چھالے۔۔عارف خٹک

پچھلے دو گھنٹوں سے وہ مسلسل مجھ سے لڑے جارہی تھی۔ ہم دونوں میاں بیوی پچھلے دو گھنٹوں سے پیدل چل رہے تھے۔ گرمی سے وہ بے حال ہورہی تھی۔ میرے پاس ٹیکسی کے پیسے نہیں تھے سو اسے،اس کی ماں کے گھر سے اپنے گھر پیدل لیکر جارہا تھا۔ اس کو اس بات کا قلق تھا کہ آگ برساتے آسماں  تلے،میں اس کو پیدل چلائے جارہا ہوں۔ اس کو معلوم بھی تھا کہ اس کو لینے کیلئے بھی میں تین گھنٹے پیدل چل کر آیا ہوں۔ آس پاس ائرکنڈیشنڈ گاڑیاں زناٹے سے گزرتیں تو وہ حسرت سے ان گاڑیوں کو دیکھتی۔
“لوگوں کے پاس پیسہ ہوتا ہے ہمارے پاس کیوں نہیں ہے؟”۔
میں شرمندگی سے اپنے پیروں کو دیکھنے لگاجو تیزی سے آگے کی  طرف بڑھ رہے تھے۔
“ابھی گاڑی جو گزری اس میں کتنی کم شکل کی عورت بیٹھی ہوئی تھی۔ کیا وہ مجھ سے زیادہ خوبصورت تھی”؟
اس نے میرا بازو پکڑ کر مجھے جھنجھوڑا، میں مزید اپنے آپ میں سمٹ گیا۔
“وہ حسین بھی نہیں ہے میری طرح، مگر پھر بھی اس کے پاس گاڑی کی عیاشی ہے اور مجھے دیکھو میں دھوپ میں جل رہی ہوں تمہارے ساتھ”۔
میں نے اپنے پیروں پر نظریں جمائیں جو تیزی سے زمین کو پیچھے چھوڑ رہے تھے۔ میرا انگوٹھا میرے جوتے سے باہر جھانک رہا تھا۔
“بات دراصل اس عورت میں نہیں ہے”۔ وہ تیکھی نظروں سے مجھے گھورتی ہوئی شکایت کرنے لگی۔ میں مزید خود میں سمیٹنے لگا۔
“بات اس کے مرد میں ہے۔ اس نے کما کر دیا،اس نے اپنی ذمہ داری محسوس کی، اس نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنی عورت کو سکون بھری زندگی دے گا، سو اس نے کرلیا”۔
میں نے بے بسی سے اپنی ہتھیلیوں کو دیکھاجن پر پڑ ے چھالے پھٹ گئے تھے، ان سے میرا گوشت جھانک رہا تھا ، پسینے سے جل رہا تھا۔ سیمنٹ اور گارے کی مزدوری میں یہی سب سے بڑی خرابی ہے، آپ کتنا بھی چھپائیں ،آپ کے ہاتھ کے چھالے کبھی نہیں چھپتے۔
“خود کو دیکھو۔ فلسفے میں ماسٹرز کرکے پچھلے تین سال سے نوکری کے پیچھے جوتے چٹخا رہے ہو۔ کوئی فائدہ ہے تمہاری تعلیم کا؟”
میرے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں تھا۔
“میرے پھوپھی کے بیٹے اکرام کو دیکھو، مڈل پاس ہے، کپڑے کی دکان سے لاکھوں کما رہا ہے۔ میرا رشتہ مانگا تھا ،مگر اماں کو پتہ نہیں ڈگریوں میں کیا نظر آیا کہ تمہارے پلے باندھ دیا اور پچھلے دو سال سے تمہارے ساتھ بھوکے پیٹ اور ننگے پیر و بدن گھوم رہی ہوں”۔
اس نے گویا تلوار نیام سے باہر نکالی۔ مجھے اس وقت مشہور فلاسفر رائے ٹی بینٹ کی بات یاد آگئی۔ ‘ہمیشہ کسی کی مسکراہٹ کی وجہ بنو۔ ہمیشہ کسی کی محبت کا ذریعہ بنو اور لوگوں کی اچھائیوں پر یقین رکھو”۔
میں نے قمیض کی سائیڈ جیب تھپتھپائی،اور ہاتھ ڈال کر میٹھی “بوندی” نکالی ،روزینہ کو تھمانی چاہی، اس نے میرا ہاتھ جھٹک دیا۔ ادھ کھلے لفافے سے بوندی زمین پر بکھر گئی۔ میں نے اپنے ہاتھ کے چھالوں کو دوبارہ غور سے دیکھا، ان کی جلن میں مزید اضافہ ہو گیا تھا۔
اچانک ہم دونوں کے پیروں کو کسی غیرمرئی قوت نے جکڑ لیا۔ ہمارے سامنے ایک بلی نہایت غمگین حالت میں بیٹھی تھی۔ اس کے ساتھی کی لاش سڑک کنارے پڑی ہوئی تھی۔ کسی گاڑی نے اس کا سر کچل دیا تھا۔ ہم دونوں ایک ٹک بلی کو دیکھ رہے تھے جو خاموش آنسوؤں سے اپنے ساتھی کی موت پر نوحہ کناں تھی۔ روزینہ بلی کے سامنے بیٹھ گئی اور خاموش نظروں سے گویا بلی کیساتھ باتیں کرنے لگی۔ میں ایک ٹک روزینہ کو دیکھ رہا تھا۔ روزینہ نے اپنی نظریں بلی پر جمائی ہوئی تھیں۔ اچانک بلی نے اپنے ساتھی کی طرف دیکھا،گویا روزینہ کو بتانے کی کوشش کررہی تھی کہ “میں اب اکیلی رہ گئی ہوں”-
روزینہ کا جسم ہچکولے کھانے لگا۔ میں بالکل ساکت اپنی جگہ ایستادہ تھا۔ گاڑیاں ہمارے پاس سےگزر رہی تھیں۔ روزینہ اپنے منہ پر ہاتھ رکھے مسلسل بے آواز روئے جارہی تھی۔
اچانک وہ تیزی سے اپنی جگہ سے اٹھی۔ شرم و حیا کو بالائے طاق رکھ میرے گلے زور سے لگی۔ میرے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام کر، میری زخمی ہتھیلیاں بیخودی سے چومنے لگی،اور اپنی  آنکھوں سے لگانے لگی۔ اس کے آنسوؤں سے میرے زخمی چھالوں میں ایک سکون سا پھیلنے لگا۔
میں غور سے بلی کو دیکھنے لگا جس کی  آنکھوں میں جھلملاتے آنسو صاف نظر آرہے تھے۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply