کراچی شہر ہر طرف جھنڈوں اور جھنڈيوں سے سجا ہوا تھا۔ پچاسواں یومِ آزادی بہت جوش و خروش سے منایا جا رہا تھا۔ اصغر اس ماحول سے بےنیاز اپنی بیوی اور تین بچوں کے ہمراہ ایک موٹر وین میں منزل← مزید پڑھیے
اس کے باوجود مجھ میں خواہش کی ہلکی سی گدگداہٹ بھی نہ تھی۔ نہ صرف اس کے کولہوں بلکہ پنڈلیوں اور پسلیوں ، یہاں تک کہ رانوں کی اندرونی سفیدی تک کو داغدار کرتی زردی مائل سبز خراشیں دیکھ کر← مزید پڑھیے
مئی کے آخری دنوں کی بات ہے جب مجھے پہلی بار اپنی بیوی کے جسم پر خراشیں نظر آئیں۔ ڈیوڑھی بان کے کمرے کے باہر کیاریوں میں گُلِ یاس کی ارغوانی پتیاں یوں نظر آتی تھیں جیسے باہر نکلی زخمی← مزید پڑھیے
تھی وطن میں شان کیا غالبؔ کہ ہو غربت میں قدر بے تکلف ہوں وہ مشت ِخس کہ گلخن میں نہیں ۔۔۔۔۔ طالبعلم ایک پہلے دیکھیں کیا وطن غالب کا ہے ہندوستاں؟ اور پھر پوچھیں وطن سے ہے فقط دِـلی← مزید پڑھیے
نہ حشر و نشرکاقائل، نہ کیش و ملت کا خدا کے واسطے، ایسے کی پھر قسم کیا ہے طالبعلم ایک ذرا جو غور سے دیکھا تو یہ نظر آیا “خدا کے واسطے” خود میں ہی اک قسم ہے، جناب← مزید پڑھیے
اسد ؔ بزم ِ تماشا میں تغافِل پردہ دار ی ہے اگر ڈھانپے توُ آنکھیں ڈھانپ، ہم تصویر ِ عر یاں ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔ طالبعلم ایک اسد خود سے مخاطب تو نہیں اس شعر میں شاید یہ کوئی اورہی ہے جو← مزید پڑھیے
” ہاں میں ۔۔۔ جھوٹی عورت ۔۔۔ دھوکے باز رنڈی ۔۔۔ ” اس نے پہلے صدف کے بال اپنے دونوں ہاتھوں سے نوچ کر اس کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا پھر اس کے چہرے کو چانٹے مار مار کر لال← مزید پڑھیے
سلمان وہ فولڈر لے کے اپنے گھر آگیا اس نے صدف کی بنائی ہوئی پینٹنگ دیکھی تو حیران رہ گیا۔ صدف نے اپنی پینٹنگ میں دکھایا تھا کہ اس نے اپنا خول اتار کے رکھ دیا ہے۔ بے انتہا خوبصورت← مزید پڑھیے
میں نے باغ میں لگی ہوئی باڑ میں سے شور مچاتی اور گرج پیدا کرتی رینگتی ہوئی ویگنوں کو گزرتے ہوئے سنا اور دیکھا۔ یہاں تک کہ بعض اوقات میں نے ان کو سرسبز و شاداب خوب صورت گھاس پر← مزید پڑھیے
” ہاں اچھا سوری تم کہو ” خالہ نے خاموش ہوتے ہوئے کہا تو عبیر نے اپنی کہانی پھر شروع کی۔۔۔۔ اس کے بعد جیسے یہ سلسلہ چل پڑا۔ صدف نے کچھ سکیچ بکس خریدیں ۔ اور تصاویر بنانا شروع← مزید پڑھیے
” سلمان ۔۔۔۔ !! ٹیچر میں صرف بچوں کے لیے سو آپ صرف سلمان کہیے ” سلمان نے بہت سنجیدگی سے جواب دیتے ہوئے جیسے اپنا بدلہ اتارا ۔ ” بے حد معذرت سلمان صاحب دراصل اس دن میشال کا← مزید پڑھیے
کہانیاں خیال کے دروازے پر دھیرے دھیرے دستک دیتیں کہانیاں۔ جو ہاتھ جوڑ کر کھڑی رہتی ہیں اور کہتی ہیں مجھے تحریر کر اے تخلیق کار مجھے تحریر کر۔ مگر لکھنے والا ان کو لکھنے سے ہاتھ بچالیتا ہے اور← مزید پڑھیے
یک قدم وحشت سے درس ِ دفتر ِ امکاں کھلا جادہ اجزائے دو عالم دشت کا شیرازہ تھا طالبعلم -ایک یک قدم وحشت؟ فقط اک ہی قدم کیا ؟ اک قدم ہی سرحد ِ قائم مزاجی سے پرے؟ اک قدم← مزید پڑھیے
(ایگزئیٹی، ڈیپرشن اور ڈیتھ فوبیاز کی آگاہی کے لیے لکھی گی مشترکہ تحریر) آساں نہیں ہے کشمکشِ ذات کا سفر ہے آگہی ے بعد غمِ آگہی بہت آہ! ہسپتال کا منظر، اس پر جھکیں نرسیں، چیک کرتا ڈاکٹر ، ہاتھوں← مزید پڑھیے
یہ ایلچی گری لفظوں کی (ایک) یہ ایلچی گری مجھ سے نہیں ہوتی، مولا یہ ایلچی گری لفظوں کی جلتی مشعل سی میں کتنے برسوں سے اس کو اٹھائے پھرتا ہوں شروع ِ عمر سے اب تک بلند و بالا← مزید پڑھیے
؎ رات تاریک ہوئی جاتی ہے ایک مہتاب سلامت رکھنا راستے تنگ ہوئے جاتے ہیں دل میں اک باب سلامت رکھنا وہ تمہیں دار پہ لے جائیں گے آنکھ میں خواب سلامت رکھنا خالدسہیل! اس دنیا میں نہ شاعروں کی← مزید پڑھیے
ایک محمود درویش تھے، جب صہیونی سامراجیت ان کی شناخت کو مٹانے کے درپے تھی تو انہوں نے “سجل انی عربي۔۔۔۔” جیسی شہرہ آفاق نظم لکھ کر اپنی شناخت امر کردی تھی اور کیا مصرعے کہے تھے جن میں شناختی← مزید پڑھیے
(سمتھسونین انسٹیٹیوٹ واشنگٹن ڈی سی میں منعقد کی گئی قدیم ہندوستانی نوادر کی ایک نمائش دیکھنے کے بعد) چھ ہزار برسوں کی جاگتی ہوئی آنکھیں اس گپھا کے اندر تک میرا پیچھا کرتی ہیں مجھ سے پوچھتی ہیں کچھ اس← مزید پڑھیے
کیسی بینائی، کہاں کی پیش بینی؟ جانتے بھی ہیں کہ دشمن کون ہے لیکن سبھی پنبہ دہن ہیں دائیں بائیں دیکھتے سب ہیں مگر یہ سوچنا اک چیستاں ہے کون مار آستیں ہے؟ کس نے پھن کاڑھا ہواہے؟ دور بیں← مزید پڑھیے
خط۔ نمبر 13 ڈئیررضوانہ ! مجھے بالکل اندازہ نہ تھا کہ تمہارے اندر ایک مولانی ایک جنت بی بی چھپی بیٹھی ہے جو میری محبت کی کہانی پڑھ کر باہر آ جائے گی اور میری رومانوی زندگی کو مذہبی اور← مزید پڑھیے