤگے۔ تمہارے خطوط میرا حوصلہ بنے ہیں ۔ بقول تمہارے روشندان یا کھڑکی جہاں سے سکون و اطمینان کی چند کرنیں مجھ پر پڑرہی ہیں۔ ایک بات پوچھوں تم سے؟ اگر میں کبھی اپنے بچوں سمیت کینیڈا آگئی تو کیا تم مجھ سے ملوگے؟ تم میرے جن لانبے لانبے بالوں پر فریفتہ تھے وہ اب بھی کم و بیش اتنے ہی لانبے ہیں ۔ یہی ایک جوانی کی سوغات ہے جن کی اب تک میں نے برے سے برے حالات میں بھی پرورش کی ہے ۔ میری ماں نے ایک سستا سانسخہ بتایا تھا ۔ میں اب بھی ہر ہفتے کڑی پتے کو ابال کر اس کے پانی سے اپنے بالوں کو دھوتی ہوں۔ لو اس آرزدہ کیفیت میں بھی میں کہاں سے کہاں بھٹک گئی ۔ تم سے بہت کچھ پوچھنا ہے ۔ بس زندگی مہلت دے دے اور پچھلے تین ہفتوں سے میری زندگی میں جو نیا زلزلہ آیا ہے وہ تھم جائے ۔

آفٹرایفیکٹس جھیلنا تو مجھے آ ہی گیا ہے ۔ تم مجھے بتاؤ یہ جو تم نے ذکر کیا تھا فری تھنکرز کا اس کا عملی معاملہ کیا ہے؟ میں نے تو جو پڑھا اس کے مطابق یہ لوگ جنسی طور پر بڑے آزاد خیال ہوتے ہیں؟ سچ سچ بتاؤ کوئی پاکستانی یا انڈین آزاد خیال لڑکی سے تمھیں محبت ہوئی؟ یا صرف گوریوں کے چکر میں رہتے ہو؟ توبہ میں بھی کتنا کھلا سوال پوچھ رہی ہوں ۔ جواب دیتے ہوئے  بہک نہ جانا ۔ یہ نہ ہو مارے شرم کے تمہارا اگلا خط مجھ سے پڑھا ہی نہ جائے ، زندگی کی ماری ۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply