• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • سفر نامہ
  • /
  • سفر نامہ:عراق اشک بار ہیں ہم/کل یہ صدام کا بغداد تھا آج امریکیوں کی کالونی ہے(قسط12)۔۔۔سلمیٰ اعوان

سفر نامہ:عراق اشک بار ہیں ہم/کل یہ صدام کا بغداد تھا آج امریکیوں کی کالونی ہے(قسط12)۔۔۔سلمیٰ اعوان

کچھ نام عجیب سی رومانیت،ایک پرفُسوں سا سحر اور بے نام سی اپنایت کی خوشبو اپنے اندر لئیے ہوئے ہوتے ہیں۔منصور نام بھی کچھ ایسا ہی ہے۔میں توسمجھتی تھی کہ میں ہی اس کے عشق میں مبتلا ہوں۔مگر نہیں جی بہت ساری اس کی محبت میں گرفتار ہیں۔زاہدہ حنا نے ایک بار باتوں کے دوران اپنی حد درجہ پسندیدگی کا اظہار کیا تو میں نے ہنستے ہوئے کہا۔
”یہ تم جیسی انٹیلکچوئل اگر اس کی اسیر ہے تو پھر ہم جیسے جاہل تو قابل معافی ہیں۔“
تو اس وقت جب بغداد صبح نو بجے کی دھوپ میں ہی جلنا شروع ہوگیا تھا۔ہم کاظمیہ سے شاہراہ چودہ جولائی پر چڑھے۔الفارس چوک سے گزرے۔بہت مانوس سے اپنایت والے منظرتھے۔صفائی ستھرائی میں لاپروائی کا عنصر،شاپروں کے خالی پیکر میرے ملک کی طرح شتر بے مہارکی طرح یہاں وہاں اڑتے پھرتے حفظان صحت کے اصولوں کی زبوں حالی کا رونا روتے تھے۔
افلاق نے مجھے المتنابی کا علاقہ دکھاتے ہوئے سڑکوں کے دو موڑ کاٹے اور شاہراہ منصور پر گاڑی ڈال دی۔ہلال احمر کی عمارت سے آگے چوک میں جعفر منصور کی یادگار ہے۔
منصور سکوائر میں عرب شہسوار کا مجسمہ جو گھوڑے پر سوار اُسے اڑائے لئیے جارہا تھا۔عربوں کی دلیری،شجاعت،حُسن پرستی اور کریم النفنینی جیسے جذبات و احساسات چہرے اور وجود کے ہر حصّے سے ہویدا تھے۔میری آنکھوں میں شوق و اشتیاق کی دنیا نے انگڑائی لی تھی۔
میران ال سیدن کی فنکاری کی داد دی تھی۔عربی روایات اور عربی خصوصیات کا حامل گھوڑا اور گھڑسوار۔ کیا بات تھی؟
عرب کواٹر منصور میں منصور کا عربی وضع قطع لئیے دھڑ کے بغیرمجسمہ اُس ٹاور پر رکھا ہوا ہے جو راؤنڈ سٹی وال کے ٹاورز کی خوشگوار یادوں کو تازہ رکھنے کیلئے بنایا گیا ہے۔
ٹاور طغرئی اور نقشی کام سے سجا ہوا ہے۔افلاق سے ہی پتہ چلا تھا کہ یہ مورش سٹائل ہے۔یہ ابھی دو سال پہلے بغداد میونسپلٹی کلچر کے ٹیکنیکل ماہرین کی مدد سے اِس منصور سکوائر میں دوبارہ نصب کیا گیا ہے۔پہلا والا ماڈرن آرٹ کے بانی ال راحلAl-Rahhal کا شاہکار جسے تخریب کاروں نے شدید نقصان پہنچایا تھا۔
آرٹ، لڑیچر اور سائنس میں دلچسپی لینے والا روشن خیال، بلندی والی ناک اور ذہین آنکھوں والا منصور جس نے شہر بنایا تو کہیں سوچا تھا کہ یہ اگر عروج کے آخری پوڈے پر بیٹھے گاتو ایک دن زوال کے پاتال میں بھی گھرے گااور سامان عبرت ہوگا۔
اس کی آنے والی نسلوں میں لوگ لسانی اور مسلکی گروہوں میں بٹ کر اُس اخلاقیات سے محروم ہوجائیں گے جہاں اپنے اسلاف سے محبت،لگاؤ اور احترام کے جذبات ان چیزوں کی حفاظت کرنا سکھاتے ہیں جن کا کسی نہ کسی رنگ میں تعلق اُن سے جڑا ہوتا ہے۔
منصور سٹی کا شاپنگ مال بھی دیکھنے کی چیز تھا۔منصور عراقی تہذیب و ثقافت کا قدیمی مرکز،کبھی یہ ڈپلومیٹ،غیرملکیوں کی رہائش گاہوں اور ملکی اور غیر ملکی پیشہ وروں کا گڑھ ہوتا تھا۔مگر اب بموں کے دھماکوں، kid napping اور تشد د پسندوں کی کاروائیوں نے اِسے بہت غیر محفوظ بنا دیا ہے۔
”ہائے ری مےّا وقت کی یہ نئی چیرہ دستیاں۔“
تو میں اس وقت وہیں کھڑی تھی جہاں بغداد کی تاریخ نے جنم لیا۔ جہاں اُس بہادر،جیالے، ستاروں پر کمندیں ڈالنے کی خواہش رکھنے والے، منفردسوچ اور خیالات کے حامل،میسوپوٹیمیا کے تہذیبی ورثے سے شناسافرات، دجلہ کی زرخیزی اور انکی اہمیت سے آگاہ،نئے رنگوں اور نئے رحجانات کے ساتھ تاریخ میں بھی کوئی کھڑاک کرنے کا شوقین عباسی خلیفہ جعفر منصور نیا پایہء تخت چاہتا تھا۔یہ تھوڑی کہ دارلخلافہ نہیں تھا۔
تھا
دمشق جیسا خوبصورت شہر تھا۔ لیکن اُس پر چھاپ امویوں کی تھی امویوں اور عباسیوں کا اینٹ کتے والا بیر۔مرو اور زاب کے دونوں معرکوں میں امویوں کے سارے بل کَس نکل گئے تھے۔مروان بن محمد کو آخری اموی حکمران کے طورپر تاریخ میں درج کروانے کے بعد اُن کے برتے ہوئے محلوں میں گُھس جانا تو فاتح خلیفہ کیلئے ہتک کی بات تھی نا۔
اب مصاحبوں سے صلاح مشورے اور گھوڑوں کی ننگی پیٹھوں پر بیٹھ کر جگہوں کے معائنے اور بحث و تکرار کے مرحلے ضروری ٹہرے تھے۔حضرت علی ؓ کے دور خلافت میں کوفہ بھی پایہ تخت کی فہرست میں نام درج کروا چکا تھا۔کِسی علی ابن طالب کے چاہنے والے نے کوفے کو تجویز کردیا۔ سبھی لٹھ لے کر پیچھے پڑ گئے۔
”اللہ بچائے ان کوفیوں سے تو۔ایسے خبیث،بدطینت اور دوغلے۔چوری کیلئے چوروں کو بلائیں اور کوتوالوں کوبھی آواز دے ڈالیں کہ”ارے آؤ بھاگو، دوڑو ہم تو لُٹ گئے۔“
یوں قدیم میسوپوٹیمیا Mesopotamiaقوموں کے پایہ تخت بھی تھے۔غوروخوض اُن پر بھی ہوا۔
بابل(Babylon)دجلہ و فرات دونوں کے پانیوں سے فیض اٹھاتا تھا۔کِسی نے رائے دی۔
دوسرے نے پل نہیں لگایااور بات کے گلے پر اعتراض کی تیز دھار والی چھری پھیر دی۔
ُُ”اے لعنت بھیجو۔مُردے کو مکھن کی مالش والی بات ہوگی۔کھنڈروں پر جتنے مرضی محل کھڑے کردیں گے بیچ میں سے کہیں سامیوں کے نشان نکلیں گے۔کہیں سمیری بولیں گے۔
پھر اشواریوں Assyriaaکا پایہ تخت آشور(Ashur)زیر بحث آیا۔
”ارے بیبا کِسی نے ناک بھوں چڑھایا۔شمال مشرق میں ذرا سا چھینکے گا بھی توخراسان بھا گا آئے گا۔“
نینوا کا کسی مصاحب نے ذکر کیا۔یہ بھی ردّ ہوا۔
”لو شاہ پلسیر سوم Pileser III کی جھوٹ کھانے ہم سادات ہی رہ گئے ہیں۔“
سکندر اعظم کے جانشین سیلوکس کے سلوکیا Seleuciaپر کُھل کر بحث ہوئی۔یہاں ایک نہیں تین چار نے نتھنے پھیلائے۔ آنکھیں چڑھاہیں اور غصے سے بولے۔
”توبہ کرو۔کانوں کو ہاتھ لگاؤ۔سکندر اعظم اور سیلوکس دونوں کو کھا گئے۔نرا منحوس مارا۔“
بس تو دجلہ ہی معتبر ٹھہراتھااور بغداد بسانے کا آغاز اِس کی مغربی جانب سے ہوا۔تاریخی حوالے سے زمانہ ۵۴۱ ہجری کاتھا۔ اس کا بنیادی پتھر672 AD میں منصور نے اپنے ہاتھوں سے رکھتے ہوئے قرآن مجید کی آیت پڑھی تھی۔
”اے خدا زمین تیری ہے اور تو جسے چاہتا ہے دیتا ہے۔“
پھر اِس کیلئے دعا گو ہوا۔
سارے تعمیراتی اور ریاضی کے ماہرین اکھٹے کرلئیے اور حکم دیا کہ عمارتیں علم ہندسہ کے مطابق تعمیر ہوں۔روایت ہے کہ امام اعظم ابوحنیفہ کو نگران اعلیٰ مقرر کیا گیا۔امام اعظم ہی وہ ہستی تھے کہ جنہوں نے جگہ کو گزوں سے پیمائش کرکے خشت شماری کا طریقہ رائج کیا۔
گول دائروں کی صورت میں اِس کی تعمیر ہوئی۔یہ تعمیر کا نیا رنگ تھا۔یہ ایک نیا اور انوکھا انداز تعمیر تھا۔
جب بیٹا مہدی خراسان سے جنگی مہم میں کامیاب لوٹا۔باپ نے دجلے کے مشرقی کنارے پراُسے محل کیلئے جگہ دیتے ہوئے Divide and ruleکی پالیسی سمجھائی اور حکمرانی کے زریں اصولوں پر روشنی ڈالی۔
”محل بناؤ۔فوجی بیرکیں تعمیر کرواؤ۔عجمی (ایرانی) فوج اور لوگوں کو اُدھر بساؤ۔
اگر مدینتہ المنصور کرخKarakhکے عربی شورش یا بغاوت کریں تو رصافہRusafaکے عجمیوں (ایرانیوں) سے پٹواؤ۔ اگر رصافہ Rusafaکے عجمیوں کو امن و آتشی کی گرانی لڑنے لگے تو کرخ Karakhکے عربوں سے مرمت کرواؤ۔سدا سکھی رہو گے۔
بہت قلیل عرصہ میں یہ جگہ جو صرف ایک گاؤں تھاایک عظیم الشان شہر میں تبدیل ہوتا گیا۔عالیشان محلات،باغات،پارکوں سے وہ صورت گری ہوئی کہ جو اس وقت کی عظیم اسلامی ریاست جو ہندوستان اور سارے بحراوقیانوس کے کناروں تک پھیلی ہوئی تھی کیلئے باعث مثال اور باعث رشک تھا۔
یہ منصور کا بغداد،عباسیوں کا بغداد،ہارون الرشید کا بغداد،یہ جسے مشرق کا وینس کہتے تھے،یہ جس کے مقدر میں بار بار اُجڑنا اور لٹنا لکھا گیا۔
ہارون الرشید کے زمانے میں مشرقی کنارے پر بھی پھیلنا شروع ہوا اور اپنی معراج کو پہنچا۔
کل یہ صدام کا بغداد تھا آج یہ امریکیوں کی کالونی ہے۔
کتنی لمبی ہوک تھی جو میرے دل سے نکل کر میری آنکھوں کو بھگوگئی تھی۔
یہیں الکندیAl-Kindiدیکھاعرب دنیا کا عظیم فلاسفر،ریاضی دان،طبیب اور موسیقار۔ابویوسف اسحاق الکندی جنکی تین سو کتابیں کچھ ترجموں کی صورت اور بقیہ طبع زاد۔ان کے تخلیقی کام نے عرب افکارپر گہرے اثرات مرتب کئیے۔
یہ کیسے روشن خیال اور عالی دماغ لوگ تھے جوموسیقی سے محبت کرتے تھے اور فن کی اس صنف سے ان کی محبت اور وابستگی سے ان کے مذہب پر چوٹ نہیں لگتی تھی۔عراقی فنکار محمد الحسینی کایہ شاہکار۔میں نے بھی اُس عظیم شخصیت ابو یوسُف اسحاق الکندی کو خراج پیش کیا۔سچ تو یہ ہے میری آنکھیں بھیگ رہی تھیں۔
عرب شاعروں میں دسویں صدی کے وسط کا وہ عظیم ترین شاعر المتنابی۔کوفے میں پیدا ہونے والا صحرا کا باسی۔ ابوریحان گیلانی کے فن کا پارہ۔
طب کی دنیا کا وہ بہت بڑا نام، 230کتابوں کا مصنف محمد زکریا الرازی۔جس کی شہرہ آفاق کتاب (Comprehensive medicine Al-Hawi)دنیا بھر میں مقبول رہی۔
ایک عظیم لسانیات کا ماہر،حرف و نحو گرامر کا ماہر، پہلی عربی ڈکشنری بنانے والا جس نے Melodyاور rhythmپر بہت لکھا اور شاندار لکھا۔
ال فراہیلیAl-Faraheliعربی شعروں کو لکھنے کا سٹائل دینے والا۔
یہ اگر پیغمبروں کی سرزمین تھی تو عرب دنیا اپنی قابل فخر سپوتوں کے ساتھ یہاں موجود تھی۔اب ایسے میں دیکھتی کہ سُورج بہت گرم ہے۔اور مجھے اتنا چلنے سے تھکن ہوگی اور میرے گوڈے ذرا بیمار ہیں۔نہیں یہاں میرے ماضی کا جو ہر قابل،میرے گزرے کل کا شاندار قابل فخر ورثہ جس انداز میں سجا ہوا تھامجھے اُسے دیکھنے دیوانہ وار بھاگنا ہی بھاگنا تھا۔اور میں بھاگی۔میرا آج کا دامن خالی تھا۔تو اگر میرا دل پھوٹ پھوٹ کر رونے کو چاہتا تھاتو کیا غلط تھا۔میرے دل میں درد تھاتو بجا تھا۔میرے ہونٹوں پر اگر آہیں تھیں تو وہ بھی درست تھیں۔
قریب ہی کرخKarkhتھا۔عباسی عہد کا تجارتی مرکز۔اس کی بنیاد رکھنے والا بھی خلیفہ جعفر منصور ہی تھا۔
جہاں کشادگی تھی اور گاڑی آسانی سے جاسکتی تھی وہاں تک افلاق نے مجھے اُترنے نہیں دیا۔
اور میں دیکھتی تھی یہ تو ماٹھے لوگوں کا علاقہ تھا۔کہیں اگر گلیاں ذراکشادہ تھیں تو وہیں دو بالشت چوڑی گلیوں کی بھی کمی نہ تھی۔دروازوں کے آگے پھٹے پُرانے پردے لٹکتے تھے۔مٹیالے ایک منزلہ دومنزلہ گھر۔خستگی اور کہنگی میں لپٹے ہوئے۔بازار بھی کچھ ایسے ہی تھے۔جہاں چوڑی سڑکیں تھیں وہاں آدھی دوکان سڑک کے کناروں پر بکھری ہوئی تھی۔کہیں گیس کے چولہوں پر قہوہ پکتا تھا اور کھلونے جیسے شیشوں کے گلاسوں میں لوگ قہوہ پیتے تھے۔کہیں صفائی ستھرائی کا دھیان نہیں تھا۔کاغذ اور پلاسٹک کے شاپر اُڑتے پھرتے تھے۔ایک دوکان میں شیشہ پیتے لوگوں کی بھیڑ تھی۔خریداری کرتے زیادہ لوگ تو مجھے ایرانی نظر آرہے تھے۔افلاق نے میری طرف دیکھتے ہوئے پُوچھا تھا”کہ مجھے کچھ خریدنا تو نہیں۔“
”افلاق شاپنگ کبھی میرا کریز نہیں رہا۔ہاں یہ کرخ بلاشبہ خوش قسمت ہے کہ اپنے ماضی کی پہچان کے ساتھ زندہ تو ہے۔“
”یہ ماضی میں باہر سے آنے والے سوداگروں اور امراء کا بازار تھا۔اب غریبوں کا بن گیا ہے کہ اِن کچی نیم پکی گلیوں میں بڑے لوگوں کے آنے سے اُن کا دم گھٹتا ہے۔“
”افلاق پرانی چیزیں ہمیشہ سے غریبوں کا مقدر ہوتی ہیں۔“
مجھے قدیم لاہور کا دلی دروازہ،کشمیری بازار،رنگ محل،گمٹی بازار،پانی والا تالاب یاد آئے تھے۔غریبوں کے بازار اور محلّے۔
پہلے منڈی اور بازار سب مدینتہ المنصور میں تھے۔
افلاق کرخ کو کاروباری مرکز بنانے سے متعلق دلچسپ کہانی سُناتا ہے۔
جعفر منصور کے نئے پایہ تخت کا بڑا شہرہ تھا۔ہمسائے ملکوں کے ہوں،چاہے گھروں کے۔سدا ٹوہ لینے والے،خوشحالی سے جلنے سڑنے والے،بظاہر میٹھے پر اندرسے چھریاں چلانے اور جڑیں کاٹنے کیلئے مشہور۔اُس وقت بغداد کی مسلم دنیا کی مدّمقابل تو صرف اُندلس ہی تھا۔پر کلمہ گو امویوں اور عباسیوں کا اٹ کتے والا بیر مشہور تھا۔
شہنشاہ روم بڑا نک چڑھا اور خود سر سا حکمران۔خراج تو دیتا تھا پرحال تو وہ والا تھا کہ بکری دودھ تو دے گی پر مینگنیں ڈال کر۔جب موقع ملتا سرکشی پر اُتر آتا۔پھر تواضع کرواتا اور سیدھا ہوتا۔
مغربی یورپ کے حکمران جزیروں میں سمٹے ٹکڑوں میں بٹے سبھی اس عظیم الشان مملکت جس کی حدیں ہندوستان سے بحراوقیانوس کے کناروں تک پھیلی ہوئی تھیں کے فرمانروا منصورکے کارنامے کو دیکھنے اور اندر خانے کی خبریں لینے باری باری آئے تھے۔بادشاہ بھی نرگیست کے مارے ہوئے کہ ہردم چاہیں تعریفوں کے پُل بندھیں اور قصیدے گائے جائیں۔
اِس کارنامے پر تو بڑے گڈے بندھے تھے۔واہ واہ اور بلّے بلّے ہوئی تھی۔پر جب قسطنطنیہ کا سفیر آیا۔حسب معمول اُسے بھی شہر دکھانے کا حکم ہوا۔اُس نے شہر دیکھا۔بلاشبہ تعمیر کا ایک نیا رنگ لئیے ہوئے تھا۔تین دائروں کی صورت میں جو تین دیواروں کی صورت چکر کاٹتی تھیں۔چار دروازے،بابِ بصرہ،بابِ کوفہ،بابِ شام اور بابِ خراسان۔
بیرونی دیوار کے گرد خندق تھی۔جس میں پانی بہتا تھا۔پُل پر کھڑے ہوکر چند لمہوں کیلئے اُس نے منظر کی رعنائی دیکھی اور خوب کہا۔دروازوں کے پٹ ٹنوں کے حساب سے بھاری اور ان کی بلندی دیکھنے کیلئے گردن پُشت کی جانب آخری حد تک لیجانی پڑتی تھی۔
بیرونی اور درمیانی دیواروں کے ہر دروازے پر بادشاہ کے بیٹھنے کیلئے بالا خانے۔تینوں دیواروں کے درمیان سڑکیں،چوک،گلی کوچے،مکانات،تجارتی مرکز اور منڈی دیکھی۔بھانت بھانت کا تاجر سوداگر اور خریداروں کے ڈھیر نظر آئے۔کہیں اگر بدخشاں کے لعل چمکتے تھے تو وہیں یمن کے زمرد وموتی بہاردکھلارہے تھے۔سرزمین حجاز کے عود و عنبر پر لوگ ٹوٹے پڑتے تھے۔
اونٹوں کے کجاوں میں پھل تھے۔سبزیاں،خشک میوے اور دیگر سوغاتیں تھیں۔ایک گہما گہمی رونق میلہ۔خوبصورت اور حسین عورتیں سیاہ لبادوں اور سیاہ نقابوں میں لشکارے مارتی ریشم اور موتیوں کے تاجروں کے گرد بھاؤ تھاؤ کرتی تھیں۔کیا موہ لینے والے منظر تھے۔
بادشاہ کے حضور دربار میں سفیر قسطنطنیہ کی حاضری ہوئی۔تعریف تو ہوئی مگر۔۔۔۔کے بعد جملہ اُدھورا چھوڑ دیا گیا۔
منصور چونکا۔
”مگر کیا۔“
وہ تو قصیدہ سننے کا متوقع تھا۔
”تجارتی مرکز شہرکے اندر۔سخت غلطی۔ملک ملک کے لو گ آتے ہیں۔سو سجن بیلی،سو بیری دشمن۔کسی کے دل کا حال کون جانے؟کِسی کی نیت کا کھوٹ کون پرکھے؟حضور محفوظ نہیں۔
منڈی تو باہر ہونی چاہیے۔
اوریوں یہ کرخ بنا۔تجارتی مرکز۔ماضی کا بھی اور آج کا بھی۔تو میں جب تاریخ کی صحرانوردی میں گم تھی دفعتاً مجھے جیسے یاد آیا اور میں نے خود سے کہا۔
”ارے ماسکوکی تعمیر بھی تو دائروں کی صورت میں ہوئی۔پہلاچکر کریملین کا،کلومیڑبعد دوسرا دائرہ اوکھتونی ریاد کا،تیسری گول حفاظتی دیوار کی فصیل پھرچوتھی،پانچویں۔ان میں گلی کوچے مکان اور سڑکیں۔
آپ کو بھوک لگ رہی ہے۔بہت سپیشل چیز آپ کو کھلانے لے جارہا ہوں۔یہ عراقی آرمینئین لوگوں کی ڈش ہے۔باسترُماBasturma۔
سعدون سٹریٹ کے ایک بڑے خوبصورت سے ریسٹورنٹ میں داخل ہوئے۔ڈریکوریشن ایسی منفرد سی تھی کہ چند لمہوں کیلئے میں مبہوت کھڑی دیکھتی رہی۔لگتا تھا جیسے کسی نگارخانے میں آگئی ہوں۔
مدھم سروں میں موسیقی کی دلنواز دھنیں سارے ماحول پر بکھری ہوئی تھیں۔یہ باستر ما ڈش تھی۔اُسے کھاتے ہوئے اُسے بنانے کی جو تفصیل افلاق نے مجھے سنائی تھی اُس کے حسابوں سے تو گویا اسکی تیاری چند گھنٹوں میں کیا دنوں میں بھی نہیں کہیں ہفتوں میں جاکر ہوتی تھی۔
اب جب اُس نے اپنی مرحومہ بہن کے حوالے سے کہ اُسنے اپنی کسی آرمینیائی سہیلی سے اسکی ترکیب اس کے اصلی رنگوں کے ساتھ سیکھی تھی اور وہ اُسے پکا پکا کر بہت ماہرہوگئی تھی۔میں نے اِسے سُنا ضرور مگر نہ میری آنکھوں میں کوئی اشتیاق تھا اور نہ کانوں میں۔ آنکھیں لوگوں کو دیکھتی تھیں۔کان نامانوس آوازوں کو سُنتے تھے۔ اور دل کی دُنیا رنگینیوں کو دیکھتے ہوئے ہمک سی رہی تھی۔ اب مجھے یہ تو یاد رہا تھا کہ قصائی سے بہترین گوشت لینا ضروری ہے۔ پربہترین گوشت جوئے شیر لانے کے برابرخاص طورپر میرے ملک میں جہاں بے ایمانی ایمان کا حصّہ بن گئی ہے۔اب اسے نمک لگا کر گود کر فرج میں رکھے اور نکالے پھر رکھے اور پھر اُسے سائے میں خشک کرے۔
”ہائے اتنے سیاپے۔ارے اس سے بہترنہیں کہ وہ اپنا آلو گوشت ہی کھالو۔“
اور جب افلاق مجھ سے پوچھتا تھا آپ کو میں لکھ دوں گا اس کی ترکیب۔
”توبہ کرو افلاق میں تو انتہائی پھوہڑ عورت ہوں۔میں اور گوشت کو سات دن ہوا سے بھری چھاؤں میں خشک کرو ں ناممکن۔“
ٍ افلاق آرام کیلئے مجھے اُم اطبول کی مسجد شہدا میں لے آیا۔ام اطبول کا علاقہ قادسیہ کے پاس تھا۔
بہت خوبصورت مسجد تھی۔افلاق نے گاڑی پارک کی۔قالین قدرے بوسیدہ تھے۔تاہم رنگوں کی شوخی غالب تھی۔دو بوڑھی اور ایک جوان عورت بیٹھی باتیں کرتی تھیں۔میری طرف دیکھا۔مسکرائیں۔ہاتھ بڑھائے۔اھلاً و سہلاً کہا۔مگر کچھ بولنے اور سمجھنے سے قاصر تھیں۔میں نے ٹانگیں آرام کیلئے پساریں اورامریکہ کہا۔
لفظ امریکہ کہنے کی دیر تھی۔دونوں بوڑھیوں نے انگشت شہادت آسمان کی طرف اُٹھا دیں۔کیسا حُزن ویاس آنکھوں میں اُبھرا تھا؟کیسی بے بسی کا اظہار تھا چہرے پر؟نوجوان لڑکی غُصّے سے سُرخ تھی۔کاش مجھے عربی آتی۔ٹوٹی پھوٹی ہی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply