آج بیتی۔۔آکبانی ایم جے

آج بیتی آ خرِ کار اپنے انجام کو پہنچی وہ کمبخت ” مکھی”جانے کیسے گُھس بیٹھی ہمارے کمرے میں،ہم چونکہ سوتے وقت قمیض زیبِ تَن نہیں کرتے، بَس اُس کمبخت کی تو جیسے نِکل پڑی، لگی ہمارے جِسم پر اَٹھکِیلیاں کرنے، کبھی اِدھر بیٹھ رہی ہیں تو کبھی اُدھر، اور ہمیں   تڑپائے جارہی تھی، وہ سالا ایک مَچھر تو سُناتھا مگر اِس اللہ ماری نے ہمیں بےکل کردیا، اَب یہ تو بَھلا ہم سے ہو نہیں سکتا تھا کمرے سے باہر رکھے اِسپرے کواُٹھا لاتے، ہمیں نفسانفسی میں مُبتلا کئے رکھا، کبھی پیشانی، کبھی گال پر اور کَبھی کُھلی کھال پر کُھل کھیل رہی تھیں، ہم بیزار اور اُسے اَٹھکھیلیا ں سوجھی تھیں، دیکھو تو سالی اَب ناک پَر آبیٹھی، دوسری بار ناک پَر بیٹھنے میں پرواز کچھ نیچی رہ گئی تو نَتھنے میں گُھس کر جو پَر پَھڑپھڑا کر بھاگی ہم اپنی ناک کُھجا کُجھا کر اُسے سُرخ کر بیٹھے اور غُصّے میں آکر لیٹے لیٹے ہی ساتھ رکھی چادر سے جھاڑن سی بنائی اور تاک لگاکر بیٹھ گئے مگر جب وہ دو تین منٹ تک نہیں آئی تو ہم نے سوچا کہ یہ مکھیاں بھی بیویوں طرح چَتُور و ہوشیار اور ناک میں دَم کیئے رکھتی ہیں کیا؟

Advertisements
julia rana solicitors london

ابھی اِتنا ہی سوچا تھا کہ دُشمنِ جاں پھر آن بیٹھی ہم نے چادر سے بنائے جھاڑن سے اُس پر حملہ آور  کیا  تو وہ جُلمی تو صاف بَچ نکلی مگر جھاڑن کے وار سے اُس کا کونا ہماری ایک آنکھ میں ایسا لگا کہ ہم یَک بارگی تڑپ اُٹھے اَبھی ہم اپنی آنکھ کو مَسل رہے تھے کہ وہ  پیشانی پر آبیٹھی، ہم تُرنت جھاڑن سے پیشانی پر حملہ آور ہوئے مگر پشیمانی اُٹھانی پڑی، اَب ہم نے سیدھے ہاتھ میں جھاڑن پکڑی اور بایاں ہاتھ چہرے پر اِس طرح پھیرتے رہے جیسے کوئی مونچھوں کی اَدھ جُھکی پونچھوں کو اُچکا کر ٹھکانے لگا رہا ہو ۔اَب اُس کے ہمارے چہرے پر آبیٹھنے کے امکانات کو تو ہم نے اپنی چالاکی کو بَروئے  کار لاتے ہوئے کردیا ختم اور نِگاہیں جمالیں اپنے اَدھ کُھلے تَن اور بِستر پر۔ ۔۔ پڑ گئے گھات اور تکیے پر ٹیک لگا کر، آئی دُشمنِ جاں آ بیٹھیں ہمارے تَکیے کے بائیں نُکّڑ پڑ۔ ۔ سَٹھاک ہم نے وار کیا اُس ناہنجار نے پرواز بھری، اَب کےہمارے دائیں جانب چادر پَر ہم سے منہ پھیر کر پَدھاریں چَھپاک۔۔۔۔ ہم نے وار کیا وہ پِھر پُھر۔۔۔ مگر ہمیں یقین تھا کہ جھاڑن اُس کے مُختصر و  منحنی  جِسم پر کسی جگہ ٹکرایا ضرور ہے، پھر پانچ چھ منٹ بیتابی میں گزرے اور پھر ہم نے چادر، ایک تکیے اور اور اور دوسرے تکیے کو پَلٹا تو رانڈ ماہیء بے آب کی تَریوں تَڑ پھڑیاں کھارہی تھی،ہم  نے فوراً  ایک اور وار کردیا اور یوں ظالم کا کام تمام کردیا۔۔۔ وہ ایک شعر کا ایک مصرع ہے نا کہ “ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مِٹ جاتا ہے” ہم نے فاتحانہ انداز میں اُس کو ایک کاغذ کے ٹکڑے پر اُٹھایا اور اپنے ٹیریس میں جہاں چِیونٹیاں تلاشِ رزق میں اِدھر اُدھر پھر رہی تھیں، اُس کَلموئی کے مُردہ جِسم کو اُن کے درمیان رکھ کر، واپس اپنے کمرے آئے اور ابھی بِستر پر دراز ہوئے ہی تھے کہ ایک اور۔۔۔۔ ہم  نے بِستر اُچھل کر کمرے میں سے باہر آکر وہ ہائے ہوئے مچائی بے غم سمیت بیٹا، بہو اور دو لِٹل اسٹار مگرپڑھائی فائیو اِسٹار سِہمے سہمے   ہمارے اِردگرد جمع ہوگئے ِاور پوچھنے لگے ہُوا کیا ہے؟ ہم نے انتہائی غصے کی حالت میں چِلّا  کر کہا  کہ کمرے میں روزانہ صبح، دوپہر، سِہ پِہر اور رات کو   اِسپرے کیاجائے، بے غم سَرک کر ہمارے سامنے آن کَھلوتی اور پیشانی پر بَلکہ میاں جائے ہِل والے انداز میں گویا ہوئیں کہ ایسا نہ کریں کہ ہر ایک گھنٹے کے بعد اِسپرے کیا جائے، اِس پر لڑکھڑاتی زبان میں مِمیائے۔۔ ۔ وہ ۔ ہمارا مطلب ہے۔  کچھ یوں تھا کہ کمرے میں آپ کو مَچھر تو نہیں نا تنگ کرتے، اِس لئے ہم پریشان۔۔ ۔ بَس اتنا کہہ سکے اور جَھٹ سے عالمِ پریشانی کے اِختتام کے بعدعالمِ پشیمانی میں منہ پر چادر رکھ کر سوگئے،جب جاگے منہ سے چادر ہٹائی  تو مکھی گال پر آبیٹھی ہم کروٹ بدل چہرہ ڈھانپ لیٹ گئے ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply