سوز ِنہاں۔۔شاہین کمال

اب بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ ہم ولیمے میں سو لوگ لائیں  گے؟
جب ہم لوگ بارات میں پچاس لوگ لے کر جا رہے ہیں تو انہیں بھی ولیمے میں پچاس ہی لوگوں کو لانا چاہیے، کہ اسی طرح مروجہ ہے، سمجھو یہ ایک طرح کا ان کہا باہمی سمجھوتا ہوتا ہے۔ عجیب لوگ ہیں الٹی گنگا ہی بہائے دے رہے ہیں۔ ہم لوگ لڑکے والے ہیں مگر لڑکی والے اپنی ہی منوائے چلے جارہے ہیں، آگے آگےدیکھو امتل کہ ہوتا کیا ہے ۔

آنگن کے وسط میں لگے نیم کی گھنیری چھاؤں تلے سرمد کے آبا نے بےزاری سے اپنے سامنے رسیدوں کا انبار رکھے، ناک پہ چشمہ ٹکائے کیلکولیٹر سے سر کھپاتے ہوئے کہا۔
میں نے سرمد کی دلہن کی چوتھی کی ساڑھی میں لگاتے فال کا آخری ٹانکہ مکمل کرتے ہوئے دانتوں سے دھاگہ توڑا اور انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا کہ

جانے دیجئے ملک صاحب اکلوتے بیٹے کی خوشی کا موقع ہے۔

ارے !  اگر اکلوتا بیٹا ہے تو کیا اپنے آپ کو مونڈ دوں ؟ عجیب بات کر رہی ہو۔ میں ایک درمیانے درجے کا صحافی ہوں، مر مر کے تو یہ مکان بن پایا ہے صحافی کالونی میں اور اچھے سے سمجھ لو امتل کہ بس فقط یہی گھر ہی ہے ہم لوگوں کے بڑھاپے کا سہارا۔

اللہ نہ کرے ملک صاحب کیسی فضول باتیں کر رہے ہیں ۔ اللہ آپ کو اور سرمد کو سلامت رکھے، بعد اللہ آپ دونوں کا سہارا ، بھلا گارے چونے کی عمارت بھی کبھی سہارا ہوئی ہے؟
اچھا اب آپ اپنا دفتر سمیٹئے مغرب کی اذان میں تھوڑی ہی دیر ہے، ایک کپ گرما گرم چائے پی لیجئے میں نے دلہن کی ساڑھی کو احتیاط سے شفاف پولیتھن بیگ میں رکھتے ہوئے کہا۔

بات کچھ ایسی خاص بھی نہ تھی، سرمد ہمارا اکلوتا بیٹا تعلیم سے فارغ ہو کر برسر روزگار تھا اور ہم دونوں گویا اس کی شادی کے ارمان میں مرے جاتے تھے۔ خاندان میں کیا ننھیال اور کیا ددھیال دونوں جگہ سرمد میاں ہاتھوں ہاتھ لئے جاتے تھے۔میں بھی دل ہی دل میں اپنی بھتیجی پر نثار اور اسے اپنی بہو بنانے کی آرزو مند تھی اور میرے سسرال میں میری بڑی نند چھنی باجی سرمد کی دعویدار۔ یہ خاصی پیچیدہ صورت حال تھی کہ ایک شام چائے پیتے ہوئے سرمد میاں نے اپنے کلاس فیلو منیر کی بہن سنبل سے شادی کا عندیہ دیا اور ساتھ ہی اپنے اکلوتے پن کا ٹرم کارڈ کھیلتے ہوئے تھوڑی سی جذباتی بلیک میلنگ بھی کی۔

اس قضیہ سے ملک صاحب تو کافی جزبز ہوئے پر مجھے چھنی باجی کے قلق سے ایک کمینی سی خوشی اور اطمینان نصیب ہوا گو کہ بلقیس بہت پیاری اور باادب بچی تھی پر چھنی باجی کی عقربی فطرت کا میں کیا کروں کہ وہ کبھی بھی ڈنک مارنے سے باز نہیں آتی تھیں۔
میں اپنے لگاتار تین مس کیریج کے سانحات کو کیسے بھول جاؤں کہ اجڑی کوکھ کا دکھ کم تھا کہ چھنی باجی میری سوکن ڈھونڈ مہم کی سرغنہ ٹھہریں۔ مجھے آج تک سمجھ میں نہیں آیا کہ انسان فرعون بن کر خدائی معاملات اپنے ہاتھوں میں کیسے لے لیتا ہے؟

میں سکھر سے بیاہ کر اس عروس البلاد میں آئی تھی۔ میرے سسر، ابا کے پھوپھی زاد بھائی تھے اور میری دادی کی تعزیت پر سکھر آئے اور واپسی سے قبل اپنے چھوٹے بیٹے ہشام ملک کی خانہ آبادی کے لیے ابا کے آگے دست سوال دراز کیا ۔ میرا مروت زدہ باپ بڑے بھائی کے سوالی ہاتھوں کو خالی موڑنے کی تاب نہیں رکھتا تھا گو کہ امی جان اپنے سسرال میں میرے رشتے کے حق میں نہیں تھیں۔ جیسے قضا سے مفر نہیں ویسے ہی جفت جوڑے کے آسمانی بندھن سے بھی انکار نہیں۔ سو میری شادی ہشام ملک سے ہوئی اور میں نے انہیں دل و جان سے قبول کیا۔ میری سسرال اچھی تھی کہ سب ہی اپنے تھے پر جانے چھنی باجی کو میری کیا بات یا ادا بری لگی کہ وہ سدا میری خانہ بربادی کی تمنائی ہی رہیں اور ان کو کھل کر کھیلنے کا موقع میرے تین مس کیریج نے بہم کئے، اس حد تک کہ میری ساس بھی چھنی باجی کی ہمنوا ہو گئی تھیں اور انہیں بھی ملک صاحب کی نسل کی بے نشانی رات رات بھر بےخواب رکھنے لگی تھی۔ کسی کے دل میں اس ماں کے لیے ذرا دیا رحم نہ تھا جس کی صرف گود ہی نہیں اجڑی تھی بلکہ دل بھی ویران ہو گیا تھا۔ اللہ بھلا کرے ملک صاحب کا کہ وہ میرے بھربھری مٹی جیسے وجود کو تھامے رہے اور ببانگ دہل اعلان کیا کہ بچہ ہو یا نہ ہو امتل ہی ان کی زندگی کی شریک ہے اور رہے گی۔ ملک صاحب کے اس عمل نے مجھے بن مول خرید لیا کہ محبت تو مجھے ان سے رشتہ جڑتے ہی ہو گئی  تھی پر اب تو میں ان کی پجارن تھی۔ ہمارا اکلوتا لخت جگر سرمد شاید میری شب بیداریوں اور زاریوں کا ثمر ہے۔

ٹیگور نے کیا خوب کہا ہے کہ کبھی اپنی دونوں آنکھوں کا تلنا مت کرنا ٹھیک اسی طرح میں بھی یہ فیصلہ کرنے سے قطعاً قاصر ہوں کہ مجھے زیادہ عزیز کون ہے ملک صاحب یا سرمد؟
جو سچ پوچھئے تو شاید یہ تولنا ہی بےکار کہ محبت تو بس محبت ہے کم کیسی اور زیادہ کیسی۔

گو مجھے اپنی بھتیجی عزیز تھی مگر سرمد کی خواہش عزیز تر اور مقدم۔
میری سرمد سے جنونی محبت کو کوئی میری جیسی کوکھ اجڑی ماں ہی سمجھ سکتی ہے۔

سرمد میری زندگی کا محور و منبع تھا تو ملک صاحب میری بینائی اور دل کا سرور۔ سرمد کو پالنے میں ہم دونوں نے جان لڑا دی تھی۔ ملک صاحب بہت اچھے صحافی اور مصنف تھے مگر دو نمبری اور خوشامد کے داؤ پیچ سے قطعاً نا آشنا اسی لیے ساری عمر ہم نے روکھی سوکھی کھائی مگر پیٹ کاٹ کر سرمد کو اعلی تعلیمی اداروں میں پڑھایا۔ ہمارے گھر کا کل سرمایہ سرمد کے بعد ملک صاحب کی جمع شدہ کتابیں تھیں۔ انہیں کتابوں سے عشق تھا اور اس کا ثبوت ہمارے گھر میں نایاب اور قیمتی کتابوں سے سجی شیشے کی تین جگر جگر کرتی الماریاں تھیں جونہ صرف گھر کی شان تھیں بلکہ سرمد کے بعد ہم دونوں کی مشترکہ محبت بھی۔ میں ہمیشہ سے اردو ادب کی دلدادہ تھی پر اس شوق کو جنوں خیز ملک صاحب کی سنگت نے کیا۔

بات کہاں سے چلی اور کہاں پہنچ گئی قصہ کوہ تاہ سرمد کی شادی خوش دلی اور ولولے سے انجام دی گئی۔ نیا جوڑا بیس دن کے لیے شمالی علاقاجات کی سیر کو نکل گیا اور ان کی واپسی کے ساتھ ہی زندگی بھی پرانی ڈگر پہ آتی گئی۔ سنبل اچھی بہو تھی ماسوائے ایک نقص کے کہ اسے اپنے والد کی دولت کا غرور تھا اور اس کی نظروں میں ہر چیز اور جذبے کا مول۔ شاید وہ اتنی غلط بھی نہیں تھیں کہ اب لحاظ مروت سب متروک تھے کہ سکہ رائج الوقت کھنکھناتے سکے ٹھہرے۔

گزرتے وقت نے ہمارے آنگن کی پھلواری میں دو پوتے اور ایک پوتی کا اضافہ کیا۔ ہم وہی روایتی دادا دادی تھے بچوں کو کہانیاں سنانے والے اور ان کے لیے مٹی اور لکڑی کے کھلونے لانے والے۔ میں اپنی پوتی کے لیے کپڑے اور اون کی گڑیا بناتی مگر وہ سب طاق پر دھری کی دھری رہتیں  کہ ان کے نانا کے لائے گئے قیمتی اور امپورٹٹڈ کھلونے میدان مار لیتے۔ مجھے بڑی حیرت ہوتی تھی کہ سرمد کبھی اپنے بچوں کو تحفے میں کتابیں نہیں دیا کرتا تھا، ہمیشہ کھلونے اور کھلونوں میں بندوق دیکھ کر میرا دل وحشت زدہ ہو جاتا تھا۔ جبکہ ہم دونوں ہر ایونٹ اور تہواروں پر سرمد کو کھلونوں کے ساتھ ساتھ کتابیں لازمی دیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ میں نے سرمد سے پوچھا کہ تم بچوں کے لیے کتابیں کیوں نہیں لاتے؟

اس نے بڑی تلخی سے کہا تھا امی کتابوں کا کیا کرنا؟ کتابی اسباق جیتی جاگتی زندگیوں پر لاگو نہیں ہوتے، کتابیں محض خواب دکھاتی ہیں مگر ان تک رسائی کے راستے نہیں دیتیں۔ وہ آدرشی تو ہوتی ہیں پر زمینی حقائق سے نابلد اور میں اپنے بچوں کو فیکٹس اینڈ فِگر کی حقیقت کے ساتھ پالنا چاہتا ہوں اسی لیے ان کی رسائی میں صرف نصابی کتابیں ہیں باقی ادب ودب سب وقت کا زیاں۔
میں حق دق رہ گئی تھی ۔ کیسی بات کر رہے ہو سرمد یہ کتابیں ہی تو ہیں جنہوں نے تمہیں اتنا تابندہ حال دیا ہے۔
کس دنیا میں ہیں آپ امی؟

آپ کارپوریٹ ورلڈ کو نہیں جانتی وہ بہت سفاک ہوتی ہے ، وہاں کونٹیکٹس چلتے ہیں اور ان کو پہیہ لگاتا ہے روپیہ۔ میری بھولی امی یہ بات گرہ میں باندھ لیجئے کہ
باپ بڑا نہ بھیا ، سب سے بڑا ہے روپیہ۔
بس روپیہ کہیں سے بھی اور کیسے بھی۔

دل ماننے کو تیار نہ تھا کہ یہ میرا سرمد ہے۔ اس کا تو پچھلا سارا وقت کتابوں کی چھاؤں میں گزرا تھا۔ یہ میرا کیسا نونہال تھا جو نونہال پڑھ کر بھی اس سے مستفید نہ ہوا۔ باپ کی دلائی گئی تعلیم اور ماں کی تربیت بھی اس کا کچھ نہ سنوار سکی؟ یہ کیسا گل تھا جو ماں کی گل زمیں سے رس کشید کر کے بھی پھلواری کا قدر شناس نہیں۔صحافی اور ادیب باپ کا بیٹا اور ادب سے اس درجہ متنفر؟
سرمد اب بہت بہت بدل گیا تھا۔

مجھے اندازہ ہی نہیں تھا کہ آنے والا وقت میرے لیے کتنا اندوہناک ہے۔ میری آنکھوں کی روشنی اور میرے سر کا سائبان میرے دیکھتے ہی دیکھتے ختم ہو گیا۔ ایسا شدید دل کا دورہ کہ ہسپتال   پہنچنے  تک کی بھی مہلت نہیں ملی۔ اس سیاہ رات سب کچھ صحیح تھا، ہم سبھوں نے حماد ہمارے بڑے پوتے کے آٹھویں جماعت کے شاندار رزلٹ کو دو دریا کے ریسٹورنٹ میں دلی خوشی کے ساتھ منایا۔ گھر واپس آئے اور نماز پڑھی، انہوں نے اپنی بلڈ پریشر کی گولیاں کھائیں  اور ہم دنوں معمول کے مطابق باتیں کرتے کرتے جانے کب سو گئے۔ میری آنکھیں عجیب سی خرخراہٹ کی آوازوں پر کھلیں، اور ملک صاحب کی ابتر حالت دیکھتے ہوئے میں ننگے پاؤں بھاگتی ہوئی اوپر کی سیڑھیاں چڑھ کر سرمد کے کمرے کا دروازہ بجانے لگی۔ سرمد نائٹ سوٹ ہی میں باپ کو لیکر ہسپتال بھاگا مگر شاید دیر ہو چکی تھی کہ سب کچھ ختم ہو گیا۔ ہسپتال  پہنچنے  پر ڈاکٹروں نے ان کو مردہ قرار دیا اور یوں پلک جھپکتے میں میرا سکھ چین اجڑ گیا۔ ملک صاحب کیا گئے کہ زندگی کی معنویت ہی ختم ہو گئی۔

اب نچلی منزل میں حماد میری تنہائی کے خیال سے رات میں میرے ساتھ ہوتا تھا۔ میرا دن ملک صاحب کی کتابوں کی دیکھ ریکھ اور جھاڑ پونچھ میں اور شام پرانے معمول کے مطابق محلے کی بچیوں کو قرآن پاک کا سبق دینے اور بڑی لڑکیوں کو سلائی کٹائی سکھانے میں بسر ہو رہی تھی۔ زندگی اپنی روٹین پر تھی ،وہی شب و روز مگر دل بجھ گیا تھا۔ سرمد ہمیشہ سے گھر کے آنگن میں سبق کی غرض سے آئی بچیوں کے خلاف تھا کہ اسے گھر میں باہر والوں کی آمد و رفت بالکل پسند نہیں تھی مگر باپ کے سامنے کھل کے معترض نہیں تھا پر اب کھل کر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرنے لگا تھا۔

جنوری کی سرد پڑتی شام سرمد نے ایسی خبر دی جو تھی تو خوشخبری مگر اس کے جملے کے اختتام تک میری رگوں میں دوڑتا لہو اُترتی یخ بستہ شام کی طرح سرد پڑ گیا۔ سرمد نے شہر کے بہت پوش علاقے میں گھر خرید لیا تھا اور اگلے مہینے ہم سبھوں کو وہاں منتقل ہونا تھا اور اس گھر کی  فروخت کی بات وہ پہلے ہی پراپرٹی ڈیلر سے کر چکا تھا اور مجھے فروخت کی زحمت سے بچانے کے لیے اب پاور آف اٹارنی کے کاغذ پر میرے دستخط کا متمنی ۔ اس چھت تلے میرے صرف پچیس سال ہی نہیں تھے بلکہ اس کی ایک ایک ایک اینٹ پر ملک صاحب کا لمس بھی تھا۔ یہ میری زندگی کا مشکل ترین لمحہ تھا ۔ اس گھر سے جدائی صرف ملک صاحب سے نہیں بلکہ اپنے آپ سے بھی جدائی تھی مگر شاید اب میرے لیے میری اپنی ہی زندگی میں مزید آپشن یا پسند و ناپسند کا اختیار نہیں تھا۔ بہت بھاری دل اور بھری آنکھوں سے میں نے پاور آف اٹارنی پر دستخط کر دیئے اور آج پہلی بار دل کرلایا کہ کاش سرمد میری اکلوتی اولاد نہ ہوتا ،شاید میرا کوئی دوسرا بچہ بھی ہوتا تو وہ اس گھر کو کم از کم میری حیات کے آخری پل تک کے لیے بکنے سے بچا لیتا۔ کیا کیا جائے کہ زندگی بہت سارے” کاش” سے عبارت ہوتی ہے۔
پہروں یہ دل سوچتا ہے
یوں ہوتا تو کیا ہوتا
یوں ہوتا تو کیا ہوتا۔

جس دن نئے گھر میں سامان کی منتقلی تھی اس دن صبح ہی سرمد نے ہم لوگوں کو نئے گھر بھجوا دیا تھا۔ لش لش کرتا آراستہ پیراستہ گھر تھا۔
میں یہاں آنے سے پہلے اپنا مختصر اسباب باندھ کر آئی تھی۔ میرا سامان ہی کیا تھا محض چند جوڑے کپڑے۔ میرا اصل اثاثہ تو ملک صاحب کی کتابیں تھیں جو کانچ کی تین الماریوں میں سجی دھری تھیں۔ ان کتابوں میں مجھے ملک صاحب کی سانسوں کی مہک اور ان کے ہاتھوں کا لمس محسوس ہوتا تھا۔ وہ کتابیں کب تھیں؟
وہ تو میری ہمراز سہلیاں تھیں جو میرے ہجر سے جھلستے دل پر یاد کا شبنمی پھاہا رکھتی ۔ گھر سے نکلتے ہوئے دیواروں کو سہلاتے اور نیم کے درخت کو گلے لگاتے ہوئے میں نے سرمد کو کتابوں کو حفاظت سے ٹرک پر چڑھانے کی تلقین کی تھی۔

شام ہوچکی تھی، ٹرک والے دو پہر ہی میں سارا سامان بھی اتار کر جا چکے تھے مگر کتابوں کے کارٹن اور شیشے کی تینوں الماریاں پورے گھر میں کہیں نہیں تھیں۔
سرمد سے پوچھنے پر اس نے کہا کہ امی کباڑ کا کیا کرنا تھا؟ سو میں نے سب کباڑیے کو دے دیں۔

کیا؟
کیا کہ رہے ہو تم ؟
مجھے لگا میرے کان بج رہے ہیں۔ بھلا سرمد ایسا کیسے کر سکتا ہے؟
وہ ان کتابوں کی اہمیت اور میری ان سے وابستگی سے آگاہ ہے وہ بھلا ایسا کیوں کرے گا؟
امی وہ کباڑ میرے گھر کے ڈیکور سے میچ نہیں کرتا سو میں انہیں نہیں لایا۔
مجھے لگا میرے سامنے میرا بیٹا نہیں بلکہ گلی گلی موبائل اور پرس چھیننے والا کوئی خبیث، بد باطن لٹیرا کھڑا ہے مگر وہ بےغیرت تو صرف مال چھینتے تھے اس سفاک نے تو میری یادوں پر شب خون مارا ہے اور میری حیاتی کا سارا سرمایہ لوٹ کر مجھے بے آسرا کر دیا۔
میرے پیٹ میں شدید ایٹھن ہوئی اور میں چکرا کر زمین پر گرتی چلی گئی۔ میری ڈوبتے ذہن میں صرف ایک بات تھی کہ منت ترلے اور آہ و زاریوں سے مانگی ہوئی اولاد اور ایسی نابکار ۔۔
ہائے میرا کیسا خسارہ ہو گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

بےشک تمہارے مال اور تمہاری اولاد تو ایک آزمائش ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply