اب بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ ہم ولیمے میں سو لوگ لائیں گے؟ جب ہم لوگ بارات میں پچاس لوگ لے کر جا رہے ہیں تو انہیں بھی ولیمے میں پچاس ہی لوگوں کو لانا چاہیے، کہ اسی طرح← مزید پڑھیے
ہمارے لئیے زبیدہ ہمیشہ سے تاریخ میں نور جہاں کی ٹکر کی رہی۔نور جہاں کی کہانیوں نے اگر مسحور کیا تو ہارون کی چہیتی زبیدہ بھی کِسی سے پیچھے نہیں تھی۔اُس انجینئر کی آنکھوں کی چمک اور لہجے سے چھلکتا← مزید پڑھیے
“ضرورت ہی نہیں میری” محبت ڈھونڈنے نکلی تو جنگل میں۔۔۔۔۔ کئی وحشی درندے لوبھ کے مارے جناور راہ کو روکے ہوئے اپنے بدن کے خفتہ حصوں کو کھجاتے۔ گھورتے جاتے تھے صدیوں سے۔۔۔۔میری جانب٠٠٠٠ کئی قرنوں سے میں اپنے← مزید پڑھیے
گھوڑے اور احمق والے کھیل میں جب بھی پھونک مارنے کا وقت آیا میں نے گھوڑا بننے کو ترجیح دی ۔پہلی پھونک ہمیشہ میری ہی ہوتی تھی ۔۔ بس ایک بار ہار گیا، کیونکہ اس بار پائپ کے دوسری طرف← مزید پڑھیے
عرض ِ حال ٹی ایس ایلیٹ نے اپنی طویل نظم The Dry Salvages میں کہا ہے: There is no end, but additions: the trailing Consequences of further days and hours While emotion takes to itself the emotionless Years of living← مزید پڑھیے
جانے والے! رکو سیپیاں، مونگھے، موتی وہیں رہ گئے میری چنری کی رنگت سیہ پڑ گئی میں نے کشتی کھیوئیے کو آواز دی کتنے ترلے کئے،ہاتھ جوڑے بہت سارے ساتھی درختوں نے منت بھی کی نیم تڑپی بہت کیکروں نے← مزید پڑھیے
مری چشم بینا سے پٹّی تو کھولو مجھے دیکھنے دو یہ کیا ہو رہا ہے؟ یہاں جنگ کی آگ میں جلتے ملکوں سے بھاگے ہوئے مرد و زن، صد ہزاروں سمندر کی بے رحم لہروں میں غرق ِ اجل ہو← مزید پڑھیے
اے مری چادر مِری شرم و حیا کی پاسباں سُندر سہیلی،سُن ذرا تیرے ان چھیدوں کے رَستے میرے سارے کچے خوابوں،کے سجل آنسو ٹپک کر،بہہ گئے کچھ کہہ گئے جسم کے کورے دئیے کی سب لوئیں بُجھ بُجھ کے ہی← مزید پڑھیے
یہ کہانی کراچی یعنی میرے شہر دلبرا کے ایک گنجان محلے کی ہے جہاں نہ صرف گھر سے گھر ملے ہوئے تھے بلکہ دلوں میں بھی دوریاں نہ تھیں۔ سکون کا زمانہ تھا، رات کے آخری پہر بھی اگر گھر← مزید پڑھیے
مجھے بھی شائستہ اور بچوں سے بہت محبت ہے مگر عظیم کا تو لیول ہی الگ تھا۔ وہ مجھ سے کوئی چار پانچ سال چھوٹا ہو گا مگر میں واقعی اس کے جزبہ محبت سے بہت انسپائر تھا۔ ایک آدھ← مزید پڑھیے
کبھی کبھار لاڈپیار میں ہاتھ ڈال دیا ۔۔۔تو اچھا لگتا ہے ، لیکن ہرروز کام پہ جانے سے پہلے جب بھی میں نے عاصم سے خرچہ مانگا ۔۔۔ اس نے پیسے ہاتھ میں پکڑانے کی بجائے خود رکھے ۔کئی بار← مزید پڑھیے
مجتبٰی صاحب میں کینٹین جا رہا ہو ہوں جلدی سے آ جائیں بہت بھوک لگ رہی ہے۔ ہاں تم پہنچو! میں بس آیا کہ آیا۔ میں نے تیزی سے فائل سمیٹتے ہوئے جواب دیا۔ آج کیا ہے خاصے میں جناب؟← مزید پڑھیے
سچ تو یہ تھا میری آنکھوں میں میرے بچپن کی ساری ہنسی چھلکی تھی۔میرا وجود کسی معصوم بچے کی طرح کلکاریاں مارنے لگ گیا تھا۔مسرت کے بے پایاں احساس سے نہال میں نے اپنے سامنے چوک کو دیکھا تھا۔ اللہ← مزید پڑھیے
بجتے ہوئے گانوں کے پیچھے ہلکی سی آواز سنائی دی، میں نے ہینڈ فری اتارا، دوبارہ وہی آواز آئی، مجھے نام سے بلایا جا رہا تھا، آواز امی کی تھی۔ “یقینا کوئی کام ہوگا۔” میں غصے میں بڑبڑایا اور اٹھ← مزید پڑھیے
کچے مکان کا دروازہ اور زور دار دستک، باہر نکلا تو ایک ہاتھ تھا۔ “کس کو تلاش کر رہے ہیں؟” میں نے پوچھا۔ “لٹیروں کو۔” ہاتھ بولا۔ “پر یہ تو کچی بستی ہے، لٹیرے پکے مکانوں میں رہتے ہیں۔” چند← مزید پڑھیے
ناصر نے اپنی انگلیاں اپنے ہی بالوں میں ڈال کر تیزی سے گھما دیں اور خود ہی بول اٹھا یہ اصل تصویر ہے حقیقی معنوں میں میرا چہرہ جو مکمل طور پر میری زندگی کا عکاس ہے۔ اُس پر اداسی← مزید پڑھیے
نو برسوں تک بدھ وِہاروں اور پیروکاروں کی تربیت میں مصروف رہنے کے بعدایک دن جب وہ چھ پیروکارچیلوں کی صحبت میں چلتا چلتا کپل وستو پہنچا تو ان کو ایک موڑ پر انتظار کرنے کے لئے کہہ کر ،اپنا← مزید پڑھیے
وہ ایک نہایت خوبصورت دل کی مالک تھی۔ ہم کافی عرصے بعد ساتھ بیٹھ کر پچھلی باتوں پر تبصرہ کر رہے تھے کہ اسکا اچانک کیا جانے والا سوال مجھ پر بجلی بن کر گرا۔ “کیا کہا؟۔ ” اس نے← مزید پڑھیے
گلستان جوہر تو خود اپنی ذات میں ایک شہر بن گیا ہے، اپارٹمنٹس کا جنگل ۔ کبھی کبھی تو یہ بھی گمان ہوتا ہے کہ شاید یہی میدان حشر ہو گا، لوگ ہی لوگ ایک جم غفیر ہے۔ آج کل← مزید پڑھیے
ناصر ایک عام آدمی تھا۔ سڑکوں کنارے درختوں کی چھاؤں میں بیٹھے گاڑیاں گننے والے لوگ۔ ہر گزرتی گاڑی دیکھ کر اپنی خواہش کا معیار بدل لینے والے لوگوں کی طرح۔ مگر قدرت نے ناصر کے اندر سائنس اور ادب← مزید پڑھیے