یہ ایک حیرت انگیز دیس تھا۔ میں شکایت لیے تھانے پہنچا، انسپکٹر کانوں سے محروم تھا، اسے سنائی نہیں دیا۔ عدالت میں کھڑاہوا، منصف کے بھی کان نہیں تھے، سماعت ادھوری رہ گئی۔ قصۂ مظلومیت اٹھایا اور گورنر کے دروازے← مزید پڑھیے
ماہین دوبارہ اسی پھول کو سوچنے لگی۔ پھول، کہ جس کی دھندلی سی تصویر اُس کے ذہن میں ہچکولے کھا رہی تھی۔ یہ تصویر ماہین کو اس لمحے ایسے محسوس ہوئی جیسے غیب کا کوئی منظر ہو، پھر اُس کی← مزید پڑھیے
پچھلے دو گھنٹوں سے وہ مسلسل مجھ سے لڑے جارہی تھی۔ ہم دونوں میاں بیوی پچھلے دو گھنٹوں سے پیدل چل رہے تھے۔ گرمی سے وہ بے حال ہورہی تھی۔ میرے پاس ٹیکسی کے پیسے نہیں تھے سو اسے،اس کی← مزید پڑھیے
سکھیا اس کی دیوانی تھی۔ وہ ہیر گاتا تو کسی پجارن کی طرح اس کے بولوں میں کھو جاتی۔ قالوا بلی دے دینہہ نکاح بدھا روح نبی دی آپ پڑھایا ای قُطب ہو وکیل وِچ آ بیٹھا حکم رب نے← مزید پڑھیے
کچھ نام عجیب سی رومانیت،ایک پرفُسوں سا سحر اور بے نام سی اپنایت کی خوشبو اپنے اندر لئیے ہوئے ہوتے ہیں۔منصور نام بھی کچھ ایسا ہی ہے۔میں توسمجھتی تھی کہ میں ہی اس کے عشق میں مبتلا ہوں۔مگر نہیں جی← مزید پڑھیے
کمرہ خوشبو سے بھرا ہوا تھا, جیسے کوئی باغ ہو ,جسے دل کے خون سے سیراب کیا گیا ہو۔ کمرے کی چاروں دیواروں پر تصویریں چسپاں تھیں۔ یہ تصویریں اپنے مصور کے اظہارِ فن کا ایسا نمونہ تھیں جیسے کسی← مزید پڑھیے
آج بیتی آ خرِ کار اپنے انجام کو پہنچی وہ کمبخت ” مکھی”جانے کیسے گُھس بیٹھی ہمارے کمرے میں،ہم چونکہ سوتے وقت قمیض زیبِ تَن نہیں کرتے، بَس اُس کمبخت کی تو جیسے نِکل پڑی، لگی ہمارے جِسم پر اَٹھکِیلیاں← مزید پڑھیے
“ریڈکتیو ایڈ ابسرڈم ٭کی تکنیک میں غالب کے دس فارسی اشعار کو میں نے نظموں کا جامہ پہنایا تھا (کہ برہنہ بدن یہ اشعار فارسی میں بدصورت دکھائی دیتے تھے) ان میں سے ایک شعر پر استوار نظم یہ ہے۔← مزید پڑھیے
گاڑی کے اندر ایک سوگوار سی فضا تھی،کُل چار افراد تھے،پچھلی سیٹ پر ایک عورت بیٹھی ہوئی تھی، اسکی بیٹی اسکی جھولی میں سر رکھے لیٹی ہوئی تھی،اگلی سیٹ پر اس عورت کا بیٹا تھا اور اسکا خاوند گاڑی چلا← مزید پڑھیے
مستنصریہ میں داخل ہونا گویا ایک عہد میں داخل ہونا تھا۔ عباسی خلفاء نے محل مینار ے بنائے۔ تجارتی منڈیوں اور مرکزوں پر توجہ دی۔ فصیلوں کو کھڑا کیا۔ نظم و نسق کو مضبوط اور امن و امان کی صورت← مزید پڑھیے
میری معصوم سی خواہش ہے کہ میری ایک ایسی گرل فرینڈ ہو جو سال میں چار دفعہ میری سالگرہ منائے اور ہر دفعہ لگ بھگ ڈیڑھ دو لاکھ کے تحفے پیش کرے۔ کبھی یہ نہ پوچھے کہ تم بیوی کے← مزید پڑھیے
چھوٹا بچپن سے میرا دوست ہے۔ ماسٹر جی سے ڈنڈے ساتھ کھائے، باغ سے امرود ایک ساتھ چرائے، ٹیوب ویل میں ڈبکیاں ساتھ لگائیں، کرکٹ کھیلتے ہوئے ایک ٹیم میں ہوتے، لڑائی ہوتی تو مل جاتے، ایک جسم کے چار← مزید پڑھیے
گھر بنانے میں اسے برسوں لگے تھے سب سے پہلے گھر کی بنیادوں کے پتھر پانچ دریاؤں کے چٹیل ساحلوں سے چُن کے لایا ان پہ اپنا نام کندہ کر کے بنیادیں بنائیں چار دیواری کھڑی کی طاق ، دروازے،← مزید پڑھیے
حال ہی میں ورلڈ اردو ایسو سی ایشن،نئی دہلی کے چئیرمین پروفیسر خواجہ اکرام الدین اور ان کی ٹیم کی ان تھک محنت اور کوشش سے چار نئے ڈیجٹیل پلیٹ فارم کا افتتاح کیا گیا، جس کے تحت ورلڈ اردو← مزید پڑھیے
جب سے جمعہ کا خطبہ سن کر آیا ہوں۔ دل کبھی اپنے مولویوں کی سادگی پر ہنسنے کو کر رہا اور کبھی ان کی کم عقلی پر ماتم کرنے کو۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور یہ ابھی۔ اپنے← مزید پڑھیے
وہ سب ہنسنے لگے اور ایک لڑکا مجھے پیر سے ٹھوکر مارتے ہوئے ” سالا پھٹو” کہتا ہوا چلا گیا۔ جب میں رو رو کر تھک گیا تو خود ہی اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اب میں بالکل قلاش تھا، ماسی← مزید پڑھیے
رندہزارشیوہ را طاعت حق گراں بود لیک صنم بہ سجدہ در ناصیہ مشترک نخواست (غالبؔ) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گھپ اندھیرا تھا شوالے میں ، مگر ٹھنڈی، ملائم روشنی کا ایک ہالہ دیوتا کی مورتی کو نور سے نہلا رہا تھا مورتی کے← مزید پڑھیے
ایک لات نے مجھے منجی سے نیچے ہی نہیں گرایا بلکہ سوہنے خوابوں کی دنیا سے کریہہ حقیقی دنیا میں لا پھینکا۔ میں جلدی سے اپنی پیٹھ سہلاتا اور لنگڑاتا ہوا اپنی بوری اٹھا کر گھر سے بھاگ نکلا۔ روٹی← مزید پڑھیے
وہ کئی برسوں سے کرب کی ایک آندھی اور گہری کھائی میں گرتی ہی چلی جا رہی تھی۔ اذیت کی اس کیفیت کی کوئی حد ہی نہیں تھی۔ وہ مکمل کھائی میں گرتی بھی نہ اور، باہر بھی نہ نکل← مزید پڑھیے
گزشتہ برس دسمبر میں تحریر کردہ! سردی سخت تھی۔۔۔ سخت تھی سردی اور میں، ایک اکیلا، آنگن میں کرسی پر اکڑ وں بیٹھا اپنی ٹوٹی ٹانگ کا نوحہ دل ہی دل میں دہراتا یہ پوچھ رہا تھا “دھوپ کہاں ہے؟← مزید پڑھیے