آنکھ ہٹتی نہیں نظارے سے۔۔۔ شکور احسن ؔ

سن2004ء میں گورنمنٹ گورڈن کالج راولپنڈی کے سامنے قدیمی ادبی رسالے ماہنامہ”نیرنگ خیال“کے دفتر میں سلطان رشک کے پاس بیٹھا تھا کہ اتنے میں ایک نوجوان دفتر میں وارد ہوا،تعارف ہونے پر معلوم پڑا کہ نام فیصل عرفان ہے،آبائی تعلق تحصیل گوجر خان کے گاؤں بھنگالی گوجر سے ہے اور تھوڑی بہت اردو شاعری کیساتھ ساتھ کبھی کبھارمقامی اخبارات میں کالم بھی لکھتے ہیں،مجھے بھی لکھنے کا شوق تھا،میں ان دنوں اردوشاعری کرتا اور بچوں کی کہانیاں لکھتا تھا،گوجر خانوی ہونے کے ناطے مجھے یہ سب جان کر خوشگوار حیرت ہوئی اوراُس دن قائم ہونیوالا ادبی تعلق اب دوستی سے بھی بہت آگے نکل چکا ہے۔
20دسمبر1982کو پیدا ہونیوالے فیصل عرفان نے ہلکی پھلکی ادبی سرگرمیوں کیساتھ ساتھ اپنا تعلیمی سلسلہ بھی جاری رکھا اور 2009ء میں ماس کمیونی کیشن میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی،اس وقت تحصیل گوجر خان سے غالباََ گنتی کے تین چار لوگوں نے ہی ابلاغ عامہ کی ڈگری حاصل کر رکھی تھی۔تخلیقی صلاحیتوں کا حامل شخص ہر پل بے چین رہتا اور کچھ نہ کچھ کرنے کی جوت اپنے اندر جگائے رکھتا ہے،متوسط طبقے سے تعلق کے باعث سماجی ناانصافیوں کوفیصل عرفان نے جیسا محسوس کیا ویسے ہی اپنی تحریروں اور شاعری میں برتا ہے، اس کی تحریروں اور شاعری میں احساس محرومی اور مزاحمتی انداز اسے دوسروں سے بہت زیادہ نہ سہی تھوڑا بہت نمایاں ضرور کرتا ہے،شاعر اور ادیب اپنی روایات اور معاشرے سے جتنا زیادہ قلبی اور روحانی لگاؤ رکھتا ہے اس کی تخلیق میں اتنا ہی نکھار اور رچاؤ لہروں کی طرح ٹھاٹھیں مارتا دکھائی دیتا ہے اور اسی وجہ سے وہ تخلیق کار اپنے دورکا ترجمان بھی ہوتا ہے۔فیصل عرفان بھی انہی خوش نصیب لوگوں میں سے ایک ہیں جو روایات اور معاشرے کو مدنظر رکھ کر اپنا فنی جوہر عیاں کرتے ہیں،اردو کے ان دو اشعار میں فیصل عرفان کا مزاحمتی رنگ دیکھا جاسکتا ہے۔
کاٹ ڈالے امیرِ شہر نے سب
ہاتھ جوبھی تھے باکمال بہت
یا پھر
امیرِ شہر دولت کی حوص میں
ریاضی دان ہوتا جا رہاہے
ان اشعار کے علاوہ بھی انکی ایک اردو نظم ”چائلڈ لیبر“بچوں سے مشقت اور مجموعی معاشرتی رویے کی عکاسی کرتی ہے،مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 2007ء میں 15شعراء کی غزلوں کا انتخاب” میرا بھی ایک چاند ہے“،2008ء میں 10شعراء کا انتخاب ”تمہارے ساتھ چلنا ہے“۔ہم لوگوں نے مل کر شائع کروائے۔اس میں جھنڈا چیچی راولپنڈی کے ہمارے ایک بہت اچھے دوست اور شاعر مختار مغل صائم کا بھی اہم کردار تھا۔ان شعری انتخابات کے بعد ایک سال تک فیصل عرفان نہ صر ف ادبی منظر نامہ سے غائب ہو گیا بلکہ ہماری ملاقاتوں کا سلسلہ بھی تھم گیا۔بعد ازاں 2010ء میں پتا چلا کہ فیصل عرفان نے گوجرخان کے”اردو نعت گو شعراء“پر تحقیقی کام کا آغاز کیا اور اس نے کافی مواد اکٹھا بھی کر لیا تو بہت خوشی ہوئی۔اس سلسلے میں حسن نواز شاہ نے بھی ان کی کافی رہنمائی کی،میں نے اور حسن نواز شاہ نے ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی مگر اس نے اپنی لاابالی طبیعت کے باعث ہتھیار ڈال دیے اور یہ علمی و ادبی منصوبہ ہنوز پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا۔پوٹھوہاری بولنا تو آسان ہے مگر اس کو لکھنا کافی مشکل کام ہے،فیصل عرفان نے 2010ء میں ہی پوٹھوہاری شاعری کا آغاز بھی کر دیا تھا،ان کے یہ دو اشعار تو بہت مقبول ہوئے ہیں۔
سوہے ساوے پیلے تَکے
پوہ بِکیاتے چیلے تَکے
……
دوغز کپڑا ناپ نہ پہھلے
بندہ آپڑاں آپ نہ پہھلے
اسی طرح پوٹھوہاری میں انکی دونظمیں ”پیہھالی“اور ”ماء مرسی تے جیساں کِس رے“نے بھی پوٹھوہاری زبان و ادب کے شائقین کی توجہ حاصل کی ہے۔کچھ عرصہ بیتا تو اس نے اردو اور پوٹھوہاری شاعر ی سے بھی کنارہ کشی اختیار کر لی اور اپنے اندر بیٹھے تخلیق کار کو نیند کی گولی دے کر سلادیااور معاشرے کی نا انصافیوں،بد دیانتوں،خود غرضی اور ظلمانہ رویوں کے آگے ہارکرچپ سادھ لی۔
2017ء میں اچانک تازہ ہوا کے ایک جھونکے نے اس کے سوئے احساسات کو جگا دیا اورپھر یہ خواب غفلت سے ایسا بیدار ہوا کہ اپنی ایک اہم تحقیقی کتاب سامنے لانے میں کامیاب ہوگیا،ایک دن ٹیلی فونک گفتگو کے دوران فیصل عرفان نے یہ اطلاع دی کہ پوٹھوہاری زبان کے ضرب الامثال اور محاوروں پر کام کا آغاز کردیا ہے اور جلد ہی کتاب بھی شائع کر رہا ہوں،مجھے یہ بات سن کر ہنسی بھی آئی اور حیرانی بھی ہوئی،سچی بات یہ ہے کہ مجھے ذرا بھی یقین نہ آیا لیکن جب اسکے دفتر گیا تو اس کا کام دیکھ کر حیران رہ گیا،اس نے نہ صرف بہت سارے ا کھانڑ اور محاورے اکٹھے کر رکھے تھے بلکہ وہ اسکی کمپوزنگ بھی کررہا تھا،اب کی بار مجھے یقین سا ہوچلا کہ یہ کچھ نہ کچھ کر دکھائے گا۔
فیصل عرفان نے اس بار یہ کام کرتے ہوئے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور2سال کی مسلسل محنت،لگن اور کوشش کے بعد 2019ء میں وہ اپنی مرتب کردہ تحقیقی کتاب”پوٹھوہاری اکھانڑ تے محاورے“ منظر عام پر لے آیا،اس طرح کے تحقیقی اور ادبی کام ہمیشہ سرکاری ادارے اپنی زیر نگرانی کر واتے ہیں لیکن فیصل عرفان نے بغیر کسی سرکاری ادارے کی معاونت کے یہ کارنامہ سرانجام دیا ہے۔اکھانڑ اور محاورے بظاہر تو آسان لگتے ہیں، سننے میں بھی اپنا خوبصورت تاثر چھوڑتے ہیں لیکن یہ دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف بھی ہوتے ہیں۔فیصل عرفان نے پوٹھوہاری اکھانڑ اور محاوروں کی جمع آوری کیساتھ ساتھ انکا قریب قریب مفہوم یا ترجمہ بھی کتاب میں شامل کیا ہے تاکہ نہ صرف پوٹھوہاری کے شاعر ادیب اور لکھاری ان کو سمجھ سکیں بلکہ دوسری زبانوں کے شعراء، ادباء اورعام قارئین بھی اس لوک دانش، خطہ پوٹھوہار کی تہذیب اور اجتماعی و انفرادی رویوں سے بھی آگاہی حاصل کر سکیں۔فیصل عرفان کا یہ انمول ادبی کام پوٹھوہاری زبان اور خطہ پوٹھوہار کی تہذیب و ثقافت کی مکمل ترجمانی کرتاہے،کتاب کے پیش لفظ میں اسکا یہ جملہ مجھے بہت اچھا لگا کہ اگر یہ تحقیقی کام اچھا لگے تو دعا دے دیں اگر اس میں کمی رہ جائے تو لازمی اُنگلی اُٹھائیں تا کہ آنے والا محقق ان پر مزید بہتر کام کر سکے۔ فیصل عرفان نے اتنی چھوٹی عمر میں بہت بڑا ادبی کام سرانجام دیا ہے جو اس کے پوٹھوہاری زبان اور خطہ پوٹھوہار سے محبت کا ثبوت ہے اور اُس کا یہ ادبی کام اُسے ہمیشہ زندہ رکھے گا۔اس کا یہ معیاری اور تحقیقی کام دیکھ کر زبان پر یہ شعر فوراً آجاتا ہے۔
نقش ایسا بنا اشارے سے
آنکھ ہٹتی نہیں نظارے سے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply