خنساء سعید کی تحاریر

پہلے کنویں سے کتا نکا لیے /خنساء سعید

ایک ریڑھی والے نے شب و روز محنت کر کے اپنی کمائی اپنے جوان بیٹے کی پڑھائی پر لگا دی ۔بیٹا پڑھ لکھ کر ڈگری یافتہ ہوا ، نوکری ملی، اچھی تنخواہ لگی ، نوکری کے پہلے دن نوجوان لڑکا←  مزید پڑھیے

دو انتہاؤں کے درمیان کھڑی تیسری عورت / خنساء سعید

نسلِ انسانی کی تخلیق کا عمل شروع ہوتا ہے ۔انسانیت کی بنیادیں ڈالی جا رہی ہیں ۔جہان ِرنگ و بو معرض ِ وجود میں آنے کو ہے ۔خدا شناسی کا عمل شروع ہے ۔ ایک طرف آدم علیہ السلام کی←  مزید پڑھیے

لمبی ناک والے /خنساء سعید

ایک پینوکیو Pinocchio تھا ننھا پینوکیو۔ بچوں کا پسندیدہ دلچسپ کردار جس کو بچے بڑے شوق سے دیکھا کرتے تھے اور وجہ تھی اُس کی لمبی ناک۔ وہ جب بھی جھوٹ بولتا تو اُس کی ناک لمبی ہو جاتی۔ پینوکیو←  مزید پڑھیے

بوڑھے برگد کی آشفتہ حالی /خنساء سعید

اُردو کے طالب علموں کا ایک سچا افسانہ سردیوں کی خوشگوار دھوپ اپنی نرم گرم کرنیں ماں کی محبت کی طرح بلا معاوضہ ہر ایک کو دان کر رہی تھی ۔ ہر وہ چیز جس پر یہ مہربان کرنیں پڑتیں←  مزید پڑھیے

بین المذاہب ہم آہنگی اور قرآن سوزی /خنساء سعید

اُنیسویں صدی کے ایک معروف جرمن شاعر اور ڈرامہ نگار ہنری ہائین Heinrich Heine نے آج سے سو سال پہلے اپنی ایک نظم میں کتابوں کو جلانے اور لوگوں کے مذہبی احساسات کو مجروح کرنے کے بارے میں لکھا تھا←  مزید پڑھیے

اے ماں ،اے میری مہربان ماں /خنساء سعید

رات کے اُس پہر سرما کی برفانی ہوا درختوں سے سیٹیاں بجاتی گزر رہی تھی، خزاں دیدہ درختوں کے پتے شاخوں سے جدا ہو کے رات کے یخ بستہ سناٹے میں اُڑتے پھر رہے تھے۔ دور کہیں بہت دور جھاڑیوں←  مزید پڑھیے

احساس /خنساء سعید

ناشتہ کرنے کے بعد وہ معمول کے مطابق اپنا محل نما عالی شان بنگلہ چھوڑ کر کسی ناراض بچے کی طرح بالکونی میں رکھی کرسی پر آ کربیٹھ جاتا اور سگریٹ سلگانے لگتا ۔اپنی مہجوری ،مفارقت ،اکلاپے،ہجر ،خوف کو سگریٹ←  مزید پڑھیے

ہمت کا استعارہ /خنساء سعید

زنداں میں اوندھے منہ پڑی ایک آزاد منش چڑیا درد کا استعارہ بنی ہوئی تھی ۔ اُس کے تندرست و توانا پروں میں طاقت پرواز تو تھی مگر فضائیں اُس کے مخالف کر دی گئی تھیں۔ایک لمبی اُڑان بھرنے کی←  مزید پڑھیے

یہ کیا کر رہے ہیں؟/ خنساء سعید

وہ بہت چھوٹا تھا جب اُس نے ایک خواب دیکھا تھا ، اُس ایک خواب کو پورا کرنے کے لیے اُس نے دن رات محنت کرنا شروع کر دی ، وہ جیسے جیسے بڑا ہوتا گیا ا ُس نے اپنے←  مزید پڑھیے

دائرہ/خنسا سعید

اُس کی بے رنگ زندگی میں کوئی رنگینیاں باقی نہیں بچی تھیں. زندگی اُس سے روٹھ کر ایک کونے میں دبکی بیٹھی ہوئی تھی. وہ اُس کو منانے کی کوشش کرتا مگر بے سود۔۔ اب تو اُس کے خواب بھی←  مزید پڑھیے

دو انتہاؤ ں کے درمیان کھڑی تیسری عورت/خنساء سعید

نسل ِ انسانی کی تخلیق کا عمل شروع ہوتا ہے ۔انسانیت کی بنیادیں ڈالی جا رہی ہیں ۔جہانِ رنگ و بو معرض ِ وجود میں آنے کو ہے ۔خدا شناسی کا عمل شروع ہے ۔ ایک طرف آدم علیہ السلام←  مزید پڑھیے

اژدہام/خنسا ء سعید

اُس نے جب بولنا شروع کیا تو ہکلانے لگی، ماں باپ نے بہت علاج کرائے مگر وہ پھر مکمل طور پر صحت یاب نا ہو سکی ،پہلے جو وہ ایک جملے کے ہر لفظ پر ہکلاتی تھی اب ہر تیسرے←  مزید پڑھیے

آزادی کا کتبہ /خنساء سعید

آج وادی میں لگے کرفیو کا پچیسواں روز تھا، چودھویں کا چاند اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا، اپنی ٹھنڈی میٹھی روشنی کی مہربان کرنیں ہر اندھیر کوٹھڑی کے قیدی کو دان کر رہا تھا۔کرفیو نے روشنی←  مزید پڑھیے

روٹی کا تصادم/خنساء سعید

” پاپڑ کرارے” ” لے لو پاپڑ کرارے ” رگوں میں خون منجمد کرنے والی سردی اور دھند میں وہ پاپڑوں والا ٹوکرا کندھے پر رکھ کر ہر گلی ہر چوک چوراہے پر آوازیں لگا رہا تھا۔ تن پر ایک←  مزید پڑھیے

ہم لفظوں کے اثر کا معجزہ ہیں /خنساء سعید

برسات کے بعد جنگل کا موسم بہت خوبصورت تھا ۔ہر طرف میٹھی میٹھی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی ،ہرنوں کے ایک گروہ نے فیصلہ کیا کہ کیوں نا جنگل کی سیر کی جائے ۔ساری دوستیں اکٹھی ہو کر مسکراتی کھکھلاتی←  مزید پڑھیے

بوڑھا فنکار /خنساء سعید

وہ پاؤں گھسیٹتا ہوا ہسپتال کے اندر داخل ہوا تو پرچی لینے والوں کی لمبی لائن دیکھ کر گھبرا گیا ،اُس کی کانپتی ہوئی نحیف و ناتواں ٹانگیں مزید کانپنے لگیں ۔مگر وہ ہمت کر کے لائن میں لگ گیا←  مزید پڑھیے

 ٹپڑی واس/خنساء سعید (مقابلہ افسانہ نگاری)

شمیم تم یہ غبارے بھرو، میں ذرا رفیق کے سٹور سے اور غبارے لاتا ہوں ۔” مجھے لگ رہا جیسے آج غبارے کم ہیں۔“ یہ کہہ کر محمود غبارے لینے چلا گیا، سٹور سڑک کے دوسرے پار تھا، اُس نے←  مزید پڑھیے

فلسفہ اور فرانسیسی فلسفی ہنری برگساں /خنساء سعید

فلسفہ کیا ہے ؟اس سوال کا جواب یا یوں کہیں کہ اس گتھی کو بہت سارے محقیقن ،ناقدین اور خود فلسفیوں نے بھی سلجھانے کی کوشش کی ہے مگر یہ گتھی جتنی سلجھتی ہے انسان کو اُس سے زیادہ الجھنوں←  مزید پڑھیے

خاموش نعرے۔۔خنساء سعید

گرمیوں کے طویل اور تھکا دینے والے دن تھے، وہ آج  سویرے ہی گھر سے نکل پڑا کیونکہ آج اُس کو اپنے کام نپٹا کر دوستوں کی طرف سے دی گئی دعوت پر جانا تھا۔ اس وقت صبح کے آٹھ←  مزید پڑھیے

قرطاس کی نصیحت۔۔خنساء سعید

رات کے پچھلے پہر میں یک لخت آسمان پر روشنی کے گولوں کو آنکھ جھپکے بغیر، دیکھتی ہی جا رہی تھی ۔۔ میرے چاروں اطراف ہُو کا عالم تھا، بلکہ یوں کہوں کہ ایک عالم لاہوت تھا تو بے جا←  مزید پڑھیے