مہ جبین قیصر – مضامین اور افسانے۔۔۔فیصل عظیم

مضامین اور افسانے، یعنی ایک تیر سے دو شکار؟ نہیں، سستی اور کاہلی؟ نہیں۔خانہ پُری؟اس کی ضرورت نہیں۔ نہ مہ جبین قیصر صاحبہ نے مجھ سے کسی تحریر کا تقاضا  کیا ہے، نہ حکم دیا ہے۔ بلکہ وہ تو ان چیزوں سے بے نیاز نظر آتی ہیں۔ مہ جبین قیصر صاحبہ میں پھل دار شاخ کا انکسار بھی ہے اور سمندر کی گہرائی بھی۔ان کے لیے شاید علم کا حصول اور عرفان کی لذّت، اظہار اور اظہار کی پذیرائی سے زیادہ اہم ہے۔ ایسے لوگ کم ہوتے ہیں جن کے لیے ان کی فکر اور ان کی تحریریں ہی ان کا ’’حاصل‘‘بھی ہوتا ہے،پذیرائی اور اعتراف بھی اور ایوارڈ بھی۔ خود پہ ایسابےنیاز اعتماد کمیاب ہے۔ مہ جبین صاحبہ کا تعلق ایک قابلِ فخر علمی اور ادبی گھرانے سے ہے۔ ان کے پڑدادا حکیم عبدالقوی ناروی جو بہت اچھے (مگر گمنام) شاعر بھی تھے،ان کے بارے میں مہ جبین صاحبہ کا مضمون پڑھنے سے تعلق  رکھتا ہے۔انہی کے خاندان میں نوح ناروی جیسی ہستی بھی گزری اور قسمت کی خوبی دیکھیے کہ شریکِ حیات قاضی قیصر الاسلام جیسے فلسفے کے نابغہ۔ مگر وہ آپ کو سادگی کا پیکر ہی نظر آئیں گی جو اپنے علم، مطالعے اور فنّی کمال کو سمندر کی گہرائی کی طرح اپنے ساتھ رکھتی ہیں۔

مہ جبین قیصر صاحبہ کی کتاب ’’تجزیاتی مضامین‘‘ پڑھنے کے بعدمیرا ارادہ تھا کہ کتاب کے حوالے سےاپنے خیالات کا    اظہار کروں گا۔ مگر اس دوران جو اُن کا افسانوی مجموعہ ’’آخری لمس‘‘ پڑھنے بیٹھا تو ذہن کی فضا یکسر بدل گئی۔ افسانوں کی کتاب کا پیش لفظ بعنوان ’’اعتراف‘‘ اور اسی میں ان کا دوسرا مضمون ’’اگر میں مر جاؤں تو‘‘، ایسی تحریریں ہیں جنھوں نے نہ صرف ان کے مضامین کے بارے میں میری رائےپر اثر ڈالااورکئی یادیں تازہ کر دیں، بلکہ اس افسانوی مجموعے کے مطالعے کو اُن کے تجزیاتی مضامین کے مطالعے سے بھی جوڑ دیا۔ یوں یہ دو الگ کتابیں میرے لیے ایک ہی سلسلے کی کڑی بن گئیں۔چنانچہ دونوں کتابوں پہ اپنے ٹوٹے پھوٹے خیالات ایک ساتھ قلمبند کر رہا ہوں۔

پہلے چند باتیں کتاب’’تجزیاتی مضامین‘‘ کے بارے میں جس میں مختلف لوگوں یاان کی تصانیف پر لکھے گئے مضامین کے علاوہ اختر الایمان صاحب کا ایک مختصر انٹرویو بھی شامل ہے۔ ان مضامین سے معلوم ہوتا ہے کہ مہ جبین قیصر صاحبہ نے مصلحت، شناسائی اور لگی لپٹی کو لپیٹ کر ایک طرف رکھ کراپنے موضوع کے بارے میں جو سمجھا، جیسا پایا، بلا جھجک لکھا ہے۔ جیسا کہ انھوں نے شروع میں لکھاہے کہ یہ تنقیدی مضامین نہیں ہیں اور یہ کہ وہ کوئی نقّاد نہیں ہیں، تو میں اس سے متفق ہوں کہ یہ مضامین دراصل ایک بھرپور فکر رکھنے والی تخلیق کار اور بیدار قاری کے تاثرات ہیں جن میں کئی ایک شخصیتوں اور کتابوں پہ بات کی گئی ہے۔ خصوصاًمولوی عبدالحق کا خاکہ جس میں حمیدہ اختر حسین رائے پوری  نے کچھ عجیب واقعات لکھے ہیں، اس پہ ایک مضمون میں اہم اور چبھتے ہوئےسوال اٹھائے گئے ہیں۔ ایک مضمون علّامہ طالب جوہری کے شعری مجموعے پر بھی ہےجو علّامہ صاحب کو بھی پسند آیا تھا۔ وہ یوں بھی اہم ہے کہ طالب جوہری صاحب کی شاعری سے کم لوگ واقف ہیں۔

یہ کتاب اٹھائیں تو شروع میں ایک الجھن ہوتی ہےجو بعد میں کتاب پڑھ کر دور ہوجاتی ہے۔ وہ یہ کہ بعض مضامین کے عنوان اس طرح لکھے گئے ہیں کہ لگتا ہے اس کتاب میں مختلف لوگوں کے مضامین کو اکٹھا کیا گیا ہے۔مثلاًمضمون کے عنوان میں کسی کتاب کا نام لکھا ہےتو اس کے نیچےچھوٹے حروف میں مصنّف کا نام ایسے لکھا ہے جیسےیہ مضمون اسی مصنّف کی تحریر ہو۔پہلے مجھے شبہ ہوا کہ میں کچھ غلطی کر رہا ہوں مگر جب ڈاکٹر خالد سہیل کو یہ کتاب دی تو ان کا بھی پہلا سوال یہی تھا، لہٰذا میں اس طرف توجہ کی درخواست کروں گا۔

اب آئیے ’’آخری لمس‘‘ کی طرف جوافسانوں کی کتاب ہے اور اس کی ابتدا میں مہ جبین قیصر صاحبہ کی دو تحریریں ہیں۔ ایک پیش لفظ بعنوان ’’اعتراف‘‘ اور ایک مضمون’’اگر میں مرجاؤں‘‘۔یہ دو تحریریں میرے نزدیک اپنے تاثراور اندازِ تحریر میں اُن کے مضامین کےمجموعے پہ بازی لے جاتی ہیں کہ معلوم ہوتا ہے جیسے انھوں نے یہاں اپنا دل نکال کے رکھ دیا ہو۔ اسی لیے باوجودیکہ ’’اگر میں مرجاؤں‘‘تجزیاتی مضمون نہیں ہے، میں پھر بھی اِس کا موازنہ اُن کے دیگرمضامین سے کیے بغیر رہ نہیں سکا۔ اِس میں انھوں نے اپنے شوہر قاضی قیصرالاسلام صاحب کے حوالے سے اپنی کچھ یادیں رقم کی ہیں اور قاضی صاحب کی اُس کتاب ’’فلسفے کے جدید نظریات‘‘ کا ذکر بھی کیا ہے جس نے خود مجھے اِس موضوع سے متعارف کرایا تھا۔ اُن کے مضمون میں کئی باتیں قابلِ ذکر ہیں جن کا لطف مضمون پڑھ کر ہی آتا ہے، سو تفصیل چھوڑتا ہوں البتہ ان میں دوباتوں کا ذکر کرتا چلوں جو میرے بھی دل سے قریب ہیں۔ ایک تو وہ کہ جہاں قاضی صاحب کے قلم کو ہاتھوں میں تلوار کی  مانند پکڑ لینےکے ساتھ سارتر کاذکر ہے۔ یہ عبارت میں نے بہت پہلے کبھی پڑھی تھی اورذہن میں اکثر گھومتی رہتی تھی ،سو ایک زمانے بعد اسے دوبارہ پڑھ کر بہت لطف آیا اور قاضی صاحب کے سراپا اور محکم لہجے کی یاد تازہ ہوگئی۔ دوسری بات،مہ جبین صاحبہ نے اس میں شبنم رومانی صاحب کا ایک شعر قاضی صاحب کی نذر کیا ہے جو شبنم صاحب نے اپنے بھائی (میرے چچا) کی جواں سال موت پہ لکھا تھا اور یہ بچپن سے میرے پسندیدہ اشعار میں سے ہے۔ سو یہ دونوں باتیں مجھےیادوں میں کئی سال پیچھے لے گئیں۔

اب آئیے افسانوں کی طرف۔ ’’آخری لمس‘‘ میں شامل افسانے اپنے موضوعات، مضامین اور علامتوں کے ذریعےقاری کو شروع سے آخر تک اپنی گرفت میں رکھتے ہیں۔ اس کتاب کے سب ہی افسانے بہت اچھے ہیں، سو آپ کو یکے بعد دیگرےپُراثر افسانے پڑھنے کو ملتے ہیں۔ اِن میں کہانی بھی ہے، علامتیں بھی اور باقاعدہ علامتی افسانے بھی ہیں جو تجرید کا شکار نہیں ہوتے بلکہ اپنے اندر کہانیاں رکھتے ہیں۔ ان کے افسانے بےجا طوالت سے عاری، چُست اور تاثر سے بھرپور ہیں اورکہانی مکمّل ہونے پہ بروقت ختم ہوجاتے ہیں۔ میرے نزدیک افسانے کا بروقت اختتام ایسی خوبی ہے جو اسے محض کہانی سے بھرپور افسانے کے طرف لے جانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور یہ خوبی اِن کے افسانوں کا خاصہ ہے۔ ان کی کہانیوں کی تہہ  میں محبت کا جذبہ کہیں زیریں لہریں رکھتا ہے تو کہیں اپنا تلاطم دکھاتا ہے مثلاً افسانے ’’موسم کا سفر‘‘ اور ’’مصوّر‘‘۔

اس کتاب میں ہماری دکھتی رگوں اور سماج کے رِستے زخموں پر مبنی موضوعات بھی ہیں جیسے ’’سچّا موتی‘‘، ’’سورج گرہن‘‘، ’’ردِّ شناخت‘‘ اور ’’ہجرتوں کا مثلّث‘‘ میں جن میں کہانی بھی ہے اورعلامتیں بھی۔ اسی طرح کچھ اور علامتی کہانیاں ہیں جیسے ’’وجود کا سنّاٹا‘‘، ’’پیاسی کہانی‘‘ اور ’’ساتویں آسمان کے نیچے‘‘۔ ان کے افسانوں کی علامتیں لایعنیت کا شکار نہیں ہوتیں بلکہ ذہن کے تاروں کو چھیڑتی، غور و فکر کی دعوت دیتی اور سوچنے پہ مجبور کرتی ہیں۔ اگر ان افسانوں کے کرداروں اور موضوعات کو پرکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان کے بعض موضوعات مختلف کہانیوں میں کردار بدل بدل کر سامنے آتے ہیں مگر یکسانیت کے احساس کے بغیر۔ یہ موضوعات ہیں ہجر، تنہائی، موت، اقدار کی شکست و ریخت اور ان کے نتیجے میں پیدا تہذیبی المیے خصوصاً بوڑھوں کے ساتھ اولاد کے رویّے، بےمروّتی اور بیزاری جو ہمارے تہذیبی دعوؤں کی تردید کرتے ہیں، سو اِن کا اظہار مختلف کہانیوں کے کرداروں کے ذریعے ہوتا ہے جیسے افسانہ ’’انتظار‘‘، ’’آخری لمس‘‘، ’’سیل والی گھڑی‘‘ اور ’’شیشے کا گھر‘‘۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آخری بات یہ کہ ان دونوں کتابوں پر بزرگانِ علم و فن کی آرا کی موجودگی میں میری ناچیز رائے کیا معنی، سو اجازت کے ساتھ مہ جبین صاحبہ کو کتابوں کی دلی مبارکباد دیتا ہوں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply