اللہ کی تختی۔۔درخشاں صالح

جب سے جمعہ کا خطبہ سن کر آیا ہوں۔ دل کبھی اپنے مولویوں کی سادگی پر ہنسنے کو کر رہا اور کبھی ان کی کم عقلی پر ماتم کرنے کو۔  دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور یہ ابھی۔
اپنے دوست جو عمر میں مجھ سے بڑے ہیں جس کو پیار سے بابا کہتا ہوں  سے بات کی۔۔
بات سنو آج کچھ پریشان ہوں بات سمجھ نہیں آ رہی۔۔
یار بابا۔۔دیکھو نا ۔۔یہ مولوی کیسی باتیں کرتے ہیں۔  پھر آپ لوگ کہتے ہوکہ ان کا مذاق نہ اڑائیں تو اور کیا کریں۔
بابے۔۔ او بابے۔۔ یار آج مولوی کہہ رہا تھا کہ قیامت کے دن ہر انسان کے اعمال کی تختیاں اس کی گردن میں ڈالی ہوئی ہوں گی۔
تو!  بابے نے حیرانگی سے مجھے دیکھا ۔۔
یار بابے۔۔ بتاؤ نا یہ کیا بات ہوئی۔  اگر ایک آدمی کے 70 سال عمر ہوئی تو کتنی بڑی اور لمبی تختی اس کے گلے میں ہو گی؟ ۔
سوچو نا۔۔میری ہنسی نکل گئی،اور اگر کسی کی عمر سو دوسو سال ہوئی تو اس کی تختیاں تو ۔۔۔ ہاہاہا۔۔ یار حد ہے۔
بابے کا چہرہ سرخ ہو گیا۔۔
بولا ،تم مولوی پر ہنس رہے ہو یا اس تختی کی بات پر۔  ؟
جہاں تک تختی کی بات ہے تو یہ قرآن کی آیت ہے۔  تم آیت پر ہنس رہے ہو؟
میں  گھبرا گیا اور جلدی سے کانوں کو ہاتھ لگائے کہ مجھے پتہ نہیں  تھا   لیکن بابے یہ کوئی rational تو۔۔۔
بابے نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے روک دیا اور بولا سو فیصد Rational بھی ہے اور logical بھی۔۔ سنو۔۔
یہ آیت قرآن مجید کی سورہ اسراء کی 13 آیت ہے۔۔ کچھ یوں ارشاد ہے۔۔
وَ کُلَّ اِنۡسَانٍ اَلۡزَمۡنٰہُ طٰٓئِرَہٗ فِیۡ عُنُقِہٖ ؕ وَ نُخۡرِجُ لَہٗ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ کِتٰبًا یَّلۡقٰىہُ مَنۡشُوۡرًا۔۔۔
ترجمہ: اور ہم نے ہر آدمی کے نامۂ اعمال ( یعنی : اس کے انجام کی بھلائی یا برائی ) کو اس کی گردن میں لٹکا رکھا ہے ، اور ہم اس لکھی ہوئی چیز کو اس کے لیے قیامت کے دن نکال لیں گے ، جسے وہ کھلی ہوئی ( کتاب کی طرح ) پائے گا ۔
سنو بچہ جی۔۔ تم یہ سمجھ رہے ہو کہ لمبی سی تختی گلے میں ڈالی ہو گی۔۔
کیونکہ تم اللہ کی ٹیکنالوجی کو اپنی ٹیکنالوجی سے کمزور سمجھتے ہو۔۔ واقعی اس میں قصور ہمارے دینی طبقہ کا ہے کہ اس نے وقت کے لحاظ سے تراجم نہیں کئے۔۔
اور مدرسہ ابھی تک صدیوں پرانا علم ہی گھوٹ گھوٹ کر پلا رہا ہے۔۔ تم جانتے ہو تختی کو انگریزی میں کیا کہتے ہیں۔۔
میں نے حیرانگی میں انکار کیا کہ نہیں بابے نہیں جانتا !
تختی کو انگریزی میں
” ٹیبلٹ”
کہتے ہیں۔۔
کبھی گوگل کر لیا کرو۔۔
موسی علیہ السلام کو جو سلیٹ یا تختیاں دی گئی تھیں انھیں بھی ٹیبلٹ کہا جاتا ہے۔
سب سے قدیم جو تختیاں یا مٹی کی سلیٹ ملی ہیں وہ داستان گلگامیش کی ہیں جس پر میخوں کی طرح خطوط ہیں جسے میخی رسم الخط کہتے ہیں۔۔
یہ آج سے کوئی ساڑھے چار ہزار سال قدیم ہیں ۔۔
تو اگر گلے میں لٹکتی تختی کو I pad یا Samsung tab کہیں تو پھر تو جگہ بن جائے گی نا گلے میں ؟
اور اگر اس کے GB s کو بڑھا دیا جائے تو پورے ملک کا ڈیٹا آپ کی گردن میں لٹکایا جا سکتا ہے۔۔
لیکن یہ بات بھی اب پرانی ہو گئی ہے۔۔
اس آیت کا دوسرا حصہ اگر تم غور سے پڑھو تو اللہ کریم فرما رہے ہیں کہ
” ہم قیامت کے روز اس کیلئے ایک رجسٹر نکالیں گے ، جس کو وہ بالکل کھلا ہوا پائے گا”
سے مراد یہ ہے کہ جو تختی اس کے گلے میں ہو گی وہ Tab سے بھی چھوٹی ہو گی
اور اس سے اللہ کریم پرنٹ نکال کر ہارڈ کاپی سامنے رکھ دیں گے۔۔
اس کا مطلب ہوا کہ جیسے آج کل وہ ٹیڑھے میڑھے کالے کوڈ کے نشان جسے تم لوگ QR کوڈ کہتے ہو ،تم سب کے آفیشل ID cards میں ہوتا ہے،جسے تم لوگ دفتر یا کسی وزٹ پر جاتے ہوئے گلے میں پہنے رکھتے ہو ۔ اسے اسکین کر کے تمام ڈیٹا لیا جاسکتا ہے۔۔ اور آج کل تو پاکستانیوں کو ملک سے باہر جانے کے لئے چِپ والا شناختی کارڈ چاہیے ہوتا ہے۔۔ جس کے ایک جانب QR کوڈ ہوتا ہے۔۔آپ کا شناختی کارڈ اسکین ہو تو آپ کا تمام بنک اکاونٹس،تعلیم،خاندان،میڈیکل ہسٹری، اور نجانے کیا کیا نکل کر سامنے آجاتا ہے۔
میرا منہ کھلا رہ گیا ۔۔ اس نے میری تھوڑی کو اوپر کی جانب زور دیتے ہوئے منہ بند کرایا
اور اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے بولا۔۔
چلو تھوڑی دیر کو ہم ٹیبلٹ کو اصل تختی سمجھ لیں تو تمہارا 200 GB کا موبائل فون جس میں تمہاری ساری دونمبریاں، فراڈ، بنک اکاؤنٹ، رپورٹس، ایمیلز۔ فیملی ڈیٹیلز۔ تصاویر بلکہ نجانے کیسی کیسی تصاویر۔۔ ہوتی ہیں ۔۔
چلو کچھ دیر کو تم خود کو خدا کے سامنے سوچو۔۔ اور اپنا موبائل نکال کر خود اس کا محاسبہ کرو ۔۔ تم جنتی ہو گے یا جہنمی؟؟
میرے منہ سے آہستہ سے نکلا ” جہنمی” ۔۔۔اور آنکھیں نیچے خود بخود ہو گئیں۔۔
بابا آج rock کر رہا تھا۔۔ بولا۔
آج کل تمام کرائم سین میں سب سے پہلے جیو فنسنگ کی جاتی ہے۔ اور موبائل ڈیٹا لیا جاتا ہے۔۔ چاہے عورت ہو یا مرد۔۔
اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکو۔۔ صرف یہ موبائل ہی قبر میں فرشتوں نے کھول لیا جس میں زیادہ سے زیادہ گزشتہ 5 سالہ ڈیٹا ہو گا تو  ۔؟
اسی لئے تو سورہ اسراء کی 13 آیت سے اگلی آیت میں اللہ کریم نے ارشاد فرمایا۔
اِقۡرَاۡ کِتٰبَکَ ؕ کَفٰی بِنَفۡسِکَ الۡیَوۡمَ عَلَیۡکَ حَسِیۡبًا
ترجمہ: پڑھ اپنا نامہ اعمال ، آج اپنا حساب لگانے کے لیے تو خود ہی کافی ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سن بچہ ! جہاں تمام دنیا کا علم ختم ہو گا اور تمام دنیا کی آسائشیں ختم ہوں گی تمام دنیا کی عقل مکمل ہو گی روز جزا اس ے کہیں زیادہ ایڈوانس ہو گا۔۔
اس نے تو جو انسان کا مینول گائیڈ  بک انسان میں روز ازل سے لگا دی تھی۔۔ انسان اسے ابھی تک مکمل نہیں پڑھ سکا۔۔
بابے وہ کون سی گائیڈ بک ہے انسان کی۔۔؟؟
ارے بچہ۔۔تمہارا DNA اور کیا؟ ۔۔
میں  چونک پڑا واقعی۔۔ یہ تو بابے نے سچ کہا۔۔
بابا بولا۔۔
یار تم لوگ بھی عجیب پریشان اور متذبذب نسل ہو۔۔
ایک پچھلی صدی کے اندھے لولے لنگڑے گونگے سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ کو آنکھوں سے الفاظ بنانے والی مشین ایجاد کر کے دے سکتے ہو۔۔
جس میں وہ اپنی پلکیں اور آنکھوں کی پتلیاں ہلائے تو جملے بنیں۔۔
فیس بک تمہاری آنکھوں کی حرکت پر تمہارے صفحہ کی ایکٹیوٹی اور اشتہار امریکہ میں بیٹھے بیٹھے نوٹ کر لے
اور دوبارہ جب تم فیس بک کھولو تو وہ تمہارے من پسند پیجز اور ایڈورٹائزمنٹ کی طرف تمہیں راغب کرے۔
لیکن جب بات خدا کی آئے تو
لوح بھی بڑا سا بلیک بورڈ دکھے اور قلم سیاہی میں ڈبو ڈبو کر لکھنے والے۔۔
جس طرح تم اور میں جاندار ہیں اسی طرح لوح اور قلم بھی خدا کی مخلوق ہے اور رب اپنی قدرت سے انہیں فرمان جاری کرتا ہے۔۔
تمہاری تو آرٹیفشل انٹیلی جنس ہے جس سے تمہارے سائنسدان ڈر گئے ہیں کہ کہیں مستقبل میں یہ مصنوعی ذہانت خود سر نہ ہو جائے۔۔
جبکہ وہاں الہامی کام ہو رہا ہے۔ اور کوئی اس کے حکم کی رو گردانی نہیں کرتا۔۔
0101001 جانتے ہو نا کیا ہے؟
جی۔۔ یہ کمپیوٹر کی زبان ہے جس سے پروگرامنگ ہوتی ہے۔۔ شائد اسے بائنری کوڈ کہتے ہیں ۔۔
میں بولا
بابا بولا۔۔
تم خوش ہو کہ binary code ایک ایسا کوڈ بنا لیا ہے جس سے کمپیوٹر بن گئے اور انقلاب آگیا۔۔
لیکن خدا کے بارے میں تم سمجھتے ہو کہ وہ مولوی کی طرح بے بس ہو گیا ہے۔۔
اگر تم لوگ مانو یا سمجھو تو رب نے 14 سو سال پہلے اپنے محبوب کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان پاک سے اس کائنات کا بائنری کوڈ دے دیا ۔۔ مگر تم کسی چیز کو کھلے دماغ سے پرکھتے ہی نہیں ہو۔۔
ککک۔۔کیا کوڈ ہے کائنات کا؟؟ میں ھکلایا۔۔۔
بابے نہیں قہقہہ مارا۔۔۔
اور بولا
ل ا ال ہ ال ا ال ل ہ۔۔۔
یہ کیا ہوا بابے؟؟
میں نہ سمجھتے ہوئے بولا۔۔
بچہ یہ
“لا الہ الااللہ” ہے ۔۔
اور اس کا مختصر کوڈ ال ل ہ ہے
یعنی “اللہ”
اور
اس کوڈ کو unlock کرنے کی چابی ” م” ہے۔
اسی لئے کلمہ میں اللہ اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ساتھ لکھے گئے ہیں۔
یہ جو سارے بزرگ کلمہ کا ورد کراتے ہیں تو آپ کو اس ردھم میں شامل کرتے ہیں نا جس کا فیبرکس کلمہ نے بنا یا ہے۔
یہ “ل” قلم میں بھی ہے، لوح میں بھی، سدرہ المنتہی میں بھی۔۔
جبریل، میکائیل،اسرافیل اعزرائیل حتکہ ابلیس میں بھی ہے۔۔ اور “م” کی کیا بات ہے۔
عرش پر محمود، آسمان میں احمد،کائنات میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔۔
اسی لئے تو قیامت کے دن جب شفاعت” م” فرمائیں گے تو اللہ ارشاد فرمائیں گے جائیں اب جہنم سے اسے بھی نکال لائیں جس نے ایک مرتبہ بھی لا الہ الا اللہ کہا ہے۔۔
اسی لئے تو علامہ چیخ اٹھا۔۔۔
کی محمداﷺ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
میری آنکھیں بھیگ گئیں۔ بابے نے میرے سر پر ہاتھ رکھا تو دور عشاء کی آذان گونجی۔۔
بابے نے میری پیٹھ پر تھپکی دیتے ہوئے مسکرا کر کہا۔۔
کاکا اللہ کے بندوں کو اب نالیوں اور کثرت دانوں اور ٹوٹی پھوٹی جھونپڑیوں میں ڈھونڈنا چھوڑ دو۔۔اب وہاں یا مجزوب ہوتے ہیں یا ڈرامے باز۔۔
اب بابے کسی کمپنی کے CEOs, کسی فیکٹری کے مالک،کسی بڑی ورکشاپ کے چیف مکینک ہوتے ہیں۔۔
میں نے چونک کر اسے دیکھا۔۔
وہ مسکرایا۔۔
اور بولا
تم نے 1997 میں آنے والی ایک فلم The devil ‘s advocate دیکھی ہے؟؟
میں نے نفی میں سر ہلایا۔۔
بابا بولا ضرور دیکھنا۔۔
اگر ابلیس کو گورا آج کے دور کا ایک بڑا کامیاب بزنس مین دکھا سکتا ہے
جس کا کاروبار دنیا میں پھیلا ہوا ہے اور اب وہ سوٹ بوٹ پہن کر لوگوں کو اپنے جال میں پھنسا رہا ہے۔۔
تو اللہ کے بندے تو ہمیشہ ابلیس کی چال سے کئی میل آگے چل رہے ہوتے ہیں۔۔
تم جنہیں مولویوں ، میلے کچیلے کپڑوں میں تلاش کر رہے ہو وہ آج کل ٹوکسیڈو میں پھر رہے ہیں۔۔
یہ کہہ  کر بابے نے ایک قہقہ لگاتا اور اپنے جوگنگ ٹریک پر دوڑ پڑا۔۔
مجھ میں بنچ سے اٹھنے کی سکت بھی نہیں تھی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply